تحریر۔عاطف طفیل
پاکستان میں خیراتی ادارے ایک منفعت بخش صنعت کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ اس صنعت میں سرمایہ کاری دوسرے کرتے ہیں اور نیک نامی اور مسیحائی کا تمغہ خیراتی اداروں کے سربراہوں کے سینے پر سجتا ہے۔ با الفاظ دیگر ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا۔ ان خیراتی اداروں کو پرائیویٹ انٹرپرائز کی طرح چلایا جاتا ہے۔ باپ کی تعمیر کردہ خیراتی راجدھانی اس کی اولاد کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ مزید برآں دوستوں کی بھی ایڈجسٹمنٹ سے ثواب دارین حاصل کیا جاتا ہے۔
جو رب کا ہے وہ سب کا ہے ”جیسے سحر انگیز تصورات سے خاص و عام“ کا دل موہ لیا جاتا ہے۔ رب کا جو کچھ ہے وہ سب کو تو نہیں ملتا ہے البتہ خیراتی اداروں کے جاگیرداروں کو دنیاوی خوشگواریاں مسلسل ملتی ہیں اور اخروی آسائشوں کی خوشخبری انہیں اس دنیا میں ہی مذہبی پیشواؤں کی جانب سے سنا دی جاتی ہے۔ خیراتی اداروں کے سربراہوں کو پوری دنیا میں مدعو کیا جاتا ہے۔ اوور سیز پاکستانی انہیں ڈالروں کی صورت میں ڈونیشن دے ان کے خیراتی فنڈ میں بے حساب اضافہ کرتے ہیں۔ ویسے تو پاکستانی معاشرے میں صاحب ثروت کو شک شبے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ان کی دولت دو نمبری کا نتیجہ ہے لیکن خیراتی اداروں کے سربراہوں کی کمائی کو جنت کی شاہ کنجی سمجھا جاتا ہے جس سے جنت کا ہر دروازہ کھلتا چلا جائے۔
جنت کا نگہبان فرشتہ رضوان ان کا استقبال کرنے کا منتظر رہتا ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق جنت اعمال حسنہ کا نتیجہ ہے لیکن خیراتی اداؤں کے سربراہوں کو یہ جنت اس لیے ملتی ہے کیونکہ پسی ہوئی قوم نے اپنی جمع پونجی ان کے قدموں میں ڈھیر کی ہوتی ہے۔
دنیا کی کسی قوم نے آج تک غربت خیراتی اداروں کی تعمیر سے دور نہیں کی ہے بلکہ اپنی افرادی قوت کو ہنرمند بنا کر رفع کی ہے لیکن وطن عزیز میں غربت غریبوں کو بھکاری بنا کر دور کرنے کا نادر نسخہ دریافت کر لیا گیا ہے۔
پاکستان میں وہی خیراتی ادارے کامیاب ہیں جن کے سربراہ پبلک ریلیشننگ میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ یہ اپنی مصنوعی عاجزی اور خود کے پکائے ہوئے اخلاص سے قلوب کو تسخیر کر لیتے ہیں پاکستان میں ”اسلامی ٹچ“ دے کرنا صرف سیاسی کاروبار چمکایا جاسکتا ہے بلکہ خیراتی اداروں کو بھی ترقی کی حیرت انگیز منزلوں کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے۔
خیراتی اداروں کے اجرتی اسٹاف کا نا زندوں میں شمار کیا جا سکتا ہے اور نا ہی مردوں میں ان کی گنتی کی جا سکتی ہے۔ یہ جب گرانی کے سبب اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں احساس جرم میں مبتلا کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر مرنے کا انتظار کرو اور سرجھکا کر خیراتی ادارے کے سربراہ کو بام شہرت کے عروج پر پہنچاؤ تو ہر صورت جہانوں کا مالک اس محنت کے عوض انہیں جنت میں جگہ تو ضرور دے گا لیکن جنت میں ان کا درجہ خیراتی ادارے کے سربراہ سے پست ہو گا۔
حلوے کی شوقین پاکستانی قوم کیونکہ پردے کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے اس لیے جو نظر آتا ہے اسے ہی سچ مان لیتی ہے۔ فکری اعتبار سے سہل پسند پاکستانی قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک تو سچ ہوتا ہے اور ایک سچ بنایا جاتا ہے تاکہ جو سچ ہوتا ہے اسے چھپایا جا سکے۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
(اقبال)