وطن عزیز طرح طرح کے قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ زمین میں چھپی معدنیات، اس کے اوپر اگنے والی فصلوں اور نباتات کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھتی بشریات اہم خزانہ ہیں۔ ہماری کثیر آبادی طرح طرح کے انوکھے کرداروں پر مشتمل ہے جو پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ خود کفالت کی اس دوڑ میں ہر طبقہ شامل ہے۔ استاد، حکیم، طیب، مستری اور کاریگر حضرات تو مسلسل دیگر ممالک کو برآمد بھی کیے جاتے اور زر مبادلہ لانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اس کے برعکس شائقین عمرہ اور روز بروز بڑھتی حاجیوں کی تعداد ایک ایسا زر کثیر غیر ضروری طور پر باہر لے جانے کا باعث بنتی ہے جو بڑی مشکل سے کمایا گیا ہو۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی حاجیوں کی تعداد بھی شامل ہے۔ بہت سے حضرات مقدس سفر سے واپسی پر سماجی رویوں اور کردار سازی میں حصہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اپنے زیر اثر حلقوں کو دیسی بدو بننے پر مائل و آمادہ کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ان حاجیوں کی متعدد اقسام ہیں۔
ہمارے ہاں ایسا حاجی بھی پایا جاتا ہے جس نے سفر تو درکنار کبھی گوگل ارتھ یا نقشے والی اٹلس پر بھی سعودی عرب نہیں دیکھا ہوتا ہم عادات، حرکات اور اعمال کے باعث علاقے سب اسے حاجی حاجی کہہ کر پکارتے ہیں۔ بالخصوص پست معاشی طبقے کے لئے حاجی کہلوایا جانا معاشرتی بلوغت کی علامت ہے جو اپنی آڑھت اور دھوکے بازی سے خوب نفع دارین سمیٹتا ہے۔
سچ مچ والا حاجی اگر فارغ البال ہو تو ”حاجی صاحب“ اور مالی طور پر ”خوش حال“ بھی ہو تو ”بڑے حاجی صاحب“ کا لقب پاتا ہے۔ بڑے حاجی صاحب کے منصب پر پہچنے کے اپنے تقاضے ہیں۔ ڈیلکس اور وی آئی پی پیکیج پر روانگی اور دم واپسی کاندھوں پر لادے چوخانے دار رومال کے ساتھ اظہار تقویٰ; عاجزی کی نمائش اور عبادت کی اداکاری سفری تقاضے ہیں۔ جب کہ بشری تقاضے بڑی بڑی آمدنی، علاوہ بڑا کنبہ اور بڑی کمپنی کی ملکیت کے علاوہ داڑھی کے بڑا ہونے سے مشروط ہیں۔
کم ریش حاجی صاحب کبھی بڑے حاجی صاحب کے رتبے پر ترقی نہیں پا سکتا۔ دیگر لوازمات میں خوب صورت دانوں والی تسبیح، سخت لٹھے کی ٹوپی اور دو دو جیبوں والا کرتا تو شامل ہیں مگراس مرتبے پر مولوی صاحب کی سی شعلہ بیانی کی بجائے مشغلہ سامانی درکار ہے۔ داڑھی کا رنگ البتہ عقیدے سے مشروط ہے۔ بڑے حاجی صاحب کی ریش اگر لمبی اور سفید براق ہے تو سمجھ لیجیے کہ ان کے ہاں اب شب برات پر حلوہ نہیں پکتا۔ لیکن اگر داڑھی مہندی چڑھی ہے تو جان لیجیے گا کہ یہاں حلوے مانڈے کے علاوہ موت میت پر تیجا چالیسواں گیارہویں بارہویں اور کونڈوں کے باقاعدہ اہتمام کا غالب امکاں ہے۔
البتہ خضاب جو کبھی ممنوع اور مکروہ سمجھا جاتا تھا، اس کا استعمال اب ہر دو عقائد والے بڑے حاجی صاحبان میں یکساں مقبول ہے۔ لاؤڈ اسپیکر، ٹیلیفون اور تصاویر کی طرح خضاب نے بھی اپنی حلالیت تسلیم کر والی ہے۔ تنگ نظر ہو پر حاجی تنگدست نہ ہو تو باآسانی ”بڑے حاجی صاحب“ بن جاتا ہے۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح مالی حیثیت بہرحال اہم و مقدم اور کامیاب کاروباری ہونا اشد ضروری ہے۔ ان کے اجلے لباس کی تراش خراش دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے بڑے بھائی کا کرتہ ادھار پر اور چھوٹے کی شلوار مستعار لے کر پہن لی ہو۔ طبیعت کے اخروٹ بڑے حاجی صاحب کی تجوری میں نوٹ لبالب بھرے ہوتے ہیں۔
