تحریر۔ عزخ
مشترکہ خاندانی نظام یعنی جوائنٹ فیملی سسٹم میں ”بڑے ابا“ کا کلیدی کردار ہے۔ متعدد بھائی اور ان کی اولاد در اولاد ایک چھت تلے بظاہر خوش و خرم اور آسان زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ دیکھنے والے بھی اس اتحاد بین الفیملین پر ”واہ واہ“ کے ڈونگرے برساتے اور ”عش عش“ کرتے ہیں۔ کامن کمرے اور کمبائن باتھ رومز گھر کا اثاثہ جب کہ مشترک تولیے اور لحاف گدے اس طرز زندگی کا خاصہ قرار پاتے ہیں۔ زندگی پھولوں کی سیج نہیں، ظاہر ہے خاندان میں روز افزوں بچوں کے علاوہ نت نئے مسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
ان کامن انٹرسٹ والے ایشوز پر فوری فیصلہ سازی گھر کے اتحاد کو سلامت رکھنے میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ جب بزرگ دادا جان کم زور پڑ جائیں یا بصورت وفات‘ اباؤں میں سے کسی کو باگ ڈور لئے آگے جتنا پڑتا ہے تب جاکر گھر کی گاڑی آگے چلتی ہے۔ بڑے ابا اچانک اور یوں ہی نہیں بن جاتے۔ دادا کی ودیعت کے باوجود ’وقت پرورش کرتا ہے برسوں تب جاکر بڑے ابا کی مہدیت کا اعلان ہوتا ہے۔ گھر کو سلامت اور یک جہت رکھنے کے لئے اس عہدے کا شاندار استقبال ہوتا ہے۔
ماورائے آئین حیثیت ملتی ہے اور ان کے مسلط کردہ فیصلوں کو مسیحائی جان کر سب سر دھنتے اور آمین کہتے ہیں۔ بڑے ابا کو گھر کی سالمیت کی نشانی اور مشکلات سے نجات دہندہ ہونے کا خطاب حاصل ہوتا ہے۔ ہر اہم اور غیر اہم موضوع پر ان کی طرف نگاہیں اٹھی رہتی ہیں کہ دیکھئے اس بات پر بڑے ابا کیا کہیں گے‘ اس بات پر کیا کہیں گے۔ آج کیا پکے گا سے لے کر چھوٹے چچا کی گڈو کی پھوپھی رضیہ کے نکمے بیٹے سے سگائی اور منجھلی چچی والے کماؤ پوت شاداب کی شادی کے لئے نئے کمرے کی تعمیر تک ہر فیصلہ بڑے ابا کی ابروئے چشم کا محتاج ہوتا ہے۔
بلاشرکت غیرے اقتدار اور حق حاکمیت آہستہ آہستہ بڑے ابا کی طبیعت میں متانت کی بجائے رعونت بھر دیتا ہے۔ بڑے ابا ان امور میں بھی مداخلت شروع کر دیتے ہیں جو ان کے اسکوپ سے باہر ہوتے ہیں۔ ان کی طبیعت بتدریج حساس ہوجاتی ہے اور ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے وہ امور خانہ داری کے تمام شعبوں کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی ٹانگ اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ناراضگی کا برملا اظہار بڑے ابا کی فطرت بن جاتا ہے۔ یہیں سے معاملات میں بگاڑ آنے لگتا ہے ، ارادے ادارے تباہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
خاندانی گھر بظاہر کشادہ و فراخ ہو تب بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گزارے کی تنگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بڑھتی آبادی اور نئی نسل کی ضروریات بہتر آزادی کی آواز کو ایک خواہش سے زیادہ حقیقت پسندانہ حل بنا دیتی ہیں۔ احتجاج یا مطالبہ انسانی فطرت ہے جسے دبایا نہیں جاسکتا۔ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت گھر خواہ کسی لکھے یا بن لکھے ضابطے کے تحت چل رہا ہو اگر اس کی گنجائش میں توسیع اور برداشت میں اضافہ نہ ہو تو ایک یا دو باسی آئین سے انکار کر کے سرکشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
کسی سپوت میں آرام یا حرام کی لت پڑ جائے تو پھڈا عموماً ”این ایف سی ایوارڈ“ یعنی مالی وسائل کی یکساں تقسیم پر ہوتا ہے۔ گھر کی آبادی میں غیر یکساں اضافے کی پیچیدہ صورتحال کو سنبھال لینے یا بگاڑ دینے میں بڑے ابا کا بڑا رول ہوتا ہے۔ ان کا بہتر رویہ سرکشی کو زائل جب کہ آمرانہ فیصلے علیحدگی مائل رویوں کو جنم دے سکتے ہیں۔
بڑے ابا کو زیرک ہونے کے علاوہ محتاط بھی رہنا پڑتا ہے۔ خود پر خول چڑھانے میں برسوں کی ریاضت اور ریاضی شامل ہوتی ہے۔ ریاضت سنجیدہ رویوں کی اور ریاضی بستر مرگ پر وصیت کرتی دادی جان کی باریک کیلکولیشن کی۔ جان جوکھم میں ڈال کر سب کو ساتھ لے کر چلنا بھاری ذمہ داری کا کام ہے۔ ہر روز کی چخ چخ۔ ہر رات کسی نہ کسی پارلیمانی مسئلے پر غیر پارلیمانی بحث اور گالم گلوچ۔ دیکھا گیا ہے کہ بڑے ابا بھی کمال جان فشاں طبیعت کے مالک ہوا کرتے ہیں۔
