تحریر۔احسان ابڑو
آصف علی زرداری نے بحیثیت صدر مملکت پاکستان حلف اٹھا کر ایک نئی تاریخ رقم کی، وہ پہلے منتخب صدر ہیں جنہوں نے دوسری بار صدارتی منصب سنبھالا ہے۔ اس طرح آج پاکستان میں نئی حکومت سازی تقریباً مکمل ہو چکی، صوبے بھی اپنی کابینہ کی تشکیل کے مراحل طے کر رہے ہیں جس کے بعد انشاءاللہ ماہ مقدس کے آغاز کے ساتھ ہی عوامی مشکلات کے خاتمے کی ملک گیر کوششوں کا آغاز ہو جائے گا۔
انتخابات کے بعد سیاسی تلاطم ابھی تھما نہیں ہے، اس کی حدت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔ مگر یہ تلاطم برپا کرنے والوں کی سمت اور طریقہ کسی طور پہ درست نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ پاکستان کی قوم اس وقت معاشی اور سیاسی ابتری کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ قوم نے سیاسی جماعتوں کو ملک کی ترقی، استحکام، مہنگائی بھوک بیروزگاری کے خاتمے کے فوری اور دوررس اقدامات کے لیے مینڈیٹ دیا ہے، پھر چاہے وہ مینڈیٹ تحریک انصاف کو ملا ہو یا اقتدار میں آنی والی جماعتوں کو۔
پاکستان کی آدھی آبادی ووٹر کے طور پہ رجسٹرڈ ہے اور ان انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹوں کا 48 فیصد ووٹ سیاسی جماعتوں کو ملا یعنی 6 کروڑ کے قریب پاکستانیوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اپنی من پسند جماعت کو اس لیے ووٹ دیا کہ وہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ ملکی معیشت، سیاست، معاشرے میں اگر استحکام آ سکتا ہے اگر ترقی خوشحالی کی راہیں کھل سکتی ہیں تو یہ سب اس ملک کی سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں نے دو کروڑ کے قریب ووٹ حاصل کیے تھے اور حکومت بنائی جبکہ متحدہ اپوزیشن نے حکومتی اتحاد کے مقابلے میں 30 لاکھ سے زائد ووٹ زیادہ حاصل کیے ۔ موجودہ انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنا ووٹ بینک یقیناً برقرار رکھا ہے مگر اس بار حکومتی اتحاد نے ان کے مقابلے میں ستر اسی لاکھ ووٹ زائد حاصل کر کے حکومت بنائی ہے۔ پچھلی حکومت میں بھی تحریک انصاف کو سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی اور ان انتخابات میں بھی کسی اتحادی کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ملک کے تمام اداروں، عوام، میڈیا سمیت ہر مکتبہ فکر کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل تھا۔ وہ بھرپور عوامی پذیرائی اور توقعات کے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ عمران خان نے ملک کے معروضی سیاسی حالات کا باریکی سے جائزہ لے کر درست اور بروقت اقدامات لینے کے بجائے چرب زبانی اور جھوٹے دعووں ڈھکوسلوں سے، عوام کو پچاس لاکھ گھروں ایک کروڑ نوکریوں کے پیچھے لگا دیا۔ انہوں عوام کو پاکستانی سیاستدانوں کے مالک سے باہر بینکوں میں جمع اربوں ڈالر ملک واپس لاکر معیشت کو ٹھیک کرنے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنے کے سہانے مگر وہ خواب دکھائے جن کی تعبیر ہی ممکن نہ تھی۔ اپنی حکومت کی بنیاد ہی جھوٹ اور منافقت پہ رکھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جعلی مینڈیٹ اپنے ہی بوجھ سے نہ صرف پونے چار سال میں دھڑام سے زمین پر آ گرا بلکہ ملک کی سیاست، معیشت اور معاشرے کا بھی دیوالیہ نکال دیا۔
ملکی معیشت، سیاست اور معاشرے کے ساتھ کھلواڑ کر کے ملک کو دیوالیہ پن کی حدود پہ پہچانے والے مسیحا کی حکومت کے بعد اتحادی حکومت نے نیازی حکومت کی تباہی بربادی، نا اہلی اور ناکامیوں کا ملبہ اپنے کندھوں پہ اٹھایا اور دیوالیہ ہوتے ملک کی معیشت کو ایک سمت دی، مشکل فیصلے کر کے اپنی سیاسی مقبولیت کو داؤ پہ لگایا مگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، جس کا خمیازہ انہیں انتخابات میں بھگتنا پڑ اور ایک ناکام غیر مقبول، نا اہل و قصۂ پارینا بنتی جماعت اور اس کی قیادت کو ایک بار پھر پیروں پہ کھڑا ہونے کا موقع مل گیا۔
موجودہ انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی حکومت کو ایک طرف انتہائی مشکل معاشی صورتحال کا سامنا ہے تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور انتشار بھی اژدہے کی طرح پھن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس حکومت کے اکابرین کو ملک کے استحکام، امن و سلامتی کو درپیش چیلنجز کا اچھی طرح سے ادراک ہے۔ جس طرح اپنے سیاسی مفادات، و نظریات پس پشت رکھ کر ملک کی موجودہ قیادت نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی ہے وہ لائق تحسین ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت نے تمام مراحل بخوبی مکمل کر لیے ہیں لہذا اب بلا تامل عوام کو ریلیف دینے، ملک کو معاشی اور سیاسی بحران سے نکالنے میں جت جانا چاہیے جس کی توقعات عوام ان سے لگائے بیٹھے ہیں۔
عمران خان اور ان کے اکابرین آج بھی نئی حکومت کے اس پرخار راستے میں مزید رکاوٹیں کھڑی کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں جس کا ثبوت وزیر اعلیٰ کے پی کے کی جانب سے وزیراعظم کی منظوری کے بغیر صوبے کے نئے چیف سیکریٹری کی تعیناتی ہے، لیکن شاید وزیر اعلیٰ کے پی کے یہ نہیں جانتے کہ ان کا یہ اقدام وفاق کی وحدانیت پہ کاری ضرب اور اس کے ساتھ غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ انتہائی شرمناک اقدام ملک میں پہلے سے موجود سیاسی انتشار اور افراتفری میں مزید تیزی کا سبب بنے گا وہیں تحریک انصاف کی قیادت کی مشکلات اور مسائل میں اضافے کا بھی سبب بنے گا۔
نئی حکومت میں شامل اتحادیوں کو بھی پاکستان کی عوام کی بہت بھاری تعداد نے ووٹ دیے ہیں، اس امید اور یقین کے ساتھ کہ ملک کی پرانی اور بڑی عوامی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی تجربات، پرانے آزمودہ کار سیاسی رفقاء، اپنے بین الاقوامی تعلقات کو استعمال میں لاکر ملک کی تعمیر اور ترقی کے سفر کو وہیں سے دوبارہ شروع کریں گی جہاں انہوں نے چھوڑا۔ چائنا کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات اور دوستی کو نیا دوام بخشیں گی۔ صدر مملکت آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی زیرک دانشمند اور معاملہ فہم قیادت اس حکومت کی پس پشت رہنمائی کرے گی دونوں تجربہ کار سیاستدان عالمی سیاست میں اہم مقام اور شناسائی رکھتے ہیں اس لئے یہ قوی امید ہے کہ پاکستان کی عوام نے جو امیدیں موجودہ حکومت سے لگائی ہیں وہ انشاءاللہ بارآور ثابت ہوں گی۔
پاکستان ایک نئی اور منتخب عوامی حکومت اور حکومت کو ملے بھاری عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے معاشی بحران کے خاتمے، قرضوں اور ان کی ادائیگیوں میں توازن لانے کے لیے ایک نئے اور غیر متزلزل اعتماد کے ساتھ بات چیت کرے گا اور یقیناً موجودہ حکومت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان کو اس مشکل معاشی صورتحال سے نکال کر نہ صرف ٹریک پہ لے کر آئے گی بلکہ پاکستان کی تعمیر ترقی اور استحکام کی نئی بنیاد ڈالے۔ چین نے پہلے ہی سی پیک پہ مزید نئے روٹس پہ سرمایہ کاری کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ پاکستان ایک روشن مستقبل کے نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
media, Imran Khan, Politics, nawaz sharif, zardari, history, cpec,