علامہ اقبال کے خواب اور موجودہ تعلیمی نظام: ایک تقابلی جائزہ

کیا آج کا تعلیمی نظام واقعی علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے؟ علامہ اقبال نے ایک ایسا تعلیمی ماڈل تصور کیا تھا جو نہ صرف علم و دانش کو فروغ دے بلکہ کردار سازی میں بھی مددگار ہو۔ آج ہم ایسے تعلیمی نظام سے گزر رہے ہیں جو زیادہ تر نمبر اور گریڈز کے گرد گھومتا ہے۔ اس موازنہ میں، ہم یہ جانیں گے کہ اقبال کے وژن اور موجودہ تعلیمی نظام میں کیا فرق ہے، اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ہمیں کیا تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔

علامہ اقبال کا تعلیمی نظریہ

علامہ اقبال، جنہیں شاعر مشرق کہا جاتا ہے، نے تعلیم کو انسان کی ترقی اور بیداری کا بنیادی ذریعہ قرار دیا۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد صرف علم حاصل کرنا نہیں بلکہ کردار، فکری سوچ اور روحانی ترقی کی بنیاد رکھنا ہے۔ وہ ایک ایسے تعلیمی نظام کے خواہاں تھے جو فرد کو اپنی ذات کی پہچان، قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور انسانیت کے لیے بھلائی کا ذریعہ بنائے۔

تعلیم کی اہمیت: اقبال کے نزدیک علم و تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالیں۔

علامہ اقبال کے نظریے میں تعلیم صرف ایک عملی ضرورت نہیں بلکہ انسان کے وجود کی اصل ہے۔ ان کے نزدیک علم انسان کو خود شناسی اور خدا شناسی تک پہنچاتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ علم کے بغیر انسان اندھیری رات میں بھٹکنے والی بھیڑ جیسا ہے، جس کی نہ کوئی منزل ہے نہ سمت۔ اقبال کے خیالات میں تعلیم وہ چراغ ہے جو اندھیرے کو روشنی میں بدل دیتا ہے۔

اقبال کے اشعار میں واضح ہوتا ہے کہ علم انسان کو آزاد کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ علم کا صحیح استعمال انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک، علم وہ ہونا چاہیے جو انسان کے دل و دماغ کو برانگیختہ کرے اور عمل کا محرّک بنے، نہ کہ محض کتابی معلومات:

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
درسِ زندگی دیتے ہیں، کتابوں کا سبق دے کر

انفرادی اور اجتماعی ترقی: اقبال کی سوچ کے مطابق تعلیم کا مقصد فرد اور قوم کی ترقی کس طرح ممکن ہے۔

اقبال کا ماننا تھا کہ تعلیم کا اولین مقصد انفرادی شعور اور خودی کی تربیت ہے۔ ان کے فلسفے میں “خودی” یعنی اپنے آپ کی پہچان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک انسان اپنی ذات کو نہیں سمجھتا، تب تک وہ اخلاقی اور فکری آزادی حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ خودی ہی ہے جو انسان کو اپنی صلاحیتوں کو جانچنے، ان کو بڑھانے اور دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔

لیکن اقبال کے نزدیک تعلیم کا دائرہ صرف فرد تک محدود نہیں ہے۔ وہ قوموں کی ترقی کو بھی تعلیم سے مشروط سمجھتے تھے۔ ان کے مطابق، ایک تعلیم یافتہ قوم ہی اپنی آزادی برقرار رکھ سکتی ہے، ترقی کی منازل حاصل کرسکتی ہے اور دیگر اقوام کے ساتھ کھڑا ہوسکتی ہے۔ ان کے بقول:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

روحانی اور اخلاقی تربیت: اقبال کی تعلیم میں روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کا کردار بیان کریں۔

اقبال کی تعلیمی سوچ میں روحانیت اور اخلاقیات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف مادی ترقی نہیں بلکہ روحانی بلندی بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف علومِ ظاہری میں مہارت حاصل کرنے سے انسان کی مکمل تربیت نہیں ہوتی۔ تعلیم کو ایسا ہونا چاہیے جو انسان کے دل میں محبت، ہمدردی اور انصاف کے جذبات پیدا کرے۔

اقبال کے مطابق، اخلاقی اصول اور روحانی تربیت وہ ستون ہیں جن پر ایک مضبوط اور پائیدار معاشرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ وہ تعلیم کو ایک ایسے ذریعہ کے طور پر دیکھتے تھے جو انسان کو نہ صرف اچھا ماہر بلکہ ایک اچھا انسان بھی بنائے۔ ان کے اشعار میں روحانیت کی جھلک واضح نظر آتی ہے:

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

اقبال نے اپنی شاعری اور فلسفے کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دیا کہ تعلیم کو انسان کی مکمل نشوونما کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ ایک متوازن شخصیت اور ایک منظم معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ ان کا نظریہ آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے اگر ہم اپنی تعلیم کو اس مقصد کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔

موجودہ تعلیمی نظام کی خصوصیات

پاکستان کا موجودہ تعلیمی نظام کئی دہائیوں سے مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ نظام بظاہر ترقی کی خواہش رکھتا ہے، مگر عملی طور پر اس میں نمایاں خامیاں موجود ہیں۔ علامہ اقبال کے خوابوں کے برعکس، آج کا تعلیمی نظام زیادہ تر روایتی نصاب اور امتحانی نتائج تک محدود ہو چکا ہے۔ اس سیکشن میں ہم ان مسائل کا جائزہ لیں گے۔

نظام کی بنیادی کمزوریاں

موجودہ تعلیمی نظام میں سب سے بڑی خامی نصاب کی بے حسی ہے۔

  • نصاب میں جدت کا فقدان: نصاب جدید دور کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ یہ زیادہ تر یادداشت پر مبنی ہے، جس سے طالب علموں میں صرف رٹنے کی عادت پروان چڑھتی ہے۔
  • عملی تربیت کی کمی: تعلیمی ادارے عملی تربیت کے بجائے تھیوری کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے طلباء میں مہارت یا مارکیٹ کے تقاضوں کو سمجھنے کا رجحان پیدا نہیں ہوتا۔
  • کریٹو سوچ کی حوصلہ شکنی: موجودہ سسٹم تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے میں سرگرم ہے۔ طلباء کو رٹائی کے ذریعے گریڈز تک محدود کر دیا گیا ہے، جو ان کی خودمختاری کو کمزور کرتا ہے۔

کیا یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتا کہ ہمارا نظام طالب علموں کو صرف ایک روبوٹ بنا رہا ہے؟

تعلیمی معیار اور تحقیق

تعلیمی معیار کا مسئلہ بھی ہمارے نظام کی سنگین خامیوں میں شامل ہے۔

  • معیار میں گراوٹ: سرکاری اداروں میں سہولیات کا فقدان اور اساتذہ کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی معیار دن بدن گر رہا ہے۔
  • تحقیق کی عدم موجودگی: اقبال کا خواب تھا کہ مسلمان علم کی بلندیوں تک پہنچیں، لیکن یہاں تحقیق پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یونیورسٹیوں میں تحقیقی کلچر عام نہیں، اور بہت کم طلباء تحقیق کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
  • ٹیکنالوجی سے دوری: نئی تحقیق اور ٹیکنالوجی کو اپنا نہ پانے کی وجہ سے طلباء عالمی معیار پر پورا نہیں اتر رہے۔

جب تحقیق اور علم کی تخلیق کا عمل ہی روک دیا جائے، تو ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟

پالیسیوں کی عدم تطابق

تعلیمی پالیسیاں بھی اس نظام کے مسائل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

  • پالیسیوں کا عدم تسلسل: ہر حکومت اپنے دور میں نئی پالیسیاں متعارف کرواتی ہے، جو پہلے سے موجود منصوبوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ عمل ترقی کے بجائے افراتفری پیدا کرتا ہے۔
  • مقامی ضروریات کو نظرانداز کرنا: تعلیمی پالیسیاں اکثر بین الاقوامی معیارات کی نقالی کرتی ہیں، مگر مقامی معاشرتی اور اقتصادی ضروریات کو نظرانداز کرتی ہیں۔
  • مالی وسائل کی کمی: تعلیم کا شعبہ ہمیشہ کم بجٹ پر چلتا ہے، جس کے باعث پالیسیوں کا نفاذ ناقص رہتا ہے۔

ایک سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ جب پالیسیاں ہی زمینی حقائق سے میل نہ کھائیں، تو نتائج کیسے بہتر ہو سکتے ہیں؟

یہ خامیاں واضح کرتی ہیں کہ موجودہ نظام کو ازسرنو تعمیری سوچ کے ساتھ بہتر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

اقبال کے خوابوں کا موجودہ نظام پر اثر

علامہ اقبال کے خواب ہمارے لئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے نظریات میں تعلیم کا مقصد صرف مہارت یا ڈگری حاصل کرنا نہیں بلکہ انسان کی مکمل ترقی شامل ہے۔ لیکن کیا آج کا تعلیمی نظام ان خوابوں کی عکاسی کرتا ہے؟ موجودہ تعلیمی صورتحال میں ہمیں ضرورت ہے کہ اقبال کے خیالات کو سامنے رکھ کر اپنے نظام میں اصلاحات کریں تاکہ ہم ان کے خوابوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

تعلیمی تبدیلی کی ضرورت: اقبال کے نظریات کے تحت تعلیمی نظام میں تبدیلی کیوں ضروری ہے

اقبال نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ تعلیم کا مقصد کردار کی تعمیر اور خودی کی پہچان ہونا چاہیے۔ وہ اس بات کے سخت مخالف تھے کہ علم کو محض معیشت کا حصہ سمجھا جائے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے طلباء کو رٹائی کے کلچر میں الجھا رہے ہیں۔ یہ طلباء علم کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں، نہ کہ ایک تحفہ۔

اقبال نے پیشین گوئی کی تھی کہ اگر تعلیم صرف نوکریوں اور مادی فائدوں تک محدود ہو گی، تو یہ سماج کے لئے مہلک ثابت ہو گی۔ آج ہم اسی حقیقت سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے طلباء میں نہ صرف تجسس کی کمی ہے بلکہ وہ اپنی خودی اور قومی ذمہ داریوں سے بھی بے خبر ہیں۔

تبدیلی کی ضرورت کیوں ہے؟ کیونکہ:

  • اقبال کردار سازی پر زور دیتے تھے: آج کے نصاب میں کردار سازی کے پہلو مکمل طور پر نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔
  • روحانی ترقی کا فقدان: اقبال کا خواب تھا کہ تعلیم انسان کو خدا سے قریب کرے، مگر یہ پہلو بھی غائب ہے۔
  • قومی شعور کی کمی: ہمارا نظام معاشرتی اور قومی شعور پیدا کرنے میں ناکام ہے۔

یہی وقت ہے کہ ہم اقبال کی رہنمائی سے اپنی سمت درست کریں، ورنہ ہم ایک بے مقصد نسل پیدا کر رہے ہوں گے۔

نمونہ تعلیمی نظام: ایک ایسا تعلیمی نظام جو اقبال کے خوابوں کی تکمیل کر سکے، کی وضاحت کریں

اقبال نے جو خواب دیکھا، اس کی بنیاد پر ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے جو فرد، قوم اور امت کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہو۔ اس نظام کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:

  • متوازن نصاب: ایسا نصاب ہونا چاہئے جو روحانی، اخلاقی، اور سائنسی مضامین کو جوڑ سکے۔ یہ نصاب طلباء کو نہ صرف عملی زندگی کے لئے تیار کرے بلکہ انہیں اپنی ذات اور کائنات کی پہچان بھی دے۔
  • کردار سازی کے پروگرام: نصاب میں کردار سازی کے لئے خصوصی پروگرامز شامل کیے جائیں، جہاں طلباء کو سیاست، اخلاقیات، اور قیادت کی تربیت دی جائے۔
  • تحقیق و جستجو کو فروغ: ایسا ماحول مہیا کیا جائے جہاں طلباء کے سوالات اور نظریات کو اہمیت دی جائے۔ مثلاً، یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں تحقیقی مراکز قائم ہوں۔
  • مقامی معاشرتی مسائل پر توجہ: تعلیمی نظام کو مقامی مسائل پر مبنی کرنا چاہئے تاکہ طلباء عملی طور پر اپنی قوم کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔
  • اساتذہ کی تربیت: اقبال نے اساتذہ کو قوم کا معمار کہا ہے۔ لہٰذا، اساتذہ کی تربیت بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کے کردار اور پیشہ ورانہ مہارت کو بہتر بنانے کے لئے تربیتی پروگرامز ترتیب دیے جائیں۔

اقبال کے الفاظ میں، یہ نظام ایک ایسا چراغ ہوگا جو گمشدہ نسلوں کے لئے راہ دکھائے۔ ایسا تعلیمی نظام طلباء کو وہی روشنی فراہم کرے گا جو اقبال کے خوابوں میں پوشیدہ ہے۔ کیا ہم واقعی ایک ایسے نظام کے لئے تیار ہیں؟ یہ سوال ہم سب کو اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔

عالمی تناظر میں اقبال کا نظریہ

علامہ اقبال کے فلسفے اور خیالات کی بنیادی کشش یہ ہے کہ وہ نہ صرف مشرقی بلکہ عالمی تناظر میں بھی تعلیم اور انسانی ترقی کے لیے گہرے اثرات رکھتے ہیں۔ ان کے وژن نے یہ دعویٰ کیا کہ تعلیم کا مقصد انسان کو اپنی ذات، معاشرے اور کائنات کے ساتھ جوڑنا ہے۔ آج کے گلوبلائزڈ دور میں، ان کے خیالات کو عالمی تعلیمی نظاموں میں نافذ کرکے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

دنیا کے مختلف تعلیمی نظام: دنیا کے مختلف تعلیمی نظاموں کی مثالیں دیں جو اقبال کے نظریات سے ہم آہنگ ہوں۔

دنیا بھر میں مختلف تعلیمی ماڈلز ایسے ہیں جو کسی نہ کسی انداز میں اقبال کے فلسفے سے جڑے نظر آتے ہیں۔ یہ تعلیمی نظام ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ تعلیم کس طرح ایک متوازن معاشرہ تخلیق کر سکتی ہے۔

