تحریر۔حبیب شیخ
”آخر وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے، مجھے وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔“
ٹھیک ساڑھے تین بجے دروازے پہ دستک ہوئی۔
میں نے لپک کر دروازہ کھولا۔ پچاس سالہ سعید ہی تھا لیکن یہ کیا؟ اس نے کئی گٹھڑیاں اپنے پر لادی ہوئی تھیں، کندھے جھکے ہوئے، چہرے پہ ایک مصنوعی مسکراہٹ۔ کچھ لمحے تو میں اسے دیکھتا ہی رہا۔ پھر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میں نے فوراً اسے اندر آنے کے لئے کہا۔
سعید کو شاید بات شروع کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔
میں نے اس کی گٹھڑیوں کے بارے میں بات کرنے سے احتراز کیا اور موسم کی بات شروع کردی۔ چائے پہ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ لیکن میرا ذہن ان گٹھڑیوں میں الجھا ہوا تھا۔ میں نے کچھ لمحے خاموش رہ کر سعید کو موقع دیا کہ وہ ان کے بارے میں بات شروع کرے۔
”یار، میں تم سے کچھ باتیں شیئر کرنا چاہتا ہوں۔“
”ہاں ہاں ضرور۔ یہ باتیں کبھی کسی اور کے کانوں تک نہیں پہنچیں گی۔“
”اسی لئے تو تمہارے پاس آیا ہوں۔“
اس نے ایک گٹھڑی کھولی اور اس کے اندر جو کچھ تھا، اس کے بارے میں بتاتا رہا اور میں خاموشی سے سنتا رہا۔ کئی مرتبہ سعید کی آنکھیں نم ہو گئیں لیکن اس نے آنسوؤں کو بہنے نہیں دیا۔ پھر اس نے دوسری گٹھڑی کی گرہیں کھولیں۔ اب وہ زبان کے بجائے آنسوؤں کے ذریعے بات کر رہا تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔ اس نے باری باری باقی گٹھڑیاں بھی کھول دیں۔ آخری گٹھڑی کے بعد وہ میری طرف دیکھنے لگ گیا۔
میں کرسی سے اٹھا، اسے ہاتھ سے پکڑ کر صوفے سے اٹھایا اور اسے گلا لگا لیا۔ ”میں تمہاری باتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔“
سعید دوبارہ صوفے پہ بیٹھ گیا۔ ”بتاؤ کہ میں کیسے ان سے نمٹوں۔ مجھے تم پہ پورا اعتماد ہے۔“
میں نے کوئی جواب نہیں بلکہ اس کے ساتھ کرکٹ کی لیگ کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔
سعید اب بھی جھکا جھکا سا بیٹھا ہوا تھا۔ پھر اس نے بہت آہستہ سے کہا۔ ”اچھا، اب میں چلتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے لیکن یہ ماضی کی یادوں کی گٹھڑیاں یہیں چھوڑ جاؤ، ہمیشہ کے لیے۔“
سعید کے چہرے پہ ایک چمک سی آئی۔ ”یار تمہارے پاس بھی کیا ماضی کی گٹھڑیاں ہیں؟“
” ہاں، لیکن وہ کہیں کھو گئی ہیں۔“
” میں سمجھا نہیں، کھونے سے کیا مراد؟“ سعید کے ماتھے پہ تیوریاں نمودار ہوئیں۔
” میں ایک حسین مرض میں مبتلا ہوں! “
” کون سا مرض؟ اور وہ بھی حسین۔“ اب اس کا چہرہ ایک سوالیہ نشان بن گیا تھا۔
” میں بہت حساس انسان ہوں، انسانیت پہ مظالم کے سامنے میری چند ایک مصیبتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ “
” پھر تو تم ہر وقت پریشان رہتے ہو گے! “
میں کچھ دیر خلا میں گھورتا رہا۔
” پریشان تو نہیں رہتا البتہ دل میں سوز کی ایک گٹھڑی نے بسیرا کر لیا ہے۔ اور یہ حسین اس لئے ہے کہ یہی سوز مجھے تخلیقی عمل سے نوازتا ہے، اور انسانوں پہ نا انصافیوں کو قلم اور کاغذ کے ذریعے اجاگر کرواتا ہے۔ اس لئے مجھے اس مرض سے کوئی شکایت نہیں ہے! “
اب سعید مسکرا رہا تھا۔ ”ہاں، سوز میں بڑی طاقت ہے۔“
اور اقبال کا یہ شعر کہا۔ ؎
” دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے۔ ”
وہ مجھ سے ایک بار پھر بغلگیر ہوا اور باہر نکل گیا۔