تحریر ظفر اقبال ظفر
یہ تحریر حراست غربت میں جکڑی زندگی کو جینے والوں کی روح پر پڑے حالات کے نیلے نشانوں کی ہلکی سی جھلک ہے۔ اسے نیکوکار امیروں کے خلاف فتویٰ نہ سمجھ لیجئے گا یہ مال و دولت کی پوجا کرنے والے اُن اندرونی جسموں کے منظروں کی نشان دہی ہے جن کے بیرونی حیلے مذہبی و غیر مذہبی اچھائیوں کے فریبی لباس پہنے پھرتے ہیں جن کی پہچان تب ہوتی ہے جب ان سے واسطہ پڑتا ہے بنا معاملات کیے میں کسی کی گواہی دینے پر یقین نہیں رکھتا۔
یہ حق میں صرف خود سے پہلے گزر جانے والے اچھوں اور سچوں کو دیتا ہوں جن کی شہادت جیتے ہوئے مقدمہ انسانیت کی کتابوں میں ملتی ہے۔میں نے اپنی مجبوریوں کا گلہ کاٹتی غربت کی تلوار کو پگھلا کر فاقے کا قلم بنا لیا جس میں بھری تو بھوک کی سیاہی ہے مگر لکھے جانے والے تمام سچ صحت مند ہی ملیں گے دعا ہے پڑھنے والوں کے دماغوں کے معدے کا ہاضمہ درست ہو۔
جس انسان کی زندگی اپنوں اور بیگانوں کی وجہ سے لاتعداد محرومیوں سے بھری پڑی ہو دل موم کا اور زمانہ پتھر کا ملا ہو اوپر سے صاحب اولاد بھی ہو اور رہتا ایسے معاشرے میں ہو جہاں حلال کا فقدان کثرت سے پایا جاتا ہو وہاں ایک جاگتے ایمان و ضمیر کا غریب انسان روز صبح کو یوں اُٹھتا ہو جیسے آواز صور سن کربے چارے مردے اپنی بے حساب درد مند زندگی کا حساب دینے کے واسطے اپنی اپنی قبروں سے اُٹھتے ہیں۔ غربت کی زندگی کو جینے کا شوق جنون کی حد تک نہیں پہنچتا کتنے ہی ایسے انسان ہیں جنہیں اگر اپنے رشتوں کے لیے زندہ رہنے کی مجبوری نہ ہوتی تو وہ اپنے درد بھرے مقدر کا چہرہ دیکھتے ہی اسے قدرت کو واپس دے کر عالم ارواح میں لوٹ جاتے کیونکہ دنیا کی زندگی زمینی خداؤں کے زیر سایہ گزارنا آسمانی خدا کے ماننے والوں کے لیے احساس جہنم ہے۔
دنیا اور غربت دو الگ امتحان ہیں جیسے صرف انبیاء اولیاء فقیر درویش اس وجہ سے پا س کر لیتے تھے کہ ان کے پاس خدائی رابطے کی طاقت تھی پیغمبر کہہ سکتا ہے کہ میں غریبوں میں سے ہوں مگر کوئی غریب نہیں کہہ سکتا کہ میں پیغمبروں میں سے ہوں اس کے باوجود خدا کا تحت غریبوں کا دل ہے اور ایسے کئی واقعات ہیں جن میں خدا غریبوں کے جسم کا لباس اُوڑھ کر صاحب مال لوگوں کو آزمانے ان کے پاس جاتا ہے اور خدا تک پہنچنے والوں نے بھی غریبوں کی مدد سے کم وقت میں جلد پہنچنے کا نتیجہ پایا ہے اس کی وضاحت میں یہ واقعہ پڑھ لیجئے۔
ایک بندے نے خدا سے سوال کیا کہ اے خدا تیرے وہ بندے کہاں ہوتے ہیں جن کی تو کوئی بات نہیں ٹالتا؟خدا نے اسے بازار میں ایک برتن فروشی کی دوکان پر بیٹھے انسان کی نشان دہی کی۔ یہ بندہ خدا کے تعلق میں رہنے والے بندے کو اس غرض سے دیکھنے گیا کہ وہ کون سا عمل ہے جو خدائی رابطے کا وسیلہ بنتا ہے اس بندے نے دیکھا کہ بازار میں ایک عورت اپنی دیچکی فروخت کرنے کے لیے دوکانوں پر جاتی ہے اور اس کی قیمت سن کر پلٹ آتی کوئی دو دینار لگاتا تو کوئی تین دینار لگاتا زیادہ سے زیادہ پانچ دینار لگے یہ بندہ اس عورت کے پیچھے پیچھے سارا معاملہ دیکھتا ہوا جا رہا تھا کہ وہ عورت اُس برتن فروش انسان کے پاس پہنچی جس کے پاس خدانے اس سوالی کو بھیجا تھا وہ دیکھتا ہے کہ یہ برتن فروش اس عورت کو دیکھتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا اس کے ہاتھوں سے دیچکی پکڑتے ہوئے کہنے لگا یہ تو قیمتی ہے میں اسے خریدنا چاہوں گا اور تیس دینار اس عورت کے ہاتھوں پر رکھے تو اس عورت کے غمزادہ چہرے پر خوشی کی بہار نمودار ہونے لگی وہ رقم ہاتھوں میں لیتے ہی اسے دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہو گئی اس عورت کا تعاقب کرنے والا یہ شخص جو سارا معاملہ دیکھتا آ رہا تھا اس نے اس بندے سے کہا کہ سارے بازار میں اس دیچکی کی پانچ دینا رسے زیادہ قیمت کسی نے نہیں لگائی اور تم نے اسے تیس دینار میں خرید لیا؟
اس پر اس بندے نے کہا کہ یہ دیچکی کے پیسے نہیں ہیں یہ اس کی دوائی اور راشن کے پیسے ہیں یہ میرے پیسے نہیں ہیں یہ خدا کے پیسے ہیں میں تو خدا کے مجبور بندوں میں تقسیم کرنے کی ڈیوٹی دے رہا ہوں۔یہ جو دیکھنے آیا تھا کہ وہ کون سے بندے ہیں جن کی خدا کوئی بات نہیں ٹالتا سارا معاملہ دیکھ کر اپنے جواب کے ساتھ لو ٹ آیا۔
خدا مجبوروں ضرورت مندوں کے روپ میں صاحب حیثیت لوگوں کے پاس آزمائش بن کر جاتا ہے کہ اُس وقت جو مدد کرتے ہیں وہ انسانوں کی نہیں خدا کی مدد کرتے ہیں اور خدا قرض نہیں رکھتا اور جو خدا سے نظریں پھیر کر مال کو عزیز رکھتے ہیں خدا انہیں ملنا تو دور کی بات اپنی ذات کی خوشبو بھی نہیں سونگنے دیتا۔
کتنے ہی ایسے والدین چار سونظر آتے ہیں جو بے سروسامانی کے حالات میں اپنے خون جگر سے اولاد کے پودوں کو سینچ کر پروان چڑھاتے ہیں جنہیں دیکھ کر دل سے خون کی بوندیں ٹپکنے لگتی ہے اور آنکھیں آنسوؤں میں ڈبڈباتی ہیں۔میرے نزدیک حقوق العباد کا سب سے بڑا مجرم وہ مذہبی بندہ ہے جو کثرت مال رکھنے کے باوجود کسی کی دنیا آسان کرنے کی بجائے اس کی آخرت آسان کرنے کا فریب خادم دین بن کر دیتا ہے جو خادم انسان نہیں وہ خادم دین و خدا نہیں ہو سکتا۔
جہاں مجھے دنیا کی دوزخ میں پھنسے غم و لاچاری کے ماروں کا درد اپنے سینے میں محسوس ہوتا ہے وہاں ایسے لوگوں کی آخرت کی چیخیں بھی اپنے کانوں میں سنائی دیتی ہیں جو انسانیت سے منہ موڑ کے دل دولت کی جانب رکھتے ہوئے اپنے ضمیر میں مار بیٹھتے ہیں۔ایسے مالدار قابل رحم تو ہیں کہ جن کے پاس مال کے علاؤہ کوئی نیک اعمال نہیں ہوں گے یہ روز قیامت بدنصیب بن کر لرزاں وترساں کھڑے ہونگے تب خدا ان سے وہ سلوک کرئے گا جو یہ دنیا میں خدا کے بندوں سے کیا کرتے تھے ان کی پیشانی سے پسینے کی بوندیں ٹپکیں دل پہ بجلیاں گریں یا آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے پھوٹیں غریبوں کا خدا ترس نہیں کھائے گا۔
کتنے ہی ایسے مالدار لوگ ہیں جو دوسروں کی مدد کے جذبہ ایمانی سے محروم تو ہوتے ہی ہیں مگر خود بھی اپنی زہنی غربت کی وجہ سے فاقے کاٹ رہے ہوتے ہیں میں نے ایسے مذہبی مالدار بھی دیکھے ہیں جو بڑی بڑی دینی علمی گفتگو کے ساتھ عبادت گزار نظر آتے ہیں مگر جب کوئی ضرورت مند ان کے سامنے دست سوال کرتا ہے تو یہ دو کوڑی کے نکلتے ہیں لوگوں کی مجبوری خریدنے میں فائدہ مال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا سودا کرتے ہیں کہ منافع جیت جاتے ہیں اور انسانیت ہار جاتی ہے۔
نحوست کثرت زر کی بیماری میں یہ لاعلاج لوگ خدا سے محبت کی بات کریں تواس کے معنی ہیں مقدس محبت کی تخفیف و توہین کرنے والے۔جس طرح نیکوکار لوگوں کے دلوں کا نور ان کے چہروں پر عیاں ہوتا ہے اسی طرح طالب دنیا کے دل میں حوس کا تواتر چہرے پر لالچ کا پیدا کردہ عکس دیکھاتا ہے۔
یہ ایک مجبور ہی بتا سکتا ہے کہ ایک مصیبت سے دوسری مصیبت تک کا درمیانی فاصلہ سکون حیات کہلاتا ہے وہ دو بندے آپس میں اچھے ہمدرد بن جاتے ہیں جن پر زندگی کی تلخیاں ایک جیسی گزر رہی ہوتی ہیں۔
ایک بندہ سردی کی راتوں میں اپنے نرم وگرم بستر میں لیٹا خدا سے کہہ رہا تھا کہ اے خدا میں تجھ سے ملنا چاہتا ہوں۔تو خدا نے جواب دیا کہ یاد کر شدید سردی کی اُس رات جب تو اپنے نرم و گرم بستر میں لیٹا تھا اور تیرے دروازے پر ایک پٹھے پرانے کپڑوں میں ملبوس سردی سے ٹھرٹھراتا ہواغریب شخص سوال کرنے آیا تھا اور تو اُٹھ کر جا نہ سکا۔۔۔وہ تو میں تھا۔