تحریر۔باسط حلیم
کل مورخہ 17 مارچ 2023 رات آٹھ بجے ایک دوست اپنے والد کو دل کے درد کی وجہ سے چونیاں (ضلع قصور) کارڈیک سنٹر لائے۔ چونیاں لاہور سے سو کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور دو والو بند تھے۔ فرسٹ ایڈ کے بعد انہیں ساڑھے آٹھ بجے چونیاں سے لاہور پنجاب کارڈیالوجی کے لیے روانہ کیا گیا۔ دس بجے وہ لاہور پہنچے۔ ای سی جی کے بعد اینجیوگرافی کا فیصلہ ہوا۔ اینجیوگرافی کے دوران ہی انہیں رات بارہ بجے تک سٹنٹ ڈال دیے گئے۔ پنجاب کارڈیالوجی ایمرجنسی میں پہنچنے سے سٹنٹ ڈالنے تک کا سارا معاملہ تین گھنٹہ پر محیط تھا۔
میں بیسیوں ایسے مریضوں کو جانتا ہوں جو علاج کے لیے پنجاب کارڈیالوجی گئے، بغیر کسی ریفرنس کے ان کا بہترین اور مفت علاج ہوا۔ ایسے مریضوں کو بھی جانتا ہوں جو روٹین چیک اپ میں گئے مگر ان کی حالت بہت خراب ہونے کی وجہ سے اوپن ہارٹ سرجری کے لیے داخل کر لیا گیا اور فوری آپریشن کر دیا گیا۔
ہیلتھ کارڈ کے وجود سے پہلے بھی پنجاب کارڈیالوجی موثر کردار ادا کر رہا تھا۔ جس کا جو پروسیجر ڈاکٹرز کے مطابق بنتا ہے وہ کیا جاتا ہے لیکن ہیلتھ کارڈ کے زمانہ میں پنجاب کارڈیالوجی لاہور نے اپنی موثریت کھودی۔ دوائیوں کا فقدان اپنی جگہ، مائنر پروسیجرز کے لیے پرائیویٹ ہسپتالز کو ریفر کیا جانے لگا۔ میرے جاننے والے ایک مریض جنہیں بائی پاس کی ضرورت ہے کو پنجاب کارڈیالوجی کے ڈاکٹرز نے حمید لطیف ریفر کیا اور کہا کہ وہاں سے ہیلتھ کارڈ پر آپریشن کروائیں۔
ہیلتھ کارڈ سے اس فرد کو بظاہر سہولت ملی جسے سرجری کی ضرورت تھی لیکن مجموعی طور پر اس کا نقصان ہوا۔ درج ذیل نتائج سامنے آئے۔
سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن کی شرح کم ہو گئی۔
سرکاری ہسپتالوں کے ماہرین اور عملہ اپنے اور اپنے متعلقہ پرائیویٹ ہسپتالوں کی طرف مریض بھیجتے رہے۔
پرائیویٹ ہسپتالوں میں ضرورت کے بغیر آپریشن کیے گئے۔
ولادت کے کیسز میں سی سیکشن کی شرح مزید بڑھ گئی۔
مریضوں کے کارڈز سے آپریشن کی مد سے بھاری رقوم نکالی گئیں۔
ہیلتھ اکاؤنٹ پیمنٹس سے متعلقہ تمام افراد کو بدعنوانی کا موقعہ ملا۔
اس سب کے مقابلہ میں انفراسٹرکچر اور ادویات کی فراہمی پر توجہ بالکل نہیں دی گئی جس کے نتیجہ میں ہسپتالوں کے حالات دگرگوں ہوئے ہیں۔
ہیلتھ کارڈ کے فوائد مخصوص افراد کو ہوئے، مجموعی طور پر ہیلتھ کارڈ بدعنوانی کی ایک سیڑھی بنی۔ وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کے حوالہ سے بھی ہیلتھ کارڈ پالیسی موثر نہ تھی۔ ہیلتھ کارڈ کی بجائے ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر بہتر کیا جاتا، مزید ڈاکٹرز اور عملہ بھرتی کیا جاتا، ادویات کی فراہمی ملک کے طول و عرض میں ہوتی اور پہلے سے موجود نظام میں ہی احتساب میں بہتری لاکر مزید موثر بناتے تو صحت کے مسائل میں کمی آتی اور لوگ یکساں طور پر صحت کی سہولیات سے استفادہ کرتے۔