مجال ہے جو کسی مطالبے یا طعنے پر گھائل اور اپنے مسلط کردہ غیرآئینی فیصلوں میں ترمیم کی طرف مائل بھی ہوں۔ جبر کے عالم اس مشترکہ نظام کے تحت چلتا کثیر آبادیاتی گھر ہر وقت ایک نازک صورت حال سے گزرتا اور پیچیدہ موڑ سے بچ بچ کر چل رہا ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان مسائل میں جوان ہوتے بچوں کی خاندان سے باہر شادی کا موضوع بہت زیادہ ویورز شپ اور لائکس یا پھر ڈسلائکس سمیٹتا ہے۔ بڑے ابا گمان رکھتے ہیں کہ ایسی ننھی ضدوں پر نہ ایمان سلامت رہتا ہے اور نہ ایمان علی ’لہذا گاہے بگاہے اقرار ناموں پر انگوٹھے لگوائے جاتے ہیں۔
گھرمیں بڑے ابا کی حاکمانہ حیثیت کو بظاہر کوئی چیلنج لاحق نہیں ہوتا۔ وہ خلیفہ بے بدل اور امام بے مثل بنے خاندانی گاڑی کو زمانے کے نشیب و فراز سے تنہا نکالتے سواریوں کو جھٹکے دیتے رہتے ہیں۔ دوڑتا ہے اشہب زمانہ کھا کھا کر طلب کا تازیانہ؛ بڑے ابا ڈرائیونگ سیٹ کسی سے شیئر نہیں کرتے۔ برائے نام مجلس شوریٰ سے اپنے من مانے فیصلوں کی توثیق۔ مباحثے میں ناکامی پر نظریاتی اپچ سے بلیک میلنگ۔ ایسے گھروں کی مثالیں موجود ہیں جہاں مکالمے کی شکست پر دینی حوالوں کے ساتھ ساتھ ملی ترانوں کی دھن میں ”اس چھت کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ ہم ایک ہیں“ الالپتے اتحاد و یکجہتی کا بھاشن دیتے دیتے بڑے ابا ضرورت پڑنے پر ہارٹ اٹیک کی ایکٹنگ کی آڑ میں سوچ پربھی کرفیو بھی لگا دیتے ہیں۔
مشترکہ کچن کی دیگ بھی بڑے ابا کی گرفت میں رہتی ہے۔ پشاور کے پائے والوں کی طرح روک روک کر چمچہ چلایا جاتا اور بوٹیاں پلیٹ سے واپس مٹکے میں ڈالی جاتی ہیں۔ تیز سرخ روغن سے بہلا کر بھوک مٹا دی جاتی ہے۔ گھر کے افراد کے احتجاج پر وہ کسیلے الفاظ ادا ہوتے ہیں جن کو سن کر مردوں کا دل کھٹا ہوجاتا ہے اور عورتوں کی طبیعت کھٹائی کی طرف راغب ہوتی ہے۔ گھر توڑنے کی کوششوں اور علیحدگی کا الزام خواتین پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ جنت سے نکالے جانے کی ذمہ داری بھی تو عورت ہی پر عائد کی گئی ہے۔ اس پیر مرد کی نفرت بھی عمیق ’اس کی محبت بھی عمیق۔ شمعء محفل کی طرح سب سے جدا‘ سب کا رفیق۔ مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں۔ بات میں سادہ و آزادہ ’معانی میں دقیق۔ اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا۔ اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق۔
فلسفۂ تقدیر کے باب میں ابن خلدون کے خیالات جان کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف ہمارے ہاں کے مشترکہ خاندانی نظام کی ہی جاسوسی کر رہے تھے۔ تقدیر کا لکھا کون مٹا سکتا ہے۔ حاکمیت کے ہر عروج کو زوال ہے۔ گھروں میں بے جا سختی کے نتیجے میں نوجوان بہتر مستقبل کا بہانہ بناتے شہر ہی نہیں چھوڑتے بلکہ دیار غیر کو نکل پڑتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو سکون کی داستانیں سناتے ہیں۔ ان کی آسائش دیکھ کر دیگر افراد میں بھی خواہش انگڑائی لینے لگتی ہے۔
اظہار رائے اور کسی بھی مخالفت پر رہائشیوں کو غداری کی تہمت سہنا اور صفائیاں دینا پڑتی ہیں۔ اس موقعے پر بتدریج کمزور ہوتے بڑے ابا ایمرجنسی نافذ کرنے تک سے باز نہیں آتے۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ روز روز رہائشیوں کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرتے ایک روز بڑے ابا کا اپنا ہارڈوئیر ہی بیٹھ جاتا ہے۔
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ۔ تیزی سے بگڑتی اس صورتحال میں بڑے ابا تجاہل عارفانہ سے کام لیتے اور ایک روز ناکامی کا اعلان کرتے گھر یا دنیا ہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی۔ گھر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں۔