تحریر۔مسرور احمد
ویسے تو اس ملک کی حکمران اشرافیہ کے علاوہ عام پاکستانیوں سے روز مرہ زندگی میں دوسرے درجے کے شہریوں کا سا سلوک ہوتا ہے لیکن شاید بہت سے پاکستانیوں کے لئے یہ حیران کن امر ہو کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد اپنے ہی ملک میں عملاً دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے رہ رہے ہیں کیونکہ باقی پاکستانیوں کی طرح ان پر 1973 کے دستور کا اطلاق یا تو جزوی طور پر ہوتا ہے یا بالکل نہیں ہوتا۔ چنانچہ آزادی کے ستر سال بعد بھی یہ افراد اور علاقے حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔
پاکستان کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں ان کی نمائندگی یا تو ہے ہی نہیں یا پھر جزوی نمائندگی ہے اور ریاستی عدالتی نظام کا اطلاق بھی ان علاقوں میں یا تو ہے ہی نہیں یا پھر جزوی سطح پر ہے۔ ستر سال ہو گئے لیکن ہم آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کی وفاق پاکستان میں حیثیت کے متعلق اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ خدا خدا کر کے فاٹا کی حیثیت کا تعین کرنے کی طرف مسلم لیگ کی گزشتہ حکومت نے کچھ مثبت اقدامات اٹھائے تھے لیکن فاٹا میں اصلاحات اور اسے ملک کے باقی ماندہ حصوں کے برابر لانے کے لئے ایک لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔
امید ہے مسلم لیگ کی موجودہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر فاٹا کے مسائل کے حل کے لئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت اضافی بجٹ اور اصلاحاتی پیکج لائے گی۔ دوسری طرف کشمیر اور گلگت بلتستان میں بسنے والے لوگ حقیقی آزادی سے محروم ہیں اور اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتے۔ یہاں کے عوام وفاق پاکستان کا حصہ ہوتے ہوئے بھی عملی طور پر وفاق کا حصہ نہیں کیونکہ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں میں یہاں کی عوام کوئی نمائندگی نہیں رکھتی بوجوہ یہ کہ ان علاقوں میں بسنے والی عوام نے پاکستان اور استحکام پاکستان کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
گلگت بلتستان کے لوگوں نے اپنے زور بازو سے ڈوگرہ راج کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے پاکستان میں شامل کرایا جبکہ آزاد کشمیر فاٹا کے قبائلیوں اور مقامی کشمیریوں کی جدوجہد سے پاکستان کے اقتدار میں آیا۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مستقل حیثیت کا تعین کرنا اب بہت ضروری ہے جس سے ان علاقوں کا تشخص باقی پاکستان کے برابر لایا جا سکے۔ اس کے لئے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو وہاں کی عوام کی تائید اور مرضی سے پاکستان کے مستقل صوبوں کی حیثیت دینے میں پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔
انڈیا نے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے ایک طرح سے پاکستان کے لئے بھی جواز پیدا کر دیا ہے۔ جبکہ فاٹا کو 2014 میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے والی پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کے پی کے میں ضم کرنے کی سفارشات پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے۔ اس کمیٹی کی سفارشات پر پاکستان کے بیشتر اسٹیک ہولڈرز خاص کر فوج کا بھی اتفاق تھا لہٰذا عمل درآمد کے حوالے سے اسے لٹکانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اچھا اور خیر خواہی والا کام جتنا جلدی نمٹ جائے اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
فاٹا کے حوالے سے اصلاحات میں جو تجاویز پیش کی گئی تھیں، ان میں فاٹا کے وفاق کے زیر انتظام اصلاحات کی بات کی گئی، جبکہ دوسرے آپشن میں فاٹا کی تمام ایجنسیوں پر مشتمل ایک نئے صوبے کی تجویز پیش کی گئی اور ایک آخری تجویز یہ دی گئی کہ فاٹا کو باضابطہ طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔ ان تمام تجاویز میں آخری تجویز کو زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی کیونکہ عملی طور پر فاٹا کی معیشت اور سماجی و فطری تعلق خیبرپختونخوا سے ہی جڑا ہوا ہے، یہاں تک کہ فاٹا سیکریٹریٹ بھی پشاور ہی میں واقع ہے۔
سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد کا عرصہ پانچ سال رکھا گیا جو کہ اب بیت چکا ہے لیکن بہت سے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ مثال کے طور پر ضلعی انتظامیہ کے لئے ضروری انفراسٹرکچر اور فاٹا کے اضلاع میں تمام سرکاری اداروں کے قیام کے سلسلے میں ابھی مزید پیش رفت درکار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں قانونی پیچیدگیاں اور انتظامی معاملات کو زیادہ سے زیادہ ایک سال کے عرصے میں سلجھایا جاسکتا ہے۔
ہمیں وفاق پاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے تمام ملکی معاملات میں پنجاب کی بالا دستی کا تاثر ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان کے کسی علاقے یا لوگوں سے مفتوحہ علاقوں کا سا سلوک بند کرنا ہو گا۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے بھی اگر ہم کچھ نہیں سیکھ پائے تو کب سیکھیں گے؟ ایک مضبوط وفاق کے لئے وفاق کی تمام اکائیوں میں ہم آہنگی او ر این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل و اختیارات کی تقسیم ناگزیر ہے۔ اس وقت پاکستان کو جو چیلنجز درپیش ہیں اس کے لئے ذاتی اور گروہی مفادات سے باہر نکل کر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔
کیا ہماری زندگیوں میں کبھی وہ دن بھی آئے گا جب پاکستان کا وزیر اعظم، صدر، چیئرمین سینٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی فاٹا، گلگت بلتستان یا اقلیتوں سے بھی منتخب ہو سکے؟ کیا کبھی ہماری سیاسی جماعتیں وراثتی خول سے باہر نکل پائیں گی اور خاندان سے باہر اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی پارٹی سربراہ بن سکیں گے؟ اگر ان سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کا دعویٰ ہے تو اپنی صفوں میں تو پہلے جمہوری رویوں کو فروغ دیں۔
جمہوریت تو مساوی اور یکساں حقوق اور آئین کی حکمرانی کا نام ہے تو کیا پاکستان میں کی سطح پر حقیقی جمہوریت موجود ہے؟ اس حوالے سے تقسیم روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے اور طاقتور لوگ پورے نظام اور آئین کو اپنی مرضی کے تابع چلانا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو سپر مین سمجھتے ہیں اور عام پاکستانی شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں دوسرے درجے کے شہری بھی تصور نہیں کرتے۔ ہر سرکاری ادارے میں پیرا شوٹرز موجود ہیں جو کیریئر افسران سے زیادہ طاقتور ہیں۔ عام پاکستانیوں کی عزت نفس نہ اپنے ملک میں محفوظ ہے نہ بیرون ملک۔ ہماری اشرافیہ کو ایک بات سمجھنا ہو گی کہ دولت اور طاقت کا مطلب بے لگام ہونا نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساتھ ایک اور چیز ہوتی ہے اور وہ ہے عہدے اور اپنی سماجی حیثیت کے ساتھ ایمانداری، ذمہ داری اور انسانیت کا احساس۔
ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے اور تمام شہری ریاست کے بچوں کی مانند ہوتے ہیں اور ایک اچھی ماں اپنے سب بچوں سے سانجھا سلوک کرتی ہے۔ وفاق کی مضبوطی کے لئے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، فاٹا اور بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے اور انھیں مین سٹریم میں لانے کے لئے مزید دیر نہیں کرنی چاہیے تاکہ ان کے بارے میں دوسرے درجے کے پاکستانی ہونے کا تاثر ختم ہو۔ خدا کرے موجودہ حکومتی سیٹ اپ ہمارے لئے کوئی اچھی نوید لے کر آئے۔