بے نظیر نشوونما پروگرام اور خواتین میں دوبارہ زچگیوں کا رجحان

تحریر۔کوی شنکر

ضلع مٹیاری کے گاؤں اللہ بخش بلال کی رہائشی 35 سالہ مریم بی بی چھٹے بچے کی ماں بننے والی ہیں۔ یہ گاؤں کی اسی خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے تحت وقفہ کر رکھا تھا۔ گاؤں اللہ بخش بلال اور آس پاس کی آبادی بارہ سو نفوذ پر مشتمل ہے، لوگوں کا گزر معاش زراعت سے وابستہ ہے مگر نہری پانی کی قلت، کھاد اور بیج مہنگے ہونے کے باعث اکثریت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
مریم بی بی کے مطابق ان کی شادی پندرہ بیس برس پہلے اپنے چچا زاد سے ہوئی۔ شوہر مٹیاری میں مزدوری کرتا ہے جبکہ وہ خود کھیت مزدور ہے۔ وہ تین سال تک خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرتی رہیں تھیں۔ جس سے اس کی صحت کافی بہتر ہو گئی تھی۔ مگر اب نہیں کرتیں۔ دوبارہ بچے کی خواہش کے بارے میں پوچھنے پر مریم بی بی کا کہنا تھا کہ انہیں بچوں کی ضرورت نہیں تھی، مگر حکومت کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے، اس لئے خاندانی منصوبہ بندی چھوڑ دی ہے۔
مریم بی بی کے مطابق حمل کے دوران رجسٹریشن ہوتی ہے اور پھر بچے کی پیدائش سے دو سال تک رقم ملتی ہے، لڑکی کے لئے ڈھائی ہزار اور لڑکے کے لئے دو ہزار روپے دیتے ہیں۔
37 سالہ حسنہ دو بچوں کی ماں ہے، اب وہ تیسرے بچے کو جنم دیں گی، ان کا بھی کہنا تھا کہ وقفہ ختم کر دیا ہے اور اب وہ ماں بننے والی ہیں، بچے کی پیدائش تک کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ پیسے بھی ملیں گے، غربت بہت ہے، یوں تو گھر کے اخراجات بہت کم ہیں مگر ہم اچھا کھانا کھا نہیں سکتے، رہی سہی کسر اس مہنگائی نے پوری کر دی ہے، مجبوری ہے کیا کریں۔
گاؤں مصری بلال کی رہائشی 40 سالہ آمنت کا کہنا تھا کہ ان کا شوہر ترکھان ہے کام بہت کم ملتا ہے، گاؤں میں کوئی اور وسیلہ نہیں کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں۔ وہ خود کام کرتی تھی، مگر اب (حاملہ ہیں) نہیں کر سکتی۔ 6 بچے ہیں سب سے چھوٹا بیٹا 12 سال کا ہے، حکومت کی طرف سے ہمیں کھانے پینے کی چیزیں اور وظیفہ ملتا ہے۔

مٹیاری سول اسپتال کی ڈاکٹر سمبل کہتی ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی پر کام کے دوران انہیں کافی دشواری پیش آ رہی ہے، پہلے خواتین سنتی تھیں اور وقفے پر عمل کرتی تھیں مگر جب سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ”بے نظیر نشو و نما“ پروگرام شروع ہوا ہے، خواتین نے وقفہ ختم کر دیا اور دوبارہ حاملہ ہونا شروع ہو گئیں۔ ڈاکٹر سمبل کے مطابق ”بے نظیر نشو و نما“ پروگرام پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا مگر اس سے خاندانی منصوبہ بندی پر برا اثر پڑا ہے اور وہ خواتین جو پہلے ہی 4، 5 یا 6 بچوں کو جنم دے چکی ہیں وہ دوبارہ بچے جنم دے رہی ہیں، جس سے ان کی صحت کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کام کرنے والے جمال الدین کہتے ہیں کہ یہ ”بے نظیر نشو و نما“ ایک پائلیٹ پراجیکٹ ہے، جس کے بارے میں بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کی ویب سائٹ پر معلومات درج ہے۔ یہ پراجیکٹ سندھ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹو ( پی پی ایچ آئی) کے ساتھ مل کر چلا رہی ہے۔
” بے نظیر نشو و نما“ کے تحت حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین کو بچے کے عمر دو سال ہونے تک معاوضہ دیا جاتا ہے۔ جمال الدین کے مطابق یہ ابتدائی طور پر ملک کے چودہ اضلاع میں چل رہا ہے، جو کامیابی کے بعد پورے ملک میں شروع کیا جائے گا۔

حیدرآباد سول اسپتال کی سینئر ڈاکٹر امبرین منیر کہتی ہیں کہ ”بے نظیر نشو و نما“ ایک اچھا پروگرام ہے، جس کا فائدہ غریب خواتین کو ہو رہا ہے۔ خاص طور پر حاملہ خواتین اور نومولودوں کو۔ مگر اس فائدے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، جو اچھا نہیں، وہ یہ کہ اب خاندانی منصوبہ بندی کے لئے خواتین بہت کم تعداد میں آتی ہیں۔

پی پی آئی ایچ سندھ کے سی ای او ریاض راہوجو کہتے ہیں کہ ”بے نظیر نشو و نما“ کا مقصد ماں اور نومولود کی غذائی قلت کو پورا کرنے کے ساتھ بچے کی دو سال تک نشو و نما کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ سندھ میں غربت بہت ہے، دیہات میں رہنے والی ماؤں اور نونہالوں کو متوازن غذا دستیاب نہیں، ان کے لئے یہ پروجیکٹ ایک نعمت سے کم نہیں۔ ریاض راہوجو نے اعتراف کیا کہ کچھ لوگ اس پروگرام کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے، خاص طور پر وہ خواتین جو پہلے ہی کئی بار ماں بن چکی ہیں وہ صرف پیسے حاصل کرنے کے لئے پھر سے مائیں بن رہی ہیں، انہیں یہ نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اسے روک نہیں سکتے، اور دوسری بات کہ یہ ایک پائلٹ پروجیکٹ ہے۔ اس کے مستقبل کے بارے میں سندھ حکومت فیصلہ کرے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *