طارق خان ترین
اس وقت ملک کے طول و عرض میں جھوٹ، تہمتوں اور پروپیگنڈوں کی لہر نے سچ کو مغلوب کردیا ہے، نہ صرف بلکہ سچ اب معیوب نظر انے کی وجہ سے پیغور بن چکا ہے۔ جس ملک کو لا اله الا الله کی بنیاد پر آزاد کیا گیا آج بد قسمتی سے جھوٹ اور مکاریوں کا ایک گڑھ بن چکا ہے۔ ایک آزاد مملکت کا خواب لیے علامہ محمد اقبال نے جس تصور کو پیش کیا، اور جس کی تعبیر کو حقیقت میں بدلنے کیلئے بانیان پاکستان نے جو جدوجہد کی، آج وہ ایک دردناک حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے شرمندۂ تعبیر ثابت ہورہی ہے۔ آج ہمارے ملک میں ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے سچ کو جھوٹ جبکہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے، اور اس میں میڈیا، بڑے بڑے چینلز، صحافت سے وابستہ بڑے نام، بیش بیش ہونے کے ساتھ جھوٹ اور فریب کو پروان چڑھانے اور اسکی دفاع میں بڑے فخر کے ساتھ حاضری لگاتے ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا جسکے مالکان نا تو پاکستانی ہے اور ناہی پاکستان کے قانون ائین کے ساتھ انکا کوئی لگاو ہے، نے پوری کردی۔ بھلا انکو پاکستان کے مفادات کے ساتھ کونسی دلچسپی ہوگی؟ جو رویہ سوشل میڈیا کے مالکان کا ہے وہی رویہ ہمارے میڈیا چینلز اور اسکے مالکان کا ہے۔ یہ چینلز اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے اور اس پر پیسہ کمانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہے، پھر ریاست کیا اور ریاست کے مفادات کونسے!
ٹیکنالوجی ٹیکنالوجی کہہ کر لوگوں سے اخلاقی اقدار کو فراموش کردیا گیا، ذاتی مفادات پر مبنی سیاست نے انفرادیت کو پروان چڑھا کر شخصیت پرستی جیسی موذی مرض کو جنم دیا ہے۔ اندھی تقلید نے تحقیق جیسے روشن شمع کو بجا کر رکھ دیا، نظریات دب کر رہ گئے جبکہ مادہ پرستی ابھر کر سامنے ارہی ہے۔ کسی بڑے انسان نے کہا تھا کہ Technology without morality equals to rascality. ہمیں ٹیکنالوجی جیسے شعبے سے تب روشناز کروایا گیا جب ہمیں اس کے استعمال کا ذرا برابر بھی ادراک نا تھا side affects کی ےو دور کی بات ہے۔ آج ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں سوشل میڈیا نے 2010 کے بعد سے ہمارے معاشرے میں اپنے بنچے گاڑ رکھے ہے تقریبا 15 سال بعد ایک قانون بنایا گیا تاکہ اس بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالا جاسکے، اس پر بھی آج کچھ حلقوں کی جانب سے اعتراضات کیے جارہے ہے۔
دی پریوینشن آف الیکرونک کرائمز (پیکا) ایکٹ میں کچھ ترامیم کی گئی ہے، جنہیں لیکر ہمارے میڈیا فورمز اور اس سے وابستہ صحافی حضرات نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ اس بل کے کل 18 صفحات ہے، جنہیں میں نے لفط بہ لفظ پڑھا ہے۔ صحافی حضرات کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ درحقیقت اس بل کو حکومت اپنی تحفظ کیلئے بنا چکی ہے، وجہ یہ کہ جو بھی کوئی اگر پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ یا پھر ملٹری پرسنیل کے خلاف سوشل میڈیا پر بے تکی مواد شیئر کریگا تو اس کو اس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جائیگا اور اسکے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائیگی۔ حالانکہ یہ تو 2010 میں ہی ہونا چاہیے تھا جب سوشل میڈیا کی مقبولیت کی شروعات ہونے جارہی تھی۔ مگر کسی بھی ملک کو عوامی مفادات کے تحت چلانے کیلئے حکومت، عدلیہ، انتظامیہ اور فوج جیسے حساس ادارے کام کرتی ہے، اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو عدم استحکام پیدا ہونے سے ملک کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہی کچھ کرنے کیلئے ہمارے ملک میں سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہے۔
اس ایکٹ پر نظر ڈالتے ہے کہ آخر اس میں کونسی ایسی شقیں ہے جس پر واویلا کیا جارہا ہے۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ 1- سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائیگی جنکے اختیارات و فرائض اس ایکٹ کے شق 2B کے تحت کچھ یوں ہے۔ (1) متعلقہ میدان میں تعلیم اور تحقیق کو فروغ دینا؛ (2) سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی حوصلہ افزائی، سہولت فراہم کرنا اور اسے فروغ دینا؛ (3) عوامی اور نجی شعبوں میں پرنٹ، ڈیجیٹل یا سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے، یا کسی دوسرے میڈیم کے ذریعے مسائل کے حوالے سے آگاہی کو فروغ دینا؛ (4) سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر افراد کے آن لائن تحفظ اور حقوق کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانا؛ (5) پاکستان سے قابل رسائی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر قانونی یا توہین آمیز مواد کو ریگولیٹ کرنا؛ (6) سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی فہرست سازی کو منظم کرنا، (7) سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کو جاری کرنا، تجدید کرنا، مسترد کرنا، معطل کرنا یا منسوخ کرنا؛ (8) کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو جزوی یا مکمل طور پر بلاک کرنا اگر وہ اس ایکٹ کے تحت شرائط کی تعمیل کرنے میں ناکام ہو؛ (9) سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے ہدایات، احکامات اور معیارات جاری کرنا؛ (10) اس ایکٹ کی کسی خلاف ورزی پر درخواستوں پر کارروائی کرنا اور اس کے مطابق اقدامات اٹھانا؛ (11) باب 1A اور 1B کی دفعات یا اس کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر جرمانے مقرر کریں; (12) متعلقہ حکام (سوشل میڈیا) کو تحریری طور پر درج کردہ وجوہات کی بنیاد پر غیر قانونی یا توہین آمیز مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے کی ہدایت دینا، جو تیس دن کی مدت کے لیے ہو، اور زیادہ سے زیادہ مزید تیس دن کی توسیع اتھارٹی کے تمام اراکین کی اکثریت کی منظوری سے دی جا سکتی ہو؛ (13) آن لائن تحفظ سے متعلق کسی بھی مطالعے، تربیت یا تعاون کے منصوبے میں دیگر حکام، بین الاقوامی ایجنسیوں یا تنظیموں کے ساتھ ہم آہنگی یا شراکت کرنا؛ (14) اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے مطلوبہ معاہدے کرنا؛ (15) اپنے افسران اور عملے کی انسانی وسائل کی ترقی اور تربیت میں مشغول ہونا؛ (16) صلاحیت میں اضافے اور معلومات کے تبادلے کے لیے دیگر ممالک میں ہم منصب تنظیموں کے ساتھ روابط قائم کرنا اور تعاون کرنا؛ (17) متعلقہ کاروباری افراد کی صلاحیتوں میں اضافہ اور ان کی تربیت کرنا، اور انہیں سہولیات فراہم کرنا، انکیوبیشن سینٹرز قائم کرنا تاکہ ذمہ دار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو فروغ دیا جا سکے؛ (18) کسی بھی غیر ملکی امداد سے چلنے والے تکنیکی معاونت کے منصوبوں کے نفاذ میں ہم آہنگی کرنا؛ (19) شکایات وصول کرنے یا ان پر کارروائی کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بنانا اور ان کے ازالے کے لیے تدارکی نظام فراہم کرنا؛ (20) اس ایکٹ یا اس کے تحت بنائے گئے قواعد کی کسی بھی خلاف ورزی پر اپنی صوابدید پر یا کسی درخواست موصول ہونے پر کارروائی کا آغاز کرنا؛ (21) فرائض کی انجام دہی کے لیے ضرورت کے مطابق ایسی کمیٹیاں یا ذیلی کمیٹیاں تشکیل دینا، جیسا کہ مناسب سمجھا جائے؛ (22) مذکورہ بالا کسی بھی فرائض سے متعلق یا ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کسی بھی ضمنی یا ضروری کام کو انجام دینا۔ ایکٹ کے تحت شق 2C میں لکھا گیا ہے جو شخص جعلی اور جھوٹی معلومات سے متاثر ہو، وہ ایسی معلومات کو ہٹانے یا اس تک رسائی بلاک کرنے کے لیے اتھارٹی سے درخواست کر سکتا ہے، اور اتھارٹی ایسی درخواست موصول ہونے کے فوراً بعد، مگر بیس چوبیس گھنٹوں کے اندر، ضروری سمجھنے والے احکام جاری کرے گی، جن میں ایسی معلومات کو ہٹانے یا اس تک رسائی بلاک کرنے کا حکم بھی شامل ہو سکتا ہے۔
جو اہم سوالات اٹھائے جارہے وہ اس ایکٹ کے چیپٹر 1B کے 2R میں موجود “غیر قانونی یا توہین آمیز آن لائن مواد” کے شقوں پر ہے۔ اس کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے رکھتا ہوں۔ اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو آن لائن مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کی ہدایت دے، اگر ان مواد میں یہ چیزیں شامل ہو: (1) مواد پاکستان کے نظریات کے خلاف ہو؛ (2) جو عوام کو قانون کی خلاف ورزی کرنے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے، اور عوام، افراد، گروپوں، کمیونٹیز، حکومتی اہلکاروں اور اداروں کو دھمکانے، خوفزدہ کرنے یا دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی ترغیب دیتا ہو؛ (3) جو عوام یا عوام کے کسی حصے کو حکومتی یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے اکساتا ہو؛ (4) جو عوام یا عوام کے کسی حصے کو زبردستی یا دھمکی دے کر انہیں اپنے قانونی کاروبار کرنے سے روکے اور شہری زندگی کو متاثر کرے؛ (5) جو مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیاد پر نفرت اور حقارت اُکساتا ہو تاکہ تشدد بھڑکایا جائے یا داخلی بد امنی پیدا کی جائے؛ (6) فحش یا پھر عریانی پھیلاتا ہو؛ (7) جو جعلی یا جھوٹی ہونے کے طور پر جانا جاتا ہو، یا اس بات کے لیے کافی وجوہات موجود ہوں کہ اسے بلا شبہ جعلی یا جھوٹا سمجھا جا سکتا ہو؛ (8) مواد جو کسی شخص کے خلاف تہمت یا الزامات پر مشتمل ہو، بشمول عدلیہ کے ارکان، مسلح افواج، مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کے ارکان؛ (9) جو ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف دہشت گردی اور دیگر اقسام کے تشدد کو فروغ دیتا ہو اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہو۔
اسی ایکٹ کے اسی چیپٹر کے شق 2 میں لکھا گیا ہےکہ اس سلسلے میں کسی بھی دیگر پابندیوں سے متاثر ہوئے بغیر، جب مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کی رپورٹنگ کی جائے، تو ایسی کارروائی کا وہ حصہ جو چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، اسپیکر صوبائی اسمبلی نے کسی بھی معاملے میں حذف کرنے کا حکم دیا ہو، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کسی بھی طریقے سے نشر یا دستیاب نہیں کیا جائے گا اور اجلاس کی کارروائی کا منصفانہ بیان جاری کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ شق نمبر 3 میں لکھا گیا ہے کہ ممنوعہ تنظیموں یا ان کے نمائندوں یا ارکان کے بیانات کو کسی بھی طریقے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نشر یا دستیاب نہیں کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا کملئینٹ کاونسل بنایا جائیگا جس کا سربراہ ایک چیئرمین اور اسکے ساتھ اور مزید چار آفیسر تعنات کیں جائینگے۔ یہ کونسل افراد، تنظیموں اور عوام کی طرف سے اس ایکٹ کی کسی بھی دفعہ کی خلاف ورزی کے خلاف کی جانے والی شکایات کو وصول اور پراسیس کرے گی، جیسا کہ ضوابط کے ذریعے تجویز کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی حکومت اس قانون کے تحت چیئرمین جو ہائی کورٹ کے جج کا برابر ہو، ایک جرنلسٹ اور ایک سافٹویئر انجنیئر بطور ممبر کے سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل کا قیام کریگی۔ یہ ٹریبونل وہ اختیارات استعمال کرے گا اور وہ فنکشنز انجام دے گا جو اس ایکٹ یا اس کے تحت بنائی گئی قواعد کے ذریعے اس پر تفویض یا سونپے گئے ہوں گے۔ یہ ٹریبونل کسی بھی شخص کو جو جان بوجھ کر کسی معلوماتی نظام کے ذریعے ایسی معلومات کو پھیلائے، عوامی طور پر دکھائے یا منتقل کرے جسے وہ جانتا ہو یا جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ جھوٹی یا جعلی ہے اور جو عوام یا معاشرے میں خوف، دہشت، بدامنی یا اضطراب پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہو، اسے تین سال تک قید، دو ملین روپے تک جرمانہ، یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
کسی بھی شخص کو باوجود اسکے کہ ٹربیونل نے سزا دی ہو، اس ایکٹ کے تحت 60 دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق رکھتا ہوگا۔
پیکا ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت اہف ائی اے مین ایک تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی جس کا نام نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (NCCIA) ہوگا، جو اس ایکٹ کے تحت مقرر کردہ جرائم کی تفتیش، تحقیق اور مقدمہ چلانے کے لیے کام کرے گی۔ جسکے سربراہ ایک ڈائریکٹر جنرل ہونگے جنہیں وفاقی حکومت 3 سال کیلئے تعینات کریگی۔ ایف ائی اے کی سائبر کرائم ونگ کو NCCIA میں ضم کیا جائیگا۔ NCCIA اس ایکٹ کے تحت انکوائریز، انویسٹیگیشن اور پراسیکیوشن کی ذمہ داریاں سرانجام دیگی۔
اب سوال یہ اتھایا جارہا ہے کہ کون یہ ثابت کریگا کہ کسی شخص نے واقعی میں مس انفارمیشن، پروپیگنڈوں، بہتان تراشی، وغیرہ پر مبنی معلومات ان پلیٹ فارمز پر شیئر کی ہو؟ درجہ بندی کے لحاظ اگر دیکھا جائے تو یہ کام ایف ائی اے کے ادارہ NCCIA کی زمہ داری ہوگی جنہوں نے کسی بھی فیک معلومات پر موصول شدہ کملئین جو سوشل میڈیا کملئینٹ کاونسل کی طرف سے انہیں موصول ہو پر انویسٹیگیشن کرے اور پراسیکیوشن کے عمل کو ٹریبونل کے سامنے ایمانداری اور مدلل طریقے سے کرے۔ دوسرا سوال یہ کہ اس ترمیمی ایکٹ کا پاس کرنے کیلئے صحافتی تنظیموں یا پھر صحافی حضرات سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی؟ جیساں کہ پہلے گزارش کر چکا ہوں کہ فیک نیوز کو کاونٹر کرنا کیا صحافیوں کا فرض نہیں تھا کہ وہ انکو اور انکے پھیلاتے والوں کو ایکسپوز کرتے؟ کیا ائے دن ریاست اور اسکے اداروں پر لعن طعن کرنے والوں کی غپاڑہ گردی ان سے چھپی ہے؟ اسی سوشل میڈیا پر جنرل سرفراز شہید کی شہادت پر جس انسانیت سوز رویے کا مظاہرہ ایک جماعت کی جانب سے کیا گیا، کیا وہ رویہ کسی کو معلوم نہیں؟ سابقی ڈی جی ائی ایس ائی ندیم انجم، موجودہ آرمی چیف عاصم منیر، سابقہ چیف جسٹسز، بیوروکریٹکس، سیاستدان کونسا ایساں طبقہ ہے جنکو بخشا گیا ہو۔ کیا آج بھی پاکستان میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے پروپیگنڈا نہیں پھیلایا جاتا؟ کیا آج بھی اس ملک میں غیر ملکی اکاونٹس کے ذریعے انتشار نہیں پھیلایا جارہا؟ کیا فوج میں بغاوت کی باتیں سر عام نہیں کی گئی؟ کیا پاکستان دیوالیہ کی باتیں کرنے والے آج بھی آزاد نہیں گھوم رہیں؟ کیا 9 مئی کا گٹھ جوڑ اسی سوشل میڈیا کا شاخسانہ نہیں؟ ان سب پر صحافتی برادری کی جانب سے خاموشی کیونکر اختیار کی گئی؟ کیا اخلاقی جواز چھوڑ رکھا گیا؟ فرض کیجئے اگر ان صحافتی حضرات سے اس قانونی عمل میں مشاورت کی بھی جاتی، جنہیں میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو ضرور کرنی چاہیے تھی، قانون کے زیادہ تر شقیں جن پر اعتراضات ہے کو میں نے ترجمہ کرکے لکھ دیا اس میں اعتراض کی گنجائش موجود ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جسطرح سے صحافتی برادری نے فیک نیوز کی روک تھام میں غفلت سے کام لیا شاید حکومت نے جان بوجھ کر انہیں قانون کی منظوری کے اس عمل سے دور رکھا۔ حالانکہ حکومت کو ایساں بالکل بھی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے جسکا ہیڈکوارٹر UK کے شہر لندن میں ہے، یورپی یونین کے ملک بیلجیئم کے برسل میں ای یو ڈس انفو لیب کا دفتر موجود ہے جنہوں نے 2019 میں Indian Chronicles کے عنوان سے 15 سالہ گہری تحقیق سے بھارت کو ایکسپوز کیا جس میں انڈیا کی جانب سے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کیلئے جو مس انفارمیشن پھیلائی گئی، شاید ایمنسٹی انٹرنیشنل کو نہیں پتہ کہ جب آپ کا ملک یورپی یونین کا حصہ تھا بریگزٹ سے پہلے تو اسی یورپی یونین کے ایک سٹیٹ کے ایک ادارے نے پاکستان کے خلاف بھارتی مذموم عزائم کا پردہ چاک کیا تھا۔ ایچ آر سی پی کی جانب سے بھی اس ایکٹ کے حوالے تشویش کی جارہی جو خود ممبر ہے فیڈریشن آف انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کا جسکی ہیڈکوارٹر بھی یورپی یونین کے ملک فرانس میں واقع ہے۔ شاید وہ بھی بھلا بیٹھے ہے ای یو ڈس انفولیب کے انکشافات کو؟ ویسے ان تنظیموں کو غزہ اور کشمیر میں جاری مسلم نسل کشی پر تو شاید سانپ سونگھ جاتا ہے۔ امریکی کانگریس کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات پر قرارداد پاس کرنا شاید یہ تنظیموں کو مداخلت نہیں سمجھتی؟ دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے بے گنا شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے پر یہ لوگ خاموش کیونکر ہوا کرتے ہے؟ ریجن میں بھارتی دہشتگردی جسکی سب سے بڑی مثال کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے سے انکو کوئی فرق کیو نہیں پڑتا؟ کیا امریکہ میں Patriot Act 2001، Sedition Act ایکٹ نہیں جنہیں دہشت گردی اور سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر حکومت کو آن لائن کمیونیکیشن پر نگرانی کی اجازت دیتا ہے؟ کیا برطانیہ میں Online Safety Bill یا پھر Counter Terrorism & Security Act 2015 کا قانون موجود نہیں جس کے مطابق، سوشل میڈیا پر جھوٹ، نفرت انگیز تقاریر، اور عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکانے پر 10 سال تک قید اور بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ جرمنی، فرانس، وہ دیگر ممالک میں کیا سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون نہیں بنے؟ یا پھر ان تنظیموں کے پاس کرنے کو کچھ اور کام ہے ہی نہیں؟ یہ سوالات عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں اور عوام ان سوالات کے جوابات سے خوب واقف ہے۔