تحریر۔خالد جاوید چودھری
یار لوگوں کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ خوشیا کی طرز حجامت نے گاؤں کے مردوں کی اکثریت کی شکل و شباہت اور اعمال و افعال کو عین اسلامی طرز میں ڈھالنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ لوگوں کی بہت بڑی اکثریت نے صرف حجامت کروانے کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے شیو کروانا اور سر کے بال منڈوانا ترک کر دیے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ان کے چہروں پر اسلامی طرز کی لمبی لمبی داڑھیاں اور سر پر پٹوں کی شکل میں رکھے ہوئے لمبے لمبے بال نظر آتے ہیں۔
اس ظاہری شکل و صورت اور وضع قطع کو نبھانے کے لیے انہیں نماز کی ادائیگی کے لئے باقاعدگی سے مسجد میں حاضری دینا پڑتی ہے۔ اور یوں آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے نہ صرف وہ اسلامی شعائر کو اپناتے چلے جاتے ہیں بلکہ اپنے لواحقین اور زیر کفالت افراد اور بیوی بچوں کو بھی اسی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس طرح گاؤں میں اسلامی طرز حیات اور رہن سہن ایک خود کا ر نظام کے ذریعے سرعت اور برق رفتاری سے فروغ پاتا جاتا ہے۔
گو یا کہ وہ کام جو مولوی ادریس اپنے بے پایاں علم فصاحت و بلاغت وعظ و نصیحت اور زور خطابت جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر مستقل مزاجی اور اولوالعزمی سے جہد مسلسل کے باوجود بھی سر انجام نہ دے سکے۔ ہکلاتے ہوئے ان پڑھ خوشیانے اپنے پشتی، کہنہ اور زنگ آلود اوزاروں کی مدد سے بخوبی کر دکھایا ہے۔ وہ ایک سیدھا سادا دیہاتی ہے۔ چالاکی، ہوشیاری اور تیزی و طراری سے قطعاً نا بلد ہے۔ گاؤں میں خوشی، غمی کے موقع پر کھانے پکانے کی ذمہ داری بھی حجام کے کندھوں پر ڈالی جاتی ہے۔
اور وہ اس فن میں بھی یکتائے روز گار ہے۔ کھانا تیار کرتے وقت تقریباً درجن بھر افراد اس کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی چاول دھو رہا ہے۔ کوئی مصالحہ پیس رہا ہے۔ تو کوئی پیاز کاٹ رہا ہے اور وہ بڑے مزے سے بیٹھا ہوا زیادہ تر وقت حقہ گڑگڑا رہا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ہدایات بھی جاری کر رہا ہوتا ہے کہ آگ دھیمی کرو۔ پیاز تھوڑے باریک کاٹو مصالحہ ابھی اچھی طرح تیار نہیں ہوا۔ اس کو مزید رگڑو۔ دیگ نیچے لگنے کی مہک آ رہی ہے۔ اس کو تھوڑا سا پانی لگاؤ۔ حقہ گڑگڑاتے ہوئے بھی اس کی عقابی نظر اپنی مہم کے ہر کارکن پر ہوتی ہے۔ جہاں کسی نے غلطی کی اس نے پکڑا۔
غرض کہ وہ اپنی پوری ٹیم سمیت بڑے انہماک اور توجہ سے کھانا تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس عمل میں وہ اپنی جملہ وراثتی اور اکتسابی مہارتوں کو بروئے کا رلاتا ہے۔ آخر خدا خدا کر کے جب کھانا تیار ہو جاتا ہے تو اہل خانہ کے کسی معتبر اور بزرگ فرد کو چیک کروایا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسے فرد کو خوشیا آغاز میں ہی تاڑ لیتا ہے۔ جب گوشت بھونتے ہوئے نمک مرچ چکھنے کے بہانے ڈیڑھ دو کلو بھنا ہوا گوشت دیگ سے نکالا جاتا ہے۔ تو خوشیا کمال مہارت کے ساتھ چکھنے کے اس عمل میں اس معتبر اہل خانہ کو بھی اپنے ساتھ شامل کو لیتا ہے اور اس طرح عموماً خوشیا کا پکایا ہوا کھانا پاس کر دیا جاتا ہے۔
اس کی زنبیل میں ہر مسئلے کا تیر بہدف نسخہ پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے ایک بار اس کے پکائے ہوئے چاول کچے رہ گئے اور ان پر باقاعدہ اعتراض بھی کیا گیا تو خوشیا نے ہکلاتے ہوئے اہل خانہ کو آگاہ کیا کہ مذکورہ چاول اس انداز سے پکائے گئے ہیں کہ ان کی غذائیت ضائع نہ ہو۔ اگر چاول زیادہ پکائے جائیں تو ان کا اصلی جوہر تو چلا جاتا ہے۔ گویا کہ چاول بھوسہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ سامعین اس کی علمی صلاحیت سے متاثر ہو کر اعتراض کرنے والے کے اس طرح پیچھے پڑے کہ اس کو اپنی جان چھڑانا مشکل ہو گئی۔
اگر کبھی چاول زیادہ پک جاتے تو اسے اس کی بھی قطعاً کوئی فکر نہیں ہوتی ہے۔ اس کے پاس اس کے حق میں بڑی اچھی تقریر موجود ہوتی ہے کہ کچے چاول دیر سے ہضم ہوتے ہیں۔ پیٹ درد کرتا رہتا ہے۔ خصوصاً بزرگ خواتین و حضرات کی حالت کے پیش نظر چاولوں کو تھوڑا زیادہ پکا دیا گیا ہے ۔ تا کہ ان کے بوڑھے معدوں کو فضول مشقت کی زحمت سے بچایا جا سکے۔ ایک دفعہ یہ بھی ہوا کہ اس کے پکائے ہوئے کھانے میں کچھ چاولوں کی دیگیں تھوڑی سی کچی رہ گئیں اور کچھ دیگوں میں چاول تھوڑے زیادہ پک گئے۔
اب لوگ سوچ رہے تھے کہ خوشیا اپنے آپ کو اس الجھن سے کیسے نکالے گا۔ جب خوشیا کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو مجال ہے کہ اس کے ماتھے پر شکن بھی نمودار ہوئی ہو۔ فوراً بولا کہ بچوں اور نوجوانوں کے لیے ان کے معدوں کے مطابق چاولوں کو تھوڑا کچا رکھا گیا ہے ۔ تاکہ ان کی غذائیت بھی ضائع نہ ہو۔ اور وہ انہیں بخوبی ہضم بھی کر سکیں۔ لیکن ادھیڑ عمر اور بوڑھوں کے لیے اس نے چاولوں کو تھوڑا زیادہ پکا دیا ہے۔ تاکہ ان کو انہیں ہضم کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے اور یوں اس کی حکمت اور دانائی پر لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