  • فن لینڈ کا تعلیمی نظام: فن لینڈ میں طلباء کو کتابی رٹائی کے بجائے تخلیقی اور عملی تعلیم دی جاتی ہے، جو اقبال کے اس فلسفے سے ملتا جلتا ہے کہ تعلیم کردار سازی کا ذریعہ ہونی چاہیے۔
  • سنگاپور کا ماڈل: سنگاپور میں تعلیم ٹیکنالوجی اور ہنر پر مبنی ہے، مگر ان کے نصاب میں اخلاقیات اور سماجی اقدار پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ یہ پہلو اقبال کی سوچ سے ہم آہنگ ہے، جہاں وہ روحانی اور اخلاقی تربیت کو تعلیم کا اہم حصہ گردانتے ہیں۔
  • مونٹیسوری نظام تعلیم: اس ماڈل میں ہر بچے کی انفرادی شخصیت اور دلچسپی کو مرکز بنایا جاتا ہے۔ اقبال بھی اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہر فرد کی “خودی” کو پروان چڑھایا جائے۔

ان تعلیمی نظاموں کی کامیابی نے ہمیں یہ سکھایا کہ اگر ہم اقبال کے تصور کو نئے زاویے سے اپنی تعلیم میں شامل کریں تو ہم مزید بہتر نسل تیار کر سکتے ہیں۔

انٹرنیشنل ایجوکیشن میں اقبال کی شراکت: اقبال کے اعصابی نظریات کو عالمی تعلیم میں کس طرح اپنایا جا سکتا ہے، پر روشنی ڈالیں۔

اقبال کا فلسفہ تعلیم نہ صرف مشرق بلکہ مغرب کے لئے بھی ایک روشن امکانات رکھتا ہے۔ ان کے خیالات کو بین الاقوامی تعلیمی نظاموں میں مختلف طریقوں سے اپنایا جا سکتا ہے:

  1. نصاب میں روحانی اور اخلاقی تربیت کا اضافہ: اقبال کا زور صرف رسم الخط یا سائنس کے مضامین پر نہیں بلکہ روح اور اخلاقیات کی تعلیم پر بھی ہے۔ بین الاقوامی نصاب میں اخلاقی تربیت پر مبنی ماڈیولز شامل کرکے طلباء کی شخصیت کی مکمل تعمیر پر توجہ دی جا سکتی ہے۔
  2. ریسرچ اور تخلیقی سوچ کا فروغ: اقبال ہمیشہ تحقیق اور تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ تعلیم میں ایسی حکمت عملیوں کو شامل کیا جا سکتا ہے جو نوجوانوں کو نئے خیالات پیش کرنے، تخلیق کرنے اور ان پر عمل کرنے کے مواقع فراہم کریں۔
  3. انسانیت کے لیے تعلیم: اقبال کی سوچ میں انسانیت کی خدمت اور فلاح شامل ہے۔ گلوبل ایجوکیشن میں ایسے پروگرامز نافذ کیے جا سکتے ہیں جو طلباء کو عالمی مسائل جیسے ماحولیاتی تبدیلی، امن، اور سماجی مساوات کے حل کے لیے تیار کریں۔
  4. اساتذہ کی تربیت: اقبال نے اساتذہ کو انقلاب کے معمار کہا ہے۔ عالمی تعلیمی نظاموں میں اساتذہ کی تربیت کے لئے اقبال کے فلسفے کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے تاکہ وہ نہ صرف معلم بلکہ مثالی رہنما بھی ہوں۔

اقبال کے تعلیمی وژن کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے نتیجے میں ایک ایسا تعلیمی نظام قائم کیا جا سکتا ہے جو انسانیت کے بڑے مقاصد کو حاصل کرسکے۔ ان کا فلسفہ آج بھی ایک روشنی کی کرن ہے جو موجودہ دور کے تعلیمی بحرانوں کا حل پیش کرسکتا ہے۔

Conclusion

اقبال کے خواب ایک ایسا تعلیمی نظام چاہتے تھے جو انسان کو شعور، خودی اور کردار کی بلندی عطا کرے۔ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام، جو رٹائی اور گریڈز کے ارد گرد گھومتا ہے، اس خواب کے بالکل برعکس ہے۔

تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیمی نظام کو اس سمت میں لے جانا ہوگا جو روحانی، اخلاقی اور عملی تربیت کا امتزاج ہو۔

اگر اقبال کے نظریات کو عملی جامہ پہنایا جائے، تو ہم ایک مضبوط، خودمختار اور باشعور نسل تیار کر سکتے ہیں۔ کیا ہم اس وژن کو حقیقت بنانے کے لیے تیار ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *