آسکر وائلڈ، رحم دل شہزادہ اور امی

تحریر۔شاہانہ جاوید

حیدر آباد میں گرمیوں کا موسم بہت سخت ہوتا ہے دن میں لو اور گرد کے ساتھ دھوپ، جبکہ حیدرآباد کی راتیں ٹھنڈی ہوتیں ہیں، وہی لو رات میں ٹھنڈی ہوا کا روپ دھار لیتی ہے، دن بھر کی گرمی کے ستائے لوگ رات میں پرسکون نیند کے مزے لیتے ہیں، اکثر لوگ زیادہ تر کام رات میں نپٹاتے ہیں۔

ہمارے بچپن کے دن حیدرآباد سندھ میں گزرے ہیں کیونکہ ڈیڈی کی سرکاری نوکری واپڈا میں تھی، ابتدائی تعلیم بھی میری حیدرآباد میں ہوئی۔

اچھی طرح یاد ہے گرمیوں کی راتوں میں صحن میں چھڑکاؤ کے بعد پلنگ بچھا کر بستر کیے جاتے، اور سب اپنے اپنے بستروں پر تارے گنتے ہوئے سو جاتے، اکثر کوئی تارا ٹوٹ کر ایک لمبی لکیر بناتا تو دادا ابا کہتے لاحول ولاقوۃ پڑھا کرو، کیونکہ شیطان آسمان پر جانا چاہتا ہے تو فرشتے گرز مار کر اسے واپس بھیجتے ہیں۔ ان دنوں رات میں سونے سے پہلے کہانی سننا ضروری ہوتا تھا کبھی دادا ابا کہانی سناتے، دادی اماں پیغمبروں کے قصے اور امی دلچسپ سبق آموز کہانیاں اور ہم کہانیاں سنتے سنتے سو جاتے۔

میری امی پڑھی لکھی تھیں، ہمیں پڑھا لیتی تھیں، نجیب الطرفین سید تھیں، نماز روزے کی پابند لیکن دین اور دنیا دونوں لے کر چل رہی تھیں۔ ڈیڈی کے ساتھ تقریبات میں بھی جاتیں، فلمیں بھی دیکھتیں اور اچھی فلموں کی کہانیاں ہم بچوں کو سناتی بھی تھیں۔ امی آسکر وائلڈ کی کہانی رحمدل شہزادہ، اکثر و پیشتر سناتی تھیں وہ کہانی میری پسندیدہ کہانی تھی، اور میں فرمائش کر کے ان سے یہ کہانی سنتی، میں رحمدل شہزادے کی شخصیت سے متاثر تھی۔

آسکر وائلڈ ایک آئرش شاعر اور ڈرامہ نگار تھا۔ ادب کی مختلف اقسام میں لکھنے کے بعد وہ 1890 کی دہائی میں لندن کا سب سے مشہور ڈرامہ نگار تھا، ادب سے تعلق اسے اپنی ماں کی طرف سے ملا جو ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ آسکر نے فیری ٹیلز بھی لکھیں اس کی تخلیقات کو متحدہ ہندوستان میں اس وقت کے ماہر مترجمین نے اردو میں ڈھالا یوں آسکر وائلڈ اردو قارئین میں مقبول ہوا، اس کی زندگی کے آخری ایام مصیبت اور مشکل میں گزرے، ایک قانونی قضیے کی وجہ سے اس کا انجام بہت برا ہوا، لیکن ہم اس کی تخلیقات سراہتے ہیں۔

اس کی ایک مشہور زمانہ کہانی ”رحمدل شہزادہ“ تھی۔ اتنی لمبی تمہید اس لیے لکھی کہ یہ کہانی ہمارے بچپن کی بہترین یاد ہے، جب میں گرمیوں کی راتوں کا ذکر کر رہی تھی تب یہ کہانی تھی جو امی بہت مزے سے سناتی تھیں اور ہم رحم دل شہزادے کی کہانی سے اتنے متاثر ہوتے کہ اکثر امی سے فرمائش کرتے اس کہانی کی اور اس جملے پر ”جب پرندے کے اوپر پانی کی بوند گرتی ہے اور وہ کہتا ہے بنا بادل کے بارش کی بوند کہاں سے آئی“ اور یہ پتہ چلتے ہی کہ شہزادے کے مجسمے کی آنکھ سے آنسو گرا ہے جو غریبوں کی تکلیف نہیں برداشت کر سکتا تھا ہم بچوں کی آنکھیں بھی بھیگ