بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی ،اسلام آبادمیں رسمیات تحقیق

تحریر۔محمد سلیم سرور

رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے خصوصاً تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے تحقیقی اور اشاعتی اداروں نے بھی اس جانب پیش قدمی کی اور اسی زمانے میں خصوصاً تحقیق و ترتیب متن کی بہترین کوششیں سامنے آنے لگیں۔ لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔

نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہو سکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی طرح لکھے جاتے ہیں اور کتابیات کسی طرح مرتب کی جاتی ہے۔ دوسرے مقالے میں ان کے لکھنے اور مرتب کرنے کے اصول مختلف ہوسکتے ہیں۔

رسمیات تحقیق سے وہ مراد وہ قواعد و ضوابط ہیں جو ایک محقق اپنے مقالے کو قلم بند کرتے وقت اپناتا ہے۔ رسمیات تحقیق میں موضوع کے اندراج سے لے کر کتابیات تک کی پوری ترتیب موجود ہوتی ہے۔ رسمیات تحقیق مختلف جامعات میں مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہی جامعہ میں بھی بعض اوقات محقق اور نگران کی لاعلمی کی وجہ سے مختلف صورت میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مقالے کی ضخامت سے صرف نظر تمام تحقیقی مقالوں پر رسمیات مقالہ نگاری عائد ہوگی۔ مقالے کی ضخامت اور رسمیات کے حوالے سے ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں :

”یہ بات درست نہیں۔ ایک تحقیقی نوعیت کا مقالہ، جو چاہے ضخامت میں کم اور مختصر ہی
کیوں نہ ہو، تحقیقی مآخذ اور مصادر کے بغیر وجود میں نہیں آتا ان مآخذ کی نشاندہی کے ذریعے ہی کسی مقالے کو استناد اور معیار حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح ہر مقالے میں چاہے مختصر ہی کیوں نہ ہو، حوالوں اور اسناد کو حاشیوں میں درج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک کتابیات یا فہرست اسناد آخر میں ضرور شامل کرنی چاہیے تاکہ تمام مآخذ بہ یک نظر معلوم ہوجائیں ان کی بنیاد پرایک ہی نظر میں مقالے کے معیار کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔ ”1

محولہ بالا اقتباس سے رسمیات مقالہ نگاری کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ تحقیقی مقالے کے اختصار یا طوالت کا تعلق رسمیات مقالہ نگاری سے صرف نظر کرنے سے نہیں بلکہ مقالے کے معیار کا تعین کرنے سے براہ راست تعلق ہے۔ اکیسویں صدی کی ابتدا میں تعلیم اور ریسرچ کی دنیا میں بہت تیزی آئی ہے۔ اسی لیے پاکستان میں ریسرچ پر توجہ دی گئی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یو جی سی) کو ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی ) کا نام دیا گیا۔ ملک کی یونیورسٹیوں کو اب ایچ ای سی گائڈ لائن دیتی ہے اور کچھ جامعات اپنے تحقیقی سٹائل خود تیار کر کے ایچ ای سی کو بھیجتی ہیں اور اپنے محققین سے اسی کے مطابق تحقیق کرواتی ہیں۔

ہماری تحقیق زیادہ تر حوالوں پر مشتمل ہوتی ہے اس میں تجربات کی شمولیت کم ہوتی ہے۔ خصوصی طور پر بعض مقالوں میں اتنے بڑے بڑے کوٹیشن لیے جاتے ہیں جو بعض اوقات پورے صفحے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس پوری تحریر کے بجائے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور اسی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا جائے۔ جب آپ ان کی بات اپنے الفاظ میں بیان کریں گے تو پڑھنے والا سہولت سے سمجھے گا لیکن حوالہ دینا ہو گا۔ تحریر میں نام اور سال بریکٹ کے اندر درج ہو گا باقی کتابیات یا ریفرنسز مقالہ کے آخر میں ہوں گے۔

ڈاکٹر گیان چند نے ”تحقیق کا فن“ میں لکھا ہے کہ ہر محقق کا فرض بنتا ہے کہ بعد میں آنے والے محققین اور قارئین کی سہولت کے لیے آسانیاں پیدا کرے جس سے آنے والے محققین استفادہ کریں (گیان چند، 2007 ) یہ کتاب تحقیق کے حوالے سے بہت اچھی کتاب ہے۔ لیکن یہ پرانی ہے اس کے بعد تحقیق کے نئے انداز ہم شامل نہیں کر پائے۔ اردو کی تحقیق میں اس انداز کو تبدیل کرنا ہو گا۔

بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ اردو میں تحقیقی کام کو موضوع سے لے کر مواد، مواد کی ترتیب و تزئین اور پھر حوالہ جات کے اندراج تک کے سلسلے میں عالمی اصول و ضوابط کے تحت رکھا جاتا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں انٹرنیٹ کی تیزی اور پھر میڈیا کے کردار نے سائنسی اور ادبی تحقیق میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مذکورہ جامعہ کے شعبہ اردو نے بھی اس عالمی تبدیلی کو پیش نظر رکھا ہے اور جامعہ ہذا کی تحقیق کو عالمی سانچوں میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ جامعہ ہذا کا شعبہ اردو کا عالمی سطح کا ایک تحقیقی جرنل ”معیار“ بھی ہے، جس میں بھی تحقیق کے نئے موضوعات اور معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے طول و عرض سے مختلف علماء اور فضلا سے مضمون لے کر پبلش کیے جاتے ہیں۔

موضوع کی ہیڈنگ:

بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں موضوع نوری نستعلیق میں 24 فونٹ سائز کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ سر ورق کا رنگ سیاہ اور لکھائی کا رنگ سنہری رکھا جاتا ہے۔ سب ہیڈنگز کا فونٹ سائز 18 رکھا جاتا ہے اور ابواب کی ہیڈنگز کا سائز 20 رکھا جاتا ہے۔ 2

متن کا فونٹ اور سائز:

متن نوری نستعلیق میں 16 کے فونٹ سائز لکھا جاتا ہے۔ اے فار سائز پیپر پر متن کو دائیں جانب سے ڈیڑھ انچ اور بائیں جانب سے ایک انچ چھوڑ کر لکھا جاتا ہے۔

اقتباس کا فونٹ اور سائز:

اقتباس نوری نستعلیق فونٹ میں 14کے فونٹ سائز کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ حوالہ نمبر13فونٹ سائز کے ساتھ لکھا جاتا اور حوالے کے اعداد کو ایکس پاور کی صورت میں اوپری حروف کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔

حوالہ درج کرنے کا طریقہ اور فونٹ سائز:

حوالہ درج کرنے کے لیے شکاگو مینول استعمال کیا جاتا ہے۔ شکاگو مینول سے مراد امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کی جانب سے 1891ء میں متعارف کروایا گیا مینول ہے جو برصغیر پاک و ہند کی جامعات میں سوشل سائنسز میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر جامعہ ہذا میں ذرا سی تبدیلی کے بعد شکاگو مینول کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مینول میں یہاں پر تبدیلی یہ کی جاتی ہے کہ کتاب، رسائل اور مقالہ جات کے ناموں کو نسخ فونٹ میں لکھا جاتا ہے۔ مضمون کا نام واوین میں لکھا جاتا ہے۔ حوالہ درج کرتے وقت اصل ناموں کے علاوہ اضافتیں نہیں لکھی جاتیں۔ مثلاً ڈاکٹر، پروفیسر، مولانا وغیرہ۔ کتابیات کے اندراج میں بنیادی اور ثانوی ماخذات الگ الگ نہیں کیے جاتے، تمام کتابوں کو الف بائی ترتیب سے ایک ساتھ لکھا جاتا ہے۔

بنیادی ماخذ کے حوالہ کے اندراج کا طریقہ:3

رشید امجد، تمنا بے تاب (راولپنڈی:حرف اکادمی، سن) ، ص202
فتح محمد ملک، درسی اردو لغت (اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان، 2001) ، ص956

تنقیدی کتب کے حوالہ کے اندراج کا طریقہ:

شفیق انجم، ”اردو افسانہ بیسویں صدی کی تحریکوں اور رجحانات کے تناظر میں“ (اسلام آباد پورب اکادمی، سن2008ء) ، ص46

ترجمہ شدہ کتب کا حوالہ درج کرنے کا طریقہ:

یاسر جواد، مترجم، The second sex از سیمون ڈی بوا (Simone de Beauvoir) عورت۔ (لاہور:فکشن ہاؤس2018ء) ، 25

مرتبہ کتاب کا حوالہ درج کرنے کا طریقہ:

ایس کے حسینی، ”اردو لغت نویسی اور اہل انگلستان“ ، مشمولہ، اردو لغت نویسی:تاریخ، مسائل اور مباحث، مرتبہ رؤف پارکھ (کراچی:فضلی سنز، 2017ء) ، ص266

غیر مطبوعہ حوالہ کے اندراج کا طریقہ:

اکرام طاہر، محمد، پروفیسر، کا خط، بنام محمد رفیق بھٹی، مجررہ، 29۔ اکتوبر2001ء
رسائل و جرائد کے حوالہ کے اندراج کا طریقہ:
فیض احمد فیض، ”پاکستانی ثقافت“ ، معیار2:1 (جنوری تامارچ2022ء) :20۔

فہرست مآخذ میں اندراج:

فیض احمد فیض۔ ”پاکستانی ثقافت“ ۔ معیار2:1 (جنوری تا مارچ2022ء) :11۔ 26۔

لغات کے حوالہ کے اندراج کا طریقہ:

شان الحق حقی، فرہنگ تلفظ (اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان، 1990) ، ص705

انٹرویوز کے حوالہ کے اندراج کا طریقہ:

ابراہیم گل، محمد، ملک، شاعر، صحافی، ڈرامہ نگار، سے راقم کا انٹرویو (ابراہیم گل نامور شاعر آذر عسکری کے بیٹے ہیں ) ، بمقام، مظفر آباد، 5۔ نومبر2016ء

ویب سائیٹ کے حوالہ کے اندراج کا طریقہ:

محمدضیاءالحقUr/Wikipedia/Wiki/

کتابیات: 4

1۔ احمد اسرار۔ راہ نجات سورہ العصر کی روشنی میں۔ لاہور مرکزی انجمن خدام القرآن، سن2003ء۔

2۔ احمد، انوار۔ اردو افسانہ اپنے سیاسی سماجی تناظر میں۔ مقالہ برائے پی۔ ایچ ڈی ملتان بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، 1983ء۔

حوالہ جات:

1۔ معین الدین عقیل، ڈاکٹر، رسمیات مقالہ نگاری، پاکستان سٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی، 2009ءص32

2۔ کامران کاظمی، سید، استاد، محقق، نقاد سے راقم کا انٹرویو (اسلامک انٹر نیشنل یونیورسٹی میں رسمیات مقالہ نگاری) ، بمقام، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد، 11۔ مارچ2024ء

3۔ مسرت شاہین، زاہدہ حنا کے افسانوں میں عصری آشوب (اسلام آباد:انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، سن2018ء) ، ص35

4۔ ایضاً150

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *