کردار کشتی: ہیڈ ماسٹر صاحب

تحریر۔عزخ

آدم کے برتھ ڈے پر فرشتوں نے حجت کی کہ انسان زمین پر اودھم کرے گا ’فساد مچے گا اور خون ریزیاں ہوا کریں گی۔ اسے دل لگی کے واسطے حوا بھی چاہیے ہوگی۔ خداوند کا جواب بھی اٹل تھا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ ابلیس استاد پھر بھی نہ مانے اور طویل مہلت طلب کی۔ ایسا لگتا ہے کہ رد دلیل کے واسطے اور شیطان کو تھکانے کے لئے ہیڈماسٹر صاحب کی ویکینسی نکالی گئی؛ انسانیت کے لئے رول ماڈل مگر بقیہ آدمیت کا اینٹی کلائمکس۔

ڈی این اے کے طبعی تناظر میں دیکھیں تو سائنسدانوں کی طرح ہیڈماسٹر صاحب کی بدنی بولی بھی دھیمی اور جسمانی کیمسٹری تھکی تھکی سی ہوتی ہے لیکن اپنے اپنے حلقوں میں انتہائی اثر پذیر بھی۔ جس طرح کسی شخص کو فارمولے رٹوا کر سائنس دان نہیں بنایا جاتا اسی طرح ہیڈ ماسٹری بھی پیدائشی وصف ہے‘ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ شخصی کردار دونوں کا توانا ہوتا ہے ؛ بھرم بھاری پٹارا خالی۔ یہی وجہ ہے کہ پورٹل تعلیمی ڈگریاں دھڑادھڑ جاری کرنے کے باوجود مصنوعی ذہانت ابھی تک ہیڈماسٹر کے ہم پلہ مشین یا روبوٹ تخلیق نہیں کر سکی ہے۔

تحمل اور صبر کا نشان دیکھنا ہو ’زمانے کی لہروں کے خلاف جائے بغیر اور کسی بھی قسم کی بغاوت سے دوری کے باوجود ایک مطمئن اور مسرور شخصیت سے ملاقات کی خواہش ہو تو دور مت جائیے‘ اپنے اسکول ہیڈماسٹر صاحب سے فوراً مل لیجیے۔ اور اگر آپ گورنمنٹ اسکول کی زندگی سے آشنا ہیں تو یقیناً پہلے ہی ہیڈماسٹر صاحب کے زیر اثر ہوں گے۔ گالم گلوچ نہ کسی باغیانہ سوچ کا اظہار ’حتیٰ کہ شکوہ شکایت بھی نہیں یہاں تک کہ گمبھیر ترین صورت حال میں بھی زیرلب مسکراہٹ ایک ہیڈماسٹر صاحب ہی افورڈ کر سکتے ہیں۔

بھرتی کے کچھ دن بعد ہی جونیئر ٹیچر کی آنیاں جانیاں دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ہیڈماسٹر بن جائے گا یا بلیک بورڈ اور کار سرکار کی تاریک راہوں میں گم ہو گا۔ ترقی پاکر ہیڈ ماسٹری کے منصب کے اہل استاد میں روز اول سے چند نشانیاں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ پہلی نشانی یہ ہے کہ ٹیوشن نہ پڑھائے گا مگر اخبار اول تا آخر پورا پڑھے گا۔ جسم نحیف ہونے کے باوجود آواز پاٹ دار ہوگی۔ ایسی آواز جو کلاس روم سے باہر برآمدے میں پہنچتے ہی ساونڈ بیرئیر توڑ دے۔

نصاب کا سبق مکمل پڑھانے اور کتاب سے باہر دلچسپ مثالیں دے کر سمجھانے کے باوجود امتحانی کاپیاں چیک کرنے میں سست و سرسری ہو گا۔ حاضر موجود اور سابق شاگردوں کے نام بمعہ کوائف اور ضروری شجرہ ازبر یاد ہوں گے۔ استاد ہونے کے علاوہ ایک مشاق نشانہ باز ہو گا اور تختۂ سیاہ پر لکھتے لکھتے پشت پر موجود تختہ ستم شرارتی بچے کی درست شناخت میں ماہر۔ وہ چاک کے بچے ہوئے ٹکڑے کو اس مہارت سے ٹرے جیکٹری دے گا کہ ماشہ بھر سفید بارودی میزائل دیگر طلبا کے سر سے گزرتے ہوئے اپنے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنائے۔

ایک جید ٹیچر نوکری کی ٹینشن لئے بغیر استادی کرے تو کامل ہیڈماسٹر جلد باہر نکل آتا ہے۔ علاوہ ازیں استادوں میں سے کچھ اور طرح کے تیز طرار ہوتے اور ہیڈ ماسٹری کی بجائے مقابلے کے دیگر امتحانات پاس کر کے شہرت کا ڈنکا بجاتے ہیں۔ اسکول میں ایسے اساتذہ اور خاندانی ہیڈماسٹر صاحب کے درمیان بظاہر اچھے تعلقات کے باوجود ایک سردمہری کی سی فضا رہتی ہے۔

کامیاب ہیڈماسٹر صاحب گوناں یقین کے حامل اور صاحب استقلال ہوتے ہیں۔ زمانے اور ڈائریکٹوریٹ کے گرم سرد کا پامردی سے سامنا کرتے ہیں۔ فنڈ نہ ملنے کے باوجود اسکول کی عمارت اور اپنی امارت قائم و سلامت رکھتے ہیں۔ چھڑی ہاتھ میں ہونے باوجود اس کے استعمال سے ہر ممکن اجتناب کرتے ہیں۔ کسی تبدیلی کا بلند و بانگ دعویٰ نہیں کرتے۔ ہیڈ ماسٹری کا تجربہ جوں جوں بڑھتا ہے بادشاہی خو بھی توں توں پختہ ہوتی جاتی ہے۔ اس عہدے میں ایک عجب سرشاری ہے کہ مزید ترقی کی خواہش دم توڑ دیتی ہے۔

یہ پادشاہی مغلیہ زوال کے آخرالزماں کی سی ہوتی ہے۔ خزانے سے خالی اور اختیار سے عاری۔ تاہم ہیڈماسٹر صاحب کی ذاتی زندگی سراپا سکون ہوتی ہے۔ وہ اپنی تنخواہ باقاعدگی سے بیگم صاحبہ کے حوالے کر کے اس شخصی سکون میں مزید بڑھوتی کرلیتے ہیں۔ کلینڈر میں دن اور تاریخ تو بدلتے رہتے ہیں مگر صاحب کے دن بدلتے اور نہ تاریخ بدلتی ہے جو خود کو یوں دہراتی رہتی ہے جیسے گھڑی کی سوئیاں زندگی کی رفتار میں کوئی رد و بدل کیے بغیر تواتر سے ایک ہی دائرے میں گردش کر رہی ہوں۔

ان سب کے باوصف ہی ہیڈماسٹر صاحب اپنے طلبا کے دلوں میں بستے ہیں۔ شاگرد کے لیے گورنمنٹ اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب ہمیشہ معزز اور واجب الاحترام رہتے ہیں۔ ہیڈماسٹر صاحب سے بہتر ذہن ساز اور کامیاب سماجی تخلیق کار شاید ہی کوئی اور پیشہ ور ہو۔ وہ جو کچھ مرتب کریں ’کچے ذہن فوراً قبول کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور نظر سے دور ہونے کے باوجود ہیڈماسٹر صاحب کا اثر دیرپا اور مزید موثر ہوجاتا ہے۔ بدھو سے بدھو اور نکمے شاگرد کو بھی ہیڈماسٹر صاحب کی شخصیت کا ادراک اور ان کے اقوال زریں کی قدر‘ ایک عرصے بعد ہی سہی ’معلوم ضرور ہوتی ہے۔ ظاہری اقتصادی جمود اور شخصی اباس کے باوجود ہیڈماسٹر صاحب کی جدوجہد کی مثال جون ایلیا کارگزاری اور فیض کی سرگزشت کے بیچ (درمیان) کے کسی ہیولے سے دی جا سکتی ہے جن کی قدر اور چرچا ہجوم کو ان کے گزر جانے کے ایک عرصے بعد محسوس ہوتی ہے۔ ہجوم سر دھنتا اور دیر تک ان کی یاد میں ناچتا پھرتا ہے۔

ایک کامیاب ہیڈماسٹر کی رسائی معاشرے کے ہر طبقے تک ہوتی ہے، بالخصوص نوجوان اذہان کی آبیاری ’ریخت و شکست۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انگریز سامراج نے اس عہدے کو ایک خاص سماجی سانچے میں ڈھال کر نافذ کیا۔ نوآبادیاتی نظام کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں جب کہ حقیقی قومی تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ ماضی قریب میں قومی آمر حکمرانیت نے اس قبیل کو نہ صرف بھانپ لیا بلکہ اسے انتہائی چابک دستی سے اپنے مفاد میں استعمال کیا۔ یوں 80 کے عشرے تک ایک ایسا سماجی لشکر تیار ہو چکا جو درماندگی سے لیس تھا‘ ترقی سے جن کو چڑ تھی۔

مالی اور اقتصادی پسماندگی مرغوب اور قناعت کے نام پر سست الوجودی اور خوش حالی سے احتراز۔ مقصد بہت واضح تھا۔ کسی بھی قسم کی تبدیلی کی خواہش جنم نہ لے اور اسٹیٹس کو برقرار رہ سکے۔ پی ٹی وی کی اسکرین ’ریڈیو کا مائیک اور محلے کے لاؤڈ اسپیکر آگہی کے ابلاغ کی جگہ ذہنی افلاس کے فروغ کا باعث بنے۔ درس دلیل سے عاری اور نصاب سوال سے خالی کر دیے گئے۔ منبر دشنام طراز اور محرابیں بے چراغ۔ سرکاری اسکول کا برآمدہ حبس آلود اور پی ٹی وی کا پرائم ٹائم گھٹن کا شکار رہا۔

لایعنی ڈرامے باز صبح شام قلم اور کلام سے وہ کھلواڑ کر گئے جن کا مقصد تب سمجھ میں نہ آتا تھا۔ حتیٰ کہ دو عشروں بعد ان کونپلوں میں سے ابھر کر دہشت گردی کا عفریت سر چڑھ کر بولا۔ سرکاری وثیقہ نویس ان دنوں بڑے وثوق سے کہا کرتے تھے کہ ان ڈراموں کی سمجھ قوم کو 50 پچاس بعد آئے گی۔ پچاس سال ہونے کو آئے اور ہم صدیاں پیچھے پہنچ چکے۔ اندھیرا طاری اور پس ماندگی کا سفر ہنوز جاری ہے۔ اب تک کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب اب بھی دستیاب ہیں۔ اسی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ۔ دیکھئے کون سا طالع آزما اب اس منصب کو استعمال کرے گا۔ یہ ہیڈ ماسٹر صرف اسکول اور مدرسے میں نہیں بلکہ ہر محکمے اور ادارے میں دستیاب ہیں۔ ان کی جاب ڈسکرپشن اور راہ کا تعین کس کی ذمہ داری ہے؟ زندہ ہے ہیڈماسٹر زندہ ہے ؛ زندہ و موجود۔

Politics . dictator

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *