تحریر۔وارث رضا
پچھلے دنوں ”عورت حقوق“ کے حوالے سے حیدرآباد سندھ کے ایک خود ساختہ پبلشر نے ایک پوسٹر ”مزاحمت اور امید“ کے نام سے چھاپا، عورت حقوق کے اس نسل پرست پوسٹر پر جب میری توجہ طلبہ حقوق اور عورت حقوق میں سرگرم نوجوان رہنما کامریڈ لیلی رضا نے دلوائی تو میں اس پوسٹر کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اس پوسٹر میں متعلقہ ادارے نے پوری کوشش کی کہ وہ سندھ عورت کے حقوق کی مزاحمتی تحریک کے مثبت کردار کو منفی رنگ دے اور مزاحمتی تحریک میں ”نسل پرستی“ کے جرثومے داخل کر کے ”عورت حقوق“ کی مانگ کو کمزور کرے یا تحریک میں نسل پرستی کا اشارہ دے کر وہ خطرناک اور منفی کام شروع ہو جائے، جو ”سندھ“ یا ملکی عورت حقوق کی تحریک کو مزید تقسیم کرنے کی جانب یہ پوسٹر مزید ایک مہلک قدم ثابت ہو سکے۔
اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ مذکورہ پوسٹر میں جدوجہد کرنے والی خواتین نہ صرف لائق احترام بلکہ عورت حقوق کی حقیقی ترجمان ہیں۔ مگر ان خواتین کو ملکی دیگر خواتین جدوجہد میں متحرک خواتین سے الگ کر کے پیش کرنا کسی طور لائق تحسین بات نہیں، اس مرحلے پر سندھ کے تمام روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں کو ”روشنی پبلیکیشن“ کے اس تنگ نظری پر محیط پوسٹر کی نہ صرف مذمت کرنی چاہیے بلکہ اس پوسٹر میں دی گئی خواتین رہنماؤں کو اس عمل سے خود کو دور کرنے کے عمل کا مثبت راستہ اپنانے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ پوسٹر سندھ میں متحرک خواتین قوت کی طاقت کو مضبوط کرنے کے بجائے ملکی خواتین سے دور کر کے انہیں نہ صرف تقسیم کر رہا ہے بلکہ سندھ کی رسم و روایت میں جکڑی عورت کی مزاحمتی تحریک کو کمزور کر رہا ہے۔
ہمارے ملک کی یہ سیاسی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں ”طاقت کے خداؤں“ اور عوامی حقوق کے غاصبوں نے باشعور سیاسی نسل پنپنے ہی نہ دی اور ان جمہوریت دشمنوں نے اپنے گروہی مفادات کے خاطر ایک ایسا لولا لنگڑا اور تنگ نظر سماج بنایا جس کو وڈیرے اور جاگیردار کے مفادات کے لئے رسم و روایت میں قید کر دیا اور عورت سمیت عام انسان کو ”دولت کی طاقت“ کا غلام بنا دیا، جس سے پورا سماج دوہرے عمل کا شکار ہو کر آج صرف منتشر اور بے ترتیب نظر آتا ہے۔
طاقت پر مبنی ملکی حکمران ٹولے نے سب سے پہلے عوام کو اپنی نرسری سے جنم لینے والی غیر سیاسی جماعتوں کا غیر سیاسی غلام بنایا اور پھر زندگی کے مختلف شعبوں میں ”این جی اوز“ کے دھوکہ دہی کرنے والے اداروں کے ذریعے عوام کو حقوق لینے کی طرف گامزن کیا، طاقت ور اور ملک کا مکمل مالک سمجھنے والے حکمرانوں نے پہلے ”عورت حقوق اور تعلیم“ کی مد میں جاگیردارانہ تنگ نظر ”رسم و روایت“ کی آڑ میں سماج کی عورت کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی، جس میں مذہب کا تنگ نظر تڑکا لگایا، مگر ترقی پسند خیالات کے عام ہونے سے جب سماج کی عورت تعلیم یافتہ ہونے لگی تو اسی عورت کو میلے ٹھیلے کے نام پر ”عورت حقوق اور یوم“ کی آڑ میں این جی او ٹک بنا کر ”عورت حقوق“ کو نہ صرف نظریاتی جدوجہد سے الگ کیا بلکہ عورت کی یکجہتی کو ٹکڑوں اور نسل پرستی میں تقسیم کرنے کی گھناونی حرکت کی جس کا شاخسانہ آج روشنی پبلیکیشن حیدرآباد کا ”مزاحمت اور امید“ کا دھوکہ دہی کا مذکورہ اشتہار ہے جو عورت کو اس کی مشترکہ سوچ اور جدوجہد سے روکنے کا ایک اشارہ ہے جس کا سب کو اور خاص طور پر ترقی پسند فکر کے دوستوں مل کر مقابلہ کر کے ”عورت حقوق“ کی جدوجہد میں اس نسل پرستانہ سوچ کو روکنا ہو گا۔
عورت حقوق کے حوالے سے مذکورہ ”مزاحمت اور امید“ کے نام سے دھوکہ دہی آج کل سیاست کے خار زار میں ”تحریک انصاف“ بھی کر رہی ہے اور عوام کو منتشر کر کے ”مزاحمت“ کے نام پر تحریک چلانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ تحریک انصاف کی مزاحمتی تحریک کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت بننے کی کوشش کر رہے ہے یا محض ”طاقتور اشرافیہ“ سے دوبارہ اقتدار میں لانے کی جستجو کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ 2013 کے دھرنے سے لے کر مینار پاکستان کے جلسے ”اشرافیہ“ کی مدد و تعاون کے ٹھوس ثبوت سے حالیہ سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے جس میں عمران خان کو سپریم کورٹ کے ایک جسٹس کی پیشکش کہ ”پانامہ کیس“ لے کر آؤ، کورٹ تمہیں ریلیف دے گی وغیرہ یا عمران خان کے دور اقتدار میں مسلسل ”ایک پیج“ کا ڈنکا پیٹنا اور عمران خان کی زبانی عسکری سربراہوں کی تعریف و توصیف کے علاوہ ”ایجنسیوں“ کے کردار کو اپنی آنکھیں اور کان قرار دینا ملکی سیاسی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس کے ذریعے جمہوریت کی تاریخ میں ”فاشسٹ“ سوچ کا ”ہائبرڈ نظام“ مسلط کرنے کی مکمل کوشش جاری رکھی، جس کے اثرات آج کے سیاسی ماحول میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ سنجیدہ سیاسی تجزیہ کار تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی کا واقعہ دراصل عمران خان کی جماعت نے اس وجہ سے کیا کہ اس کی آڑ میں ملک پر ”ہائبرڈ پلس نظام“ کی راہ ہموار ہو، اور اس کے اشارے موجودہ انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی حکومت میں نظر بھی آرہے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں عمران خان یا تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف ”مزاحمتی تحریک“ چلانے کا عندیہ سوائے ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے اور اشرافیہ کو زیادہ فرمانبردار ہونے کا یقین دلانے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ عمران حکومت کے ساڑھے تین برس اقتدار میں متفقہ آئینی اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جبکہ موجودہ ”کمزور معاشی“ صورتحال میں منتخب حکومت سے آئین کی اٹھارہویں ترمیم ختم کروانے یا اس میں رد و بدل کے لئے آئی ایم ایف کے ذریعے صوبوں کے اختیارات کم کروانے کی کوششیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
اس پورے گنجلک سیاسی ماحول میں تحریک انصاف کی جانب سے ”مزاحمت کی تحریک“ کا عندیہ دراصل ”اشرافیہ“ کی طاقت کو مضبوط کرنے اور اشرافیہ کی ہدایات پر خود کو پیش کرنے کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا جبکہ ملک میں کمزور سیاسی اور معاشی نظام میں تحریک انصاف کی مذکورہ دھمکی انتشار اور افراتفری کے ذریعے آمرانہ نظام کی مضبوطی کے علاوہ شاید کچھ نہیں چاہتی کیونکہ مزاحمت کی آڑ میں انتشار ہی تحریک انصاف کی ”فاشسٹ سوچ“ کو تسکین فراہم کرنے کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔
مزاحمتی تحاریک کے سلسلے میں تاریخ کے محقق اور استاد ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ جہاں آمرانہ حکومتیں قائم ہوئیں وہاں ایک مرتبہ پھر مزاحمتی تحریکوں کا آغاز ہوا جنہیں آزاد ملکوں کے اہل اقتدار نے سختی سے کچلا۔ مگر اس کے باوجود یہ تحریکیں بار بار ابھرتی ہیں اور عوام کی آزادی اور حقوق کی آواز بلند کرتی ہیں۔ ہمارے سامنے برما کی مثال ہے کہ یہاں فوجی حکومت جمہوری اور آزادی کے جذبہ کو ختم نہیں کر سکی۔ ایک ملک کی مزاحمتی تحریک، دوسرے ملکوں کے لوگوں میں نہ صرف دستور کی آگہی پیدا کرتی ہے بلکہ ان میں جذبہ و جوش پیدا کرتی ہیں کہ وہ اپنے ملکوں میں آزادی کی جدوجہد کو شروع کریں۔
آج کے دور میں یہ تحریکیں چاہے لاطینی امریکہ میں ہوں یا ایشیا و افریقہ میں، یہ کچلے ہوئے اور پسے ہوئے عوام میں ایک نئی توانائی اور طاقت دیتی ہیں۔ ماضی کی مزاحمتی تحریکیں تاریخ میں زندہ رہتی ہیں اور آنے والے نسلوں کے لیے ماڈل بن جاتی ہیں۔ وہ انہیں تاریخ کے صفحات سے نکال کر حال میں لے آتی ہیں اور ان کی روشنی میں جدوجہد کو آگے بڑھاتی ہیں۔ وہ راہنما کے جنہوں نے تحریکوں کے لیے جانیں دی ایک بار پھر بطور ہیرو سامنے آتے ہیں۔
اسپارٹیکس کہ جس نے سلطنت روم کے خلاف غلاموں کے باغیوں کی رہنمائی کی وہ انیس سو ساٹھ اور انیس سو ستر کی دہائیوں میں یورپ کی مزاحمتی تحریکوں کا ہیرو بن گیا اور ان کے نام سے قائم تنظیم نے سماج میں انقلابی خیالات کا پرچار کیا۔ چے گویرا، پوری دنیا میں انقلاب کی علامت کے طور پر ابھرا، آج بھی چے گویرا کا نام لوگوں میں جذبہ و جوش اور انقلاب کی لگن پیدا کرتا ہے۔ بھگت سنگھ ایک دہشت گرد کی بجائے کولونیل تاریخ سے باہر آیا اور برصغیر کے لوگوں کے لیے باعث فخر ہو گیا۔
یہ راہنما اپنی تحریکوں کو، اپنے دور اور وقت میں تو کامیاب نہیں کرسکے، مگر آج وہ دنیا بھر میں ہزار ہا لوگوں کے لیے انقلاب اور تبدیلی کی علامت ہیں۔ مزاحمتی تحریکوں کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو مایوس نہیں ہونے دیتی بلکہ ان میں امید اور تبدیلی کی خواہش کو زندہ رکھتی ہے اور انہیں تبدیلی لانے کے لیے اتحاد و یکجہتی کا درس دیتی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کے مزاحمتی نکتہ نظر کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ”عوام کی یکسوئی“ یا اتحاد کے بغیر کوئی بھی مزاحمتی تحریک کامیاب ہو کر اپنے مطلوبہ مقاصد یا عوام کی ”امید“ کا ہدف حاصل کر سکتی ہے؟ یا کہ کہیں اس کی مزاحمت سے انتشار اور عوام کی تقسیم در تقسیم کے امکانات بڑھنے کی جانب تو نہیں جا رہے ہیں؟ اگر کسی بھی آمرانہ نظام کے خلاف مزاحمت کی طرف لے جانے کی کوئی سبیل دنیا کے نقشے میں نظر آئی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی جماعت یا گروہ کی یک سوئی کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے جس کے لئے ”نظریات کی پختگی“ اہم عنصر گردانا گیا ہے۔ اب یہ ہمارے سیاسی تجزیہ کار طے کریں کہ کیا واقعی تحریک انصاف ملک میں مزاحمت کے نتیجے میں ایک مکمل آئینی و جمہوری نظام لانا چاہتی ہے یا تحریک انصاف کی مذکورہ ”مزاحمت“ عوام میں انتشار پیدا کر کے اسے ایک بار پھر یو ٹرن اور دھوکہ دہی کی سیاست می دھکیلنے کی جانب جا رہی ہے؟