اجلے تن کے ساتھ میلے من والا یہ کردار صوبائیت سے پاک، علاقائیت سے بلند مگر مالی عصبیت میں گندھا ہے۔ ہر شہر و دیہات بشمول کشمیر و شمالی علاقہ جات میں یہ کردار یکساں چھایا ہوا ہے۔ پنجابی چنیوٹی شیخ ہوں یا بندرگاہ والے میمن حاجی، خشک فروٹ والے کوئٹہ کے بڑے حاجی ہوں یا کے پی کے منی ایکسچینج والے ڈالر حاجی صاحب ہوں، ان سب میں ایک جیسی خصلات ملتی ہیں۔ تاہم ان کے نام ڈومیسائل اور مستقل پتے کا پتہ ضرور دیتے ہیں۔ حاجی سنگین خان شنواری، حاجی اول خان۔ حاجی دین محمد، حاجی اللہ داد، بسم اللہ خاں کاکڑ، حاجی عبدالغنی پاپڑی والے نام مختلف علاقوں کے غماز تو ہوتے ہیں مگر اپنے برتاؤ میں یکساں و یکتا ملتے ہیں۔
کامیاب کاروباری ہونے کے ساتھ بڑے حاجی صاحب کے لئے لازم ہے کہ ان کی شخصیت میں بارعب مذہبی ٹچ چھلکتا ہو۔ کامیابی کاروبار کا اندازہ گھر سے آئے ٹفن کے سائز، دیسی گھی میں پکے چھوٹے گوشت کے مینو اور عارض کی چکناہٹ اور آنکھوں کے نیچے غبغبوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ چکناہٹ کی یہ چکاچوند تیل چپڑنے سے نہیں بلکہ دیسی گھی میں تلی خوراک کھانے کے بعد دائیں ہاتھ کی چٹکی بنا کر نچلے ہونٹ اور تھوڑی کے درمیان بالوں سے مسلسل کھیلتے رہنے سے پیدا ہوتی ہے۔
بڑے حاجی صاحب کو عموماً فومی کرسی پر متمکن اور مطمئن انداز میں جھولتے دیکھا جاسکتا ہے جو بلا غرض و نفع ً گفتگو سے پرہیز فرماتے اپنی کاسہ لیس نظر پر فریم لیس چشمہ چڑھائے حساب کتاب کے بستے پر مستعد اور گلے پر چاق و چوبند ہر آنے جانے والے پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ اپنی لالچی اور خود غرض گفت گو میں سلیقہ اور نکھار پیدا کرنے کی مشق مسلسل جاری رکھتے ہیں۔ ہر جملے میں خدا کی صفات کو عربی تلفظ میں ادا کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔
اپنی ایمان داری کا یقین دلاتے ہوئے نئے ملاقاتی کو ہتھیلی کے سائز سے قدرے چھوٹا رنگین کارڈ بھی تھما دیتے ہیں جن پر خوش رنگ مقدس حکایات اور نصیحتیں چھپی ہوتی ہیں۔ مہمان وی آئی پی اور منفعت بخش ہو تو یہ کارڈ قبلے کی سمت بتانے والی جائے نماز اور خوش رنگ مقدس نسخے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ البتہ خود کو ان پند و نصائح سے مبرا سمجھتے ہیں اور ان بانٹے گئے پھولوں کی خوشبو خود کبھی نہیں سونگھتے۔ انہیں سرکاری عمل داروں سے نمٹنا خوب آتا ہے۔ متعلقہ محکموں کے راشی عمل دار بڑے حاجی صاحب کا دم بھرتے ہیں۔ نوکری پیشہ انسان خواہ چوہے کھانے سے رغبت نہ رکھتا ہو، امانت دار ہو اور جتنے مرضی حج کر لے، وہ بڑے حاجی کے منصب پر کبھی فائز نہیں ہو سکتا۔
خوش حالی، تن آسانی اور سفری سہولت کے اس دور میں حاجی ہونا ایک ٹرینڈ جب کہ بڑے حاجی صاحب بننا ایک برینڈ ہے۔ برینڈڈ بڑے حاجی صاحبان معمولات کے چست اور معاملات میں سست ہوا کرتے ہیں۔ قوت خرید بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑے حاجی صاحب کے کردار میں مزید نکھار آتا جاتا ہے۔ ملبوسات کی خریداری پوش علاقوں اور شاپنگ مالز میں قائم مخصوص برینڈز سے ہونے لگ جاتی ہے جہاں الکوحل سے پاک صاف عطر و عود بھی دستیاب ہیں۔ ان شخصی امتیازی مولانا برینڈز میں فروخت کیے جانے والے ایک عمومی ناڑے (اوہ معاف کیجئے گا ازار بند) کی قیمت ایک عام شلوار قمیص سے زیادہ ہوتی ہے۔
