آصف زرداری۔ مرد مفاہمت

تحریر۔اطہر قادر حسن

سیاست میں انہونیاں ہوتی رہتی ہیں اور پاکستانی سیاست میں تو یہ انہونیاں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں اس سے بڑی انہونی کیا ہو گی کہ کل کے سیاسی حریف آج بہت قریبی حلیف بن کر مشترکہ حکمران بن چکے ہیں اور باہم شیرو شکر ہیں، ایک معروف محاورے کے مطابق ان کے بیچ سے ہوا کا گزر بھی مشکل نظر آتا ہے میاں شہباز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز ہو چکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری صدر پاکستان کا حلف اٹھا چکے ہیں۔

پاکستانی سیاست کے میدان میں حقیقی معنوں میں آگ اور پانی کا ملاپ دکھائی دے رہا ہے سب کو معلوم ہے کہ غیر قدرتی ملاپ زیادہ پائیدار ہر گز نہیں ہوتا، پانی آگ کو بجھا دیتا ہے لیکن آگ کا پھیلاؤ بڑھ جائے تو وہ پانی کو کھا جاتی ہے۔ یہ غیر قدرتی ملاپ کیسے وجود میں آیا ہے اس کی ایک ہی وجہ سامنے آئی ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا مشترکہ سیاسی حریف عمران خان تاحال ان کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے وہ جیل میں قید ہے لیکن اس کی پارٹی نے انتخابی نشان کے بغیر الیکشن میں حصہ لیا اور بڑے بڑے سیاسی جغادریوں کو سیاسی میدان سے آؤٹ کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔

وہ قومی اسمبلی کی سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی جبکہ خیبر پختونخوا میں مسلسل تیسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان غیر متوقع انتخابی نتائج نے دونوں پرانے سیاسی حریفوں کو یک جان کر دیا ہے۔ چشم فلک پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کیا کیا نظارے دکھا رہی ہے اور یہ نظارے دیکھنے والے بھی حیران و پریشان نظر آتے ہیں کہ یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ میاں نواز شریف کی جماعت آصف علی زرداری کی کامیابی کے لئے ملک بھر میں ووٹ اکٹھے کرتی رہی ہے۔

حالیہ الیکشن کے بعد سیاسی کشمکش ختم نہیں ہوئی بلکہ ماضی کی طرح جاری ہے ایک طرف مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومت وجود میں آ چکی ہے جسے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہے تو دوسری جانب اس حکومت کی واحد اپوزیشن سنی اتحاد کونسل جس کو تحریک انصاف کے ووٹوں کی پشت پناہی حاصل ہے وہ حکومت کے قیام کو ماننے سے مسلسل انکاری ہے اور اس پر اپنا مینڈیٹ چوری کرنے کا الزام لگا رہی ہے جس کے خلاف وہ الیکشن کمیشن میں انتخابی عذر داریاں بھی داخل کر چکی ہے اور ہر آئینی فورم پر انتخابی دھاندلی کے خلاف اپیلیں بھی دائر کی جا رہی ہیں۔

اسمبلیوں میں احتجاج الگ چل رہا ہے اور اپوزیشن کے بعض رہنماء تو یہ تک کہتے پائے گئے ہیں وہ ان اسمبلیوں کی کارروائی چلنے نہیں دیں گے اس کی توجہی یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسمبلیوں کے اندر احتجاج ان کا آئینی حق ہے اور وہ اس حق کا استعمال کریں گے۔ حکومت کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں ایک تگڑی اپوزیشن کا سامنا ہے اور جس حکومت کے وجود پر انتخابی دھاندلی کے الزامات ہوں وہ حکومت بلاشبہ ایک کمزور تصور کی جاتی ہے اور مضبوط اپوزیشن اس کے لئے مشکلات پیدا کرتی رہے گی۔

اسی سیاسی کشمکش میں پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے اور جناب آصف علی زرداری جن کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے دوسری بار ملک کے صدر بن چکے ہیں۔ معاشی حالات کو مد نظر رکھ کر بات کی جائے تو ملک کو آج جس قدر باہمی مفاہمت کی ضرورت ہے اتنی ماضی میں نہیں رہی تھی۔ قوم کے اندر جس طرح تصادم، باہمی عناد اور شدید اختلاف کو پیدا کر دیا گیا ہے وہ اس قوم کی بقا کے لئے جان لیوا ہو سکتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔

جناب آصف زرداری کا بطور صدر انتخاب اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ اپنے مشہور زمانہ مفاہمتی کردار اور پالیسی کو بروئے کار کر ملکی سیاسی فضا میں جو شدید تلخی پیدا ہو چکی ہے اس کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستانی کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر وہ حکمران چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لئے مخالفین کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی راہوں میں کانٹے کوئی اور بچھاتا ہے اور چننے کسی اور کو پڑتے ہیں۔

جناب آصف زرداری ایسے کانٹے چننے کے ماہر ہیں وہ ایک ایسے سیاسی رہنماء ہیں جن کے ہاں سیاسی جمود نہیں ہے وہ جہاں دیکھتے ہیں کہ پیچھے ہٹ جانے میں ہی مفاد ہے وہ اس عمل میں دیر نہیں کرتے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف اور ان کا ازالہ کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے ہیں۔ قوم کو یاد ہو گا کہ انہوں نے بینظیر کی شہادت کے فوری بعد وفاق کے استحکام کے لئے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا اور اس عزم کا اعلان کیا تھا کہ وفاق کی زنجیر کو ٹوٹنے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے پاکستانیت سے بھرے اعلانات کیے اور اس وقت غمزدہ کارکنوں کو یاد دلایا کہ ان کی قائد ملک کے وفاق کے لئے قربان ہوئی ہیں وہ پاکستان نامنظور نہیں پاکستان منظور ہے کے نعرے بلند کریں۔

آصف زرداری کے بطور صدر مملکت انتخاب کے بعد یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ وہ جلد ہی ملک میں مفاہمتی سیاست کا آغاز کریں گے اور آنے والے دنوں میں ایوان صدر مفاہمتی سیاست کا ایوان بن جائے گا۔ آصف علی زرداری سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں انہوں نے سیاست کو ہر لحاظ سے بھگتا ہے جیلیں اور جلاوطنیاں کاٹی ہیں ان کو سیاسی میدان کی مصیبتوں کا ادراک ہے ان سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے عمران خان کو قومی سیاسی دھارے میں لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اس کے لئے ان کی پس پردہ کوششیں حکومت کے قیام سے قبل ہی جاری ر ہیں لیکن تحریک انصاف کی جانب سے شاید سیاسی نقصان اور عوامی ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بیل منڈے نہ چڑھ سکی اب بھی اگر وہ تحریک انصاف کو ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ان کی مفاہمتی پالیسی کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔

آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کی معیشت کی بحالی کے لئے تمام بڑی سیاسی جماعتیں میثاق مفاہمت کر لیں تا کہ ملک کی معیشت کا پہیہ چل سکے۔ سیاست تو گھر کی لونڈی ہے وہ بعد میں ہوتی رہے گی اور بقول شاعر ”ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں“ والا معاملہ ہے۔ گزارش ہی کی جا سکتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماء اپنی اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر قومی مفاہمت پر متفق ہو جائیں۔ اگر جناب صدر پاکستان بچاؤ مشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آج کے حالات میں یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہو گی۔ مرد مفاہمت کا خطاب تو وہ پہلے ہی پا چکے ہیں لیکن ریاست کے مفاد میں جس قدر مفاہمت کی آج ضرورت ہے وہ شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ قوم زرداری صاحب کے لئے دعا گو ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *