محکموں کی غنڈہ گردی

تحریر۔وقار احمد خان

ہمارے ارباب اختیار محکموں کے فنڈز بڑھانے کے لیے بہت سے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کو کہا جاتا ہے کہ آپ نے ماہانہ اتنے چالان کرنے ہیں۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ جو ٹریفک کی خلاف ورزی کرے اس کا چالان کرو۔ اس وجہ سے وہ بلا جواز بھی چالان کرتے ہیں۔ اسی قسم کی کارروائیاں سوئی گیس کا محکمہ بھی کرتا ہے مگر نمبر ون بجلی کا محکمہ لے گیا ہے۔

مشرف کے دور میں لوگوں کو فضول ڈیٹکشن بل ڈالے گئے میں خود بھی اس کا شکار ہو چکا ہوں اور ظاہر ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا جاسکتا کہ کوئی چوری میں ملوث ہے یا نہیں۔ کسی بھی جگہ بجلی چوری اہلکاروں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں اگر کہیں چوری پکڑی جائے تو اس جگہ متعین اہلکار کو بھی شریک جرم تصور کیا جانا چاہیے۔

اب بھی محکمے کے اہلکاروں کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ نے اتنے بندوں کے خلاف چوری کا مقدمہ کروانا ہے اب کوئی چوری کرتا ہے یا نہیں آپ نے اتنے چور بنا کر پکڑنے ہیں۔ اب جو اصل چور ہیں وہ تو واپڈا کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر چوری کرتے ہیں اس لیے ان کو وہ کیوں پکڑیں گے۔ اب اہلکار خانہ پری کے لیے شریف مڈل کلاس کے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دیتے ہیں۔ شریف آدمی ایک چکر میں پھنس جاتا ہے پہلے تو پولیس والوں کا منت ترلا کرتا ہے اس کے بعد وکیلوں کو پیسے کھلا کر ضمانت کرواتا ہے۔ مگر یہ ضمانت ہفتہ دس دن کی ہی ہوتی ہے لاچار واپڈا والوں کو غنڈہ ٹیکس کی مد میں پیسے دیتا ہے۔

ہمارے صحافی اخباروں میں خبریں لگاتے ہیں کہ چھپن ہزار تین سو پچپن بجلی چور گرفتار، تین ارب چار کروڑ جرمانہ۔ جب کہ یہ بیچارے سب بے قصور ہوتے ہیں مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، محکمے کو تو پیسے مل گئے۔ محکمہ اپنے فنڈز بڑھانے کے لیے بجلی کے بل بڑھاتا جاتا ہے اس سے بھی پیٹ نہیں بھرتا تو غریبوں کے گلے پر ہاتھ رکھ انہیں چور بنا کر پیسے وصول کرتا ہے مگر جن لاڈلوں کو مفت بجلی دیتا ہے ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں جتنی چاہیں بجلی اڑائیں اور جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ ان کے ناز نخرے اٹھانے کو غریب عوام ہے نا، پھر وہ کیوں پریشان ہوں۔

بے چاری عوام نہ تو اتنا پیسہ رکھتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ عدالتوں کے دھکے کھائے اور جب کہ انصاف ملنے کی امید بھی نہ ہونے کے برابر ہو۔ اسی کمزوری کا فائدہ بجلی کا محکمہ اٹھا رہا ہے۔ جب کسی پر جھوٹا مقدمہ درج ہو جاتا ہے تو وہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ان ڈاکوؤں کو ان کی مطلوبہ رقم ادا کرے۔ میرا تو ایک یہی مطالبہ ہے کہ بجلی چوری کی ایف آئی آر بجلی چور کے ساتھ ساتھ متعلقہ اہلکار کے خلاف بھی ہونی چاہیے کیونکہ بجلی اہلکاروں کی مدد کے بغیر بجلی کی چوری ممکن ہی نہیں اس لیے جتنا قصور وار میٹر والا ہے اتنا ہی وہ اہلکار بھی ہے جو وہاں متعین تھا۔

ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی تحقیقات کرے کہ محکمے اتنے بے لگام کیوں ہیں کہ اپنے اندر کالی بھیڑوں کو پکڑنے کی بجائے عوام کو تنگ کرتے ہیں۔ چوری بھی اسی لیے بڑھتی ہے کہ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر پیسے ہی بھرنے ہیں تو محکمے کو بھرنے کی بجائے اہلکاروں کو ہی بھرے جائیں اور وہ محکموں کی اس قسم کی بدمعاشیوں سے بھی محفوظ رہیں اور پیسے بھی کم خرچ ہوں۔ جب چوری کیے بغیر بھی پکڑے جانا ہے تو چوری ہی کیوں نہ کی جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *