تحریر۔ڈاکٹر علی شاذف
میں آج صبح سو کر اٹھا تو فیس بک پر اپنے پیارے دوست معروف شاعر، ماہر تعلیم اور دانشور سلیم حسنی کی پوسٹ پڑھی جس میں انہوں نے لکھا کہ ان کے چھوٹے بھائی آصف جان دس سال تک سکون کی تلاش میں رہنے کے بعد بالآخر ہمیشہ کے لیے پرسکون ہو گئے۔ یہ خبر مجھ پر اور سلیم کے احباب پر بجلی بن کر گری۔
سلیم حسنی اور نعیم حسنی سے میری ملاقات اپنے دوست احسان اصغر کے توسط سے 2021 میں کوئٹہ میں ہوئی تھی۔ وہیں انہوں نے مجھے آصف کے بارے میں بتایا تھا۔ آصف اپنی نوجوانی میں شیزوفرینیا (schizophrenia) کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ آصف کے بھائی اور اہل خانہ ان کا بے حد خیال رکھتے تھے اور ان کی ذہنی صحت کے بارے میں فکرمند رہتے تھے۔ آصف باقاعدگی سے اپنی بیماری کی ادویات لے رہے تھے لیکن جب بھی کسی وجہ سے وہ دوائیں نہ لے پاتے تو ان کی حالت بگڑ جاتی تھی۔ ایک دفعہ کوئٹہ میں ان کی ایک دوا لیتھیم سلفیٹ شارٹ ہو گئی تو سلیم نے مجھ سے لاہور میں رابطہ کیا کہ میں کسی طرح سے اس دوا کا بندوبست کروں کیونکہ آصف کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔ بڑی مشکل سے سلیم حسنی وہ دوا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
شیزوفرینیا کا مرض عام طور پر بیس سال کی عمر کے لگ بھگ نوجوانی میں شروع ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس مرض میں مریض کو ایسی مختلف شکلیں نظر آتی ہیں اور آوازیں سنائی دیتی ہیں جو دوسروں کو دکھائی یا سنائی نہیں دیتیں۔ ان علامات کو ہیلوسینیشنز (hallucinations) کہتے ہیں۔ مریض ان اشکال اور آوازوں کے ساتھ تعلق بنا کر اپنی ہی ایک دنیا بنا لیتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اس غیرحقیقی دنیا اور حقیقی دنیا میں کوئی فرق محسوس کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔
وہ غیر مرئی کرداروں سے گفتگو کرتا ہے اور ان کی باتوں پر ہنستا اور روتا ہے۔ مریض کی یہ حالت دیکھ کر لوگ اسے پاگل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ شیزوفرینیا کا مرض قابل علاج ہے لیکن یہ علاج بہت مشکل ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد پاگل نہیں بلکہ غیرمعمولی طور پر ذہین ہوتے ہیں۔ عظیم ریاضی دان جان نیش شیزوفرینیا کی بیماری میں مبتلا تھے۔ ان کی زندگی پر مشہور فلم ”A Beautiful Mind“ بنائی گئی تھی۔
ہمارے ہاں ذہنی امراض کو اسٹگما سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مریضوں کے اہل خانہ اس مرض کو خفیہ رکھتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں معاشرتی شعور اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض کے علاج میں مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ خود مریض بھی منفی معاشرتی رویوں سے تنگ آ جاتا ہے۔ سلیم حسنی جیسے تعلیم یافتہ افراد تو سائنسی بنیادوں پر اپنے پیاروں کا علاج کرواتے ہیں لیکن ان مریضوں کی اکثریت اصلی اور نقلی پیروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جو بتاتے ہیں کہ ان پر جنات یا بھوت پریت کا سایہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نفسیات کے ماہر ڈاکٹروں کی تعداد بہت ہی کم ہے اور ذہنی صحت پر توجہ ہی نہیں دی جاتی۔
آصف اپنی بیماری اور لوگوں کے رویوں سے بہت دلبرداشتہ تھے۔ وہ اس سے پہلے بھی خودکشی کی کوشش کر چکے تھے۔ سلیم حسنی کے الفاظ ہیں کہ: ”کسی انتہائی عزیز کا اچانک انتقال کر جانا یقیناً بہت تکلیف دہ ہے لیکن ہمارے لیے تکلیف دہ بات صرف یہ نہیں ہے کہ بھائی انتقال کر گیا۔ زیادہ تکلیف دہ بات اس کا خود اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا ہے۔ اور جس بھیانک طریقے سے اس نے ایسا کیا وہ بتاتے ہوئے کلیجہ پھٹتا ہے۔ زندگی کس قدر باعث آزار بن گئی تھی اس کے لیے! یہ سوچ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔“
میں اپنے دوستوں سلیم حسنی اور نعیم حسنی کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔ میں صبح سے ان سے بات نہیں کر سکا ہوں کیونکہ ان کے نمبر بند ہیں۔ اس سانحے سے نکلنا ان کے خاندان کے لیے بہت مشکل ہے اور اس سے نکلنے میں انہیں بہت وقت لگے گا۔ میں پاکستان میں موجود اپنے باہمی دوستوں سے درخواست کروں گا کہ اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ رہیں اور انہیں اکیلا نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ آصف حسنی کی مغفرت فرمائے۔