عین اسی طرح عید قرباں پر حاجی صاحب قیمتی رنگین رسیوں سے بندھے گاڑیوں کی قیمت والے بیل اور موٹرسائیکل جتنے قیمتی درجنوں بکرے، مینڈھے اور دنبوں کے ساتھ ایک آدھ اونٹنی اپنے گھر کے باہر تنے شامیانے میں باندھ کر شان بڑھاتے ہیں۔ بلکہ اب تو اسکردو سے یاک بھی منگوا لیا جاتا ہے۔ غلے کے ہورڈر بڑے حاجی صاحب کے 9 فٹے بیل کے آگے اسی گلی میں رہائش پذیر نوکری پیشہ ایگزیکٹو کے منمناتے ڈھائی فٹے بکرے کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو چائنہ اکانومی کے مقابلے میں پاکستانی معیشت کی۔ چند دہائیوں قبل یہ ایگزیکٹو اسی آٹھویں جماعت کا ہونہار طالب علم ہوا کرتا تھا جس کی پچھلی نشست سے ایک منحنی لڑکا غیر حاضر ہو کر آج بڑے حاجی صاحب بنا تجوری پر ناگ کی طرح فائز ہے۔
بڑے حاجی صاحب کا عقیدہ ہے کہ بزرگی حاصل ہونے کے لئے بندہ صاحب عزت ہو نہ ہو صاحب حیثیت ضرور ہونا چاہیے۔ اس حیثیت کا اظہار اور بزرگی کا شمار عمر سے نہیں بلکہ متعدد عمروں سے ہوتا ہے۔ عرصہ قبل وہ لوگوں کو عمرے اور حج پر ہونے والے خرچ اور اخراجات اور کو جمع ضرب کر کے بدلے میں عطا ہونے والے متوقع مالی فوائد بیان کرتے خدائی شماریاتی نظام سمجھایا کرتے تھے مگر اب یہ تذکرہ بند کر دیا ہے۔ اپنے پے درپے ادا کیے گئے عمروں اور حج میں طواف کے ہر ہر چکر کا شمار رکھتے اور اللہ سے اپنے تئیں خفیہ لین دین کرتے رہتے ہیں۔
ان کے سعودی چکروں کا حساب کتاب رکھنے میں فرشتے بھی چکرا گئے ہیں۔ ہر چکر پر اٹھنے والے خرچ کو فوراً 70 ستر سے ضرب دے کر واپسی پر حساب برابر کر دیتے ہیں جس کی قیمت ظاہر ہے ان کے گاہک کو ادا کرنی ہے۔ ان بیش بہا فضائل کے لیے وہ اعمال پر بھروسے اور خدا کا انتظار کرنے کی بجائے ذخیرہ اندوزی وغیرہ کر کے کام اتارتے ہیں۔ بڑے حاجی صاحب کو لگتا ہے کہ آسمانی شماریات میں دو اور دو چار نہیں بلکہ دو سو اسی ہوتے ہیں۔
کثیر اولاد اور تعدد ازدواج ہونا عین واجب ہے۔ بڑے حاجی کی بڑی بیوی (پہلی تے اصلی) کے بطن سے پہلونٹھی والا بیٹا ولی عہدی صفات کا حامل اور این ادر حاجی ان میکنگ ہوتا ہے۔ بڑے حاجی صاحب معاشرے کا اٹوٹ انگ ہیں۔ آپ سماجیات سے چپکے بلکہ بری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ خیرات و صدقہ آپ اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہے کہ وہ انکم ٹیکس چوری رقم کا ایک حصہ ہر سال رمضان میں ضرورت مندوں کے علاوہ سال بھر منتخب بیواؤں اور من پسند غریب خواتین میں تقسیم کر دیتے ہیں۔
پچاس سال کے پیٹے میں پہنچنے پر بڑے حاجی صاحب میں ایک اور توانا امنگ بیدار ہوتی ہے۔ قوت خرید میں اضافے سے ان کی مردانہ قوت کو بھی مہمیز عطا ہوتی ہے۔ چنانچہ عقد ثانی سے امت مسلمہ کی مقدار و شمار میں بڑھوتی کی ان کی جستجو پوری ہو کر رہتی ہے۔ یوں یہاں سے بھی ثواب سمیٹتے ہیں۔ ان کی اولاد کی گنتی بیگمات کی تعداد پر منحصر ہے۔ کم سنی میں خاندان کی رضیہ سے خاندان کی رضامندی سے ہوئے نکاح کے عرصے بعد بڑے حاجی صاحب جوانی میں ہوئی کسی بے روزگار بیوہ یا باروزگار نکلتی عمر کی استانی کا آسانی سے شکار کرلیتے اور اپنی منقولہ جائیداد کو بخرے دار بنا لیتے ہیں۔ ایک بڑے حاجی صاحب اپنے علاقے کے بڑے بڑے پاپیوں پر اکیلے بھاری پڑ جاتے ہیں۔