تحریر۔ڈاکٹر عمیر انصاری
مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کے ساتھ ریاست کا چوتھا ستون ہونے کا شرف کسی ڈاکٹر، انجینئر، مولوی یا بھانڈ و مسخرے کی بجائے آپ کو حاصل ہے۔ یہ صرف پیشہ نہیں کار عظیم ہے کہ قلم کی حرمت قائم رکھیں، قوم کی سمت متعین کریں، انہیں سوچنا سکھائیں، واچ ڈاگ بن کر عوام کے حقوق کی حفاظت کریں۔ رائے سازی کا بارگراں اٹھایا تھا آپ نے، صحافت کی حرمت آپ کے قلم کی مرہون منت تھی، آپ کے کہے گئے الفاظ سند کا درجہ رکھتے تھے۔
مگر آزادی اظہار کے نام پر اس حمام میں چھلانگ لگانا ترجیح قرار پائے جہاں کی قدر مشترک بے ہی لباس ہونا ہے تو پھر عزت و ساکھ چہ معنی؟
کروڑوں ناظرین، سامعین اور قارئین کی ذہن سازی میں آپ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ آپ کے انداز گفتار، طرز بیان، نشست و برخاست اور خبر و تجزیے کا ان پر اثر ہوتا ہے۔ کیوں ناں کچھ محققین کو اس کام پر لگایا جائے کہ آپ کے پچھلے کچھ سالوں کے موقف کو ایک جگہ جمع کر کے کچھ نتائج اخذ کیے جائیں اور آپ کے کنٹریبیوشن کو سائنسی انداز میں جانچا جائے۔ مگر ہماری جیسی سوسائٹی میں اس ’کار عبث‘ کو شاید وقت کا زیاں ہی سمجھا جائے۔
کیونکہ فی زمانہ حکومت اور اپوزیشن کی چپقلش سے بٹ کر کوئی واقعہ خبر رہا ہی نہیں ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل کا ذکر، ان کے سدباب کے ضمن میں کی جانے والی کوششوں کا فالو اپ کب کا قصہ پارینہ ہوا۔ پاپولر بیانیے سمیت نامکمل سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ کے سازشی نظریات کی ترویج و اشاعت کو بام عروج حاصل ہے۔ پہلے صفحے کو اشتہار بنا دیا گیا سب منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ سینکڑوں ملازمین کو بیک جنبش ملازمتوں سے نکال دیا گیا، سینئر رسمی احتجاج پر اکتفا کرتے رہے، کئی کئی ماہ تنخواہیں روکی جاتی رہیں، سب چپ سادھے دبکے رہے۔ ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کا منجن آپ کی ناک کے عین نیچے بکتا رہا مگر مجال ہے جو کان پر جوں تک رینگی ہو۔
کرکٹ جو محض تفریح طبع کا ایک کھیل ہے اس کھیل تک کے قواعد و ضوابط اس قدر سخت ہیں کہ میچ فکس کرنے والے کھلاڑی قابل تعزیر قرار پائے، قوم ان پر تھو تھو کرتی رہی، انہوں نے سزائیں اور جرمانے بھگتے۔ جبکہ شعبہ صحافت میں بار بار ایکسپوز ہونے کے باوجود چند ایجنڈا سیٹر لفافی اسی مست خرامی سے گاہکوں کا دل لبھاتے رہے۔ دھڑلے اور بے شرمی سے تصویر کا ایک رخ دکھا کر چینل بدل بدل کر قوم کو گمراہ کرنے کی زرد ذمہ داری پوری کرتے رہے۔ مگر ہم میں اتنی اخلاقی اور پیشہ ورانہ جرات پیدا نہ ہو سکی کہ ایسی غلیظ کالی بھیڑوں کو علی الاعلان اپنی صفوں سے باہر نکال پھینکیں۔ پریس کلب، صحافتی تنظیمیں، صحافتوں کے نمائندہ ”ان جیسوں“ کے محاسبے کے لیے کیا کرتے رہے؟
آپ صحافت کے مسند نشین آخر کتنے سوانگ بھریں گے۔ ادھورا سچ ہر بار نئے زاویے تراشے گا۔ آپ مجبوری کا ڈھونگ ڈپانگ رچائیں گے، عوام میں ہڑبونگ مچے گی۔ آپ کا کیا جائے گا؟ تھوڑا سا مال ہاتھ آئے گا، آشیر باد مل جائے گی یا بھرا پیٹ اور پھول جائے گا۔ مالکان گردی اور نوکری بچانے کا راگ الاپتے الاپتے قوم کی ایسی تیسی ہو جائے، آپ کی بلا سے۔ اچھے پیکج کی خواہش میں چینل پر چینل آپ سوئچ کریں، اپنی آستینوں سے نت نئے بیانیے کہ کبوتر نکالیں، اینگلنگ کی ایسی دھماچوکڑی مچائیں کہ سچ خود کشی کر لے، حق نمک ادا کرنے کی اتنا تیز دوڑیں کہ سبقت لے جانے کی دھن میں ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ ڈالیں لیکن بس آپ کے چوبارے کی رونقیں برقرار رہیں۔
مین اسٹریم پر تو یہ غل غپاڑہ مچایا ہی تھا سوشل میڈیائی آلودگی میں بھی نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ روز روز نتھ اتروائی تو بازار میں بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ آپ اپنا موقف کتنی بار بدلیں گے۔ دھڑا دھڑ دکانیں کھل رہی ہیں۔ دروغ گوئی، اپنی پسند کا ادھورا سچ، پروپیگنڈا، بے بنیاد الزامات پسندیدہ پیکنگ میں برائے فروخت ہیں۔
صحافتی اخلاقیات، اقدار و پیشہ وارانہ تقاضے برطرف، ویوز اور وائرل ہونے کی خاطر ایک طوفان بدتمیزی ہے۔ ہر سمت مولا جٹ اور نوری نت کی ہاہا کار کا سا سماں ہے۔ چائے کی پیالی میں وہ طوفان اٹھایا جاتا ہے کہ کان پڑے آواز سنائی نہ دے اور عوام کو بھی اس چورن کی ایسی لت لگی ہے کہ سماعتوں میں انڈیلا جانے والا زہر ہی ان کا تریاق بنتا جا رہا ہے۔ جوتیوں میں دال بٹ رہی۔ بچہ بچہ شکل دیکھ کر لفافے کا مضمون بھانپ رہا ہے۔
سوسائٹی کا ٹرینڈ سیٹر، عوام کو پورا سچ بتانے والے، حقائق سے آگاہ کرنے والے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے بھی آپ ہی تھے ناں؟ صد حیف کہ ہل من مزید ہل من مزید کی حرص میں اسمان سے زمین پر آ گرے۔
صحافت کے ادنی طالب علم ہونے کی حیثیت سے اور ایک طویل عرصے سے میڈیا سے وابستہ ہونے کے باوجود طالب علموں کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب کتاب سے نہیں ملتا۔ تکنیکی تقاضے، پروفیشنل مہارت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے گیپ پر تو ہم جلد یا بدیر قابو پا ہی لیں گے تاہم کتابوں میں پڑھائی جانے والی صحافتی اخلاقیات، پیشہ ورانہ معیارات و صحافتی قوانین اور عملی صحافت میں جو بعد المشرقین ہے اسے کیسے پاٹا جائے گا؟
قحط الرجال یہاں تک ان پہنچا ہے کہ ملکی، قومی و بین الاقوامی نوعیت کے سنجیدہ ترین معاملات و موضوعات پر یکسو ہونے کے بجائے آپ پارٹی بن کر طبقات میں بٹ چکے ہیں۔
خبر اور تجزیے کا فرق کب کا مٹ چکا۔ چینل کا نام، اینکر اور صحافی دیکھ کر بغیر ایک لفظ سنے ہوئے ’پرو پارٹی یا اینٹی پارٹی‘ پالیسی سمجھ آجاتی ہے۔ سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اشرافیہ پر انگلی اٹھانے والے بتائیں کہ عوام کو خانوں میں بانٹنے میں آپ نے کیا کسر چھوڑی؟ چسکے لے لے کر پٹاری سے طرح طرح کے سانپ نکالنا آپ کا کام تھا؟ ’مینوں نوٹ دکھاتے میرا موڈ بنے‘ کم از کم آپ پر فٹ نہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر مداری کی ڈگڈگی پر پے در پے قلابازیاں کھا کر تماشا نہ لگاتے۔
سیاست اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کی مشکیں کسنے کا حوصلہ فقط اپ ہی کے بس کی بات تو تھی، کا سا لیسی اور خود داری کی میزان آپ کے دم سے تو قائم تھی۔ اپنے گریبان میں جھانکیے۔ ذرا پوچھیے خود سے کہ پیشہ وارانہ ساکھ مجروح ہونے میں کیا صرف مالکان اور اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل تھا یا ہمارے اپنے ہاتھ بھی بددیانتی کے خون سے رنگے ہیں۔
آپ نے اس قوم کے ذہن اس کے مزاج اس کی نفسیات کے ساتھ کم انجینئرنگ نہیں کی۔ کسی دن شیطان کو فرشتہ ثابت کیا اور اگلے ہی روز اس فرشتے کو شیطان سے بدتر قرار دے دیا۔ سازشی نظریات کا جو طومار اپ اٹھاتے رہے ہیں اس کے آفٹر شاکس نجانے کب تلک بھگتنے ہوں گے۔ جانور تک میں فطرت نے اتنا شعور رکھا ہے کہ اپنی گند کو کم از کم ڈھانپ ہی دے، کبھی سوچیے گا کہ عوام کو اس انتشار اس ہیجان تک پہنچانے میں سہولت کاری کی گند کون ڈھانپے گا۔
خیریت اسی میں ہے کہ اس پیشے کی رہی سہی عزت کو بحال کریں۔ قوم کو اہم معاملات پر یکسو ہونے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ ریٹنگ کی ہوس سے بالاتر، غیر متعصب، معروضی اور ویریفائیڈ نہ ہو تو صحافتی میڈیا کا نام بدل کر منہ کی بیماری یا پھر خارش رکھ دیں۔