تحریک انصاف بند گلی میں

تحریر۔انوار احمد (یو ایس اے)

لگتا پے کہ الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے اتحادی سنی اتحاد کونسل کے سربراہ کا حالیہ بیان
” پی ٹی آئی کے دوست اپنے گھر کے جھگڑے گھر ہی میں طے کریں۔ انتخابی نشان سے مخصوص نشستوں تک میرے پاس بہت کچھ ہے بول دیا تو وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ سنی اتحاد کونسل سے معاہدہ بانی تحریک انصاف کی منظوری سے ہوا میں درخواست لے کر ان کے پاس نہیں گیا تھا ”

اس بیان کے بعد بظاہر اس غیرفطری اتحاد میں دراڑیں پڑنا شروع ہو چکی ہیں۔

یہی نہیں پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر اور روف حسن کے بیان بھی اندر کی کہانی سنا رہے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ مقدمہ بازی بھی بے مقصد اور گمراہ کن تھی جس کا پارٹی یا خانصاحب کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ابھی تو اور بہت سے چٹکلے سامنے آئیں گے۔

خانصاحب کی ضد اور ہٹ دھرمی نے نہ پارٹی ان کے پاس رہنے دی اور نہ ہی جیتی ہوئی نشستیں ان کے کسی کام آ سکیں اور ایک فعال و مقبول جماعت کو انتہائی کم حیثیت کی جماعتوں سے اتحاد کرنا پڑا۔ سنی اتحاد کونسل اور اتحاد بین المسلمین جیسی نیم سیاسی نیم مذہبی جماعتوں سے اتحاد کو حالات کے جبر کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا یہ غیر فطری اتحاد نہ تو پی ٹی آئی کے تعلیم یافتہ اور ماڈرن سپورٹرز سے مطابقت رکھتا ہے اور شاید خود خانصاحب کے مزاج اور طبیعت سے بھی میل نہ کھاتا ہو لیکن کیا کیا جائے حاضر اسٹاک میں یہی کچھ دستیاب تھا۔ جب آپ کے پاس کوئی آپشن ہی باقی نہ بچے تو پھر یہی ہوتا ہے۔

سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دوست کل دشمن بھی ہوسکتے ہیں۔ سیاست صرف مفادات اور ٹائمنگ کا کھیل ہے جس کے لیے وقت و حالات سے سمجھوتہ ضروری ہوتا اور اپنے مخالفوں سے ڈائیلاگ بھی کرنا پڑتا ہے لیکن جب خود سری حد سے بڑھ جائے اور بزعم خود وہی اکیلے مہاتما اور باقی سارے چور ہیں تو مقدر صرف تنہائی ہی ہوتا ہے۔ افسوس کہ خان نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری اور وہ بیچارہ اکیلا ہی مار گیا۔

ایک کہاوت ہے ”جو برے وقت سے بچ نکلا وہی سکندر“

لیکن خانصاحب نے بجائے مفاہمت اور دور اندیشی کے ضد۔ خود پرستی اور تکبر کی سیاست کی اور ہر ایک سے ہیڈ آن ٹکراؤ لیا جس کے نتیجے میں نہ پارٹی ان کے پاس رہی اور نہ ہی کوئی ہمنوا اور وہ خود جیل جا پہنچے۔ کب تک رہیں گے کچھ پتہ نہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک اسٹیٹس کو کے خلاف کھڑی ہونے والی جماعت جو نوجوان اور تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھی کس طرح سائڈ لائن ہو گئی جس کی بڑی وجہ بانی پی ٹی آئی اور ان کے حواریوں میں سیاسی بلوغت کا فقدان۔ وقت پر صحیح فیصلہ نہ کر سکنے کی صلاحیت۔ سیاسی مخالفوں کو انتقامی نشانہ بنانے اور سیاسی حریفوں سے مفاہمت نہ کرنے کا زعم لے ڈوبا۔

اور اب جب کہ وقت ان کی رعونت پر خاک ڈال گیا تو وہ انتہائی غیر مقبول جماعتوں سے اتحاد کر رہے ہیں۔ وہی مولانا فضل الرحمن جنہوں وہ مغلظات سنایا کرتے تھے کی خوش آمد کرتے نظر آئے اور وہی محمود اچکزئی جن کی نقلیں اتارا کرتے تھے آج خانصاحب کے صدارتی امیدوار بنے اور شکست ان کا مقدر ٹھہری۔

الیکشن کے بعد سے دھاندلی کا رونا رویا جا رہا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی آپ ہی ہیں۔ دو صوبوں میں تو آپ کی حکومتیں تھیں۔ کیوں توڑیں۔ اسمبلی کے ساتھ کیوں کھلواڑ کیا۔ اگر یہ نہ کرتے تو نون لیگ کی حمایت یافتہ نگران حکومت قائم نہ ہوتی اور معاملات آپ کے ہاتھ میں ہوتے نہ مخالف انتظامیہ دھاندلی کرانے میں کامیاب ہوتی۔ آپ نے تو سارے کارڈ ہی خراب کھیلے جس کا مخالفوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔

نو مئی کے واقعات ایک بدترین حکمت عملی ثابت ہوئی جسے حریفوں نے بھرپور طریقے سے ایکسپلائٹ کیا اور ملٹری جنتا نے بھی آپ سے دوری اختیار کرلی۔ پارٹی کے مخلص کارکنان اندھی تقلید میں اتنے آگے چلے گئے کہ خو پی ٹی آئی کی قیادت نے ان واقعات اور اس میں ملوث افراد سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا اور اب وہ بیچارے جیل میں بے یارو مددگار پڑے ہوئے ہیں۔

جبکہ وہ سارے الیکٹ ایبلز جو جہاز بھر بھر کے لائے گئے تھے انہوں نے اپنی وفاداریاں یکایک تبدیل کر لیں اور جس طرح لائے گئے تھے اسی طرح واپس چلے گئے یا وہ دوسری پارٹیوں می شامل ہو گئے۔ کچھ فرار اور کچھ ملک چھوڑ گئے یا معافی نامے لکھ رہے ہیں۔

مجھے تو خدشہ ہے کہ کوئی دن جاتا ہے کہ بشری بی بی بھی مہاتما کے خلاف بیان دے کر اپنی گلوخلاصی کرالیں گی۔ اور خانصاحب ”پھرتے ہیں میر کوئی پوچھتا نہیں“ کے مصداق جیل میں چکی پیس رہے ہوں گے ۔

خانصاحب کی عدم موجودگی میں پارٹی مکمل طور پر منتشر اور اندرونی خلفشار کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ دوسری تیسری درجے کی نا اہل قیادت جس میں اکثریت وکلاء کی ہے اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر۔ علی ظفر۔ رؤف حسن اور شیر افضل مروت ٹائپ کے لوگ عوام اور کارکنوں میں مزید کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں۔ ناقص پلاننگ کے باعث اسمبلی کی مخصوص نشستیں بھی ہاتھ سے جاتی نظر آ رہی ہیں اور سینٹ کے الیکشن میں بھی کسی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔

افسوس ہوتا ہے کہ ایک مڈل کلاس سے ابھری روشن خیال افراد پر مشتمل جماعت محض ناقص پلاننگ اور ذاتی انا کی وجہ سے منتشر ہو گئی اور اس کے بانی جیل کے سلاخوں کے پیچھے دیسی مرغ اور دیسی گھی میں بنے کھانوں کی فرمائشیں کر رہے ہیں جبکہ ان کا جانثار کارکن کارکن سوشل میڈیا پر قیدی نمبر 804 کے ہیش ٹیگ لگا کر اپنی بھڑاس نکال رہا ہے جس کا فائدہ پارٹی یا خانصاحب کو ہوتا نظر نہیں آتا۔

موجودہ سیاسی منظرنامے میں شاید سب سے بہترین سیاست پیپلز پارٹی نے کی۔ صدارت ان کے نام ہوئی۔ دو صوبوں کی حکومت بھی ملی۔ پارلیمنٹ کی ڈپٹی اسپیکر شپ بھی انہی کے نام ہوئی اور اب سینٹ الیکشن میں زرداری صاحب کوئی بھی چمتکار دکھا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور موجودہ سیٹ اپ میں کوئی وزارت بھی نہیں لی کہ اس مشکل وقت اور معیشت کی بدترین صورتحال کا بوجھ انہیں نہ اٹھانا پڑے۔

زرداری صاحب کو کچھ بھی کہیں وہ ایک پولیٹکل جینئس ہیں اب وہ اپنی صاحبزادی کو خاتون اول بنا کر سیاسی تربیت دیں گے اور شنید ہے کہ اپنی چھوڑی ہوئی اسمبلی کی نشست سے جتوا کر پارلیمنٹ بھی بھجوائیں گے۔ بختاور کو ایک نئی بے نظیر کے روپ میں لایا جائے گا۔ ان کے صاحبزادے بلاول پہلے ہی بطور وزیر خارجہ گروم ہوچکے اور وہ ایک نوجوان لیڈر کے طور پر سامنے بھی آچکے ہیں۔ بلاول پچھلے الیکشن میں سرگرم نظر آئے اور کمال سمجھداری سے الیکشن مہم چلائی۔ اس نوجوان میں ایک اچھا سیاستداں بننے کے آثار نظر آتے ہیں۔

نئے منتخب وزیراعظم شہباز شریف، ہاؤس آف شریف اور اس کے اتحادیوں پر سخت اور کڑا امتحان سامنے ہے۔ معیشت کی ابتری اور مہنگائی سے پسے عوام کو ریلیف دینا ہو گا جو آسان نہیں۔ ڈالر کی صورتحال۔ آئی ایم ایف سے ڈیل۔ قرضوں بکی ادائیگی۔ نجکاری اور بجلی و گیس کے بحران سے اگر نکل آئے اور کچھ بہتری لے آئے تو ٹھیک ورنہ ایک بار پھر وہی ادھوری کہانی دہرائی جائے گی جس کے بنیفشری صرف زرداری صاحب اور ان کی پارٹی ہی ہوگی۔

رہ گئی پبلک تو اس کے مقدر میں زندہ باد مردہ باد کے نعروں سے زیادہ کچھ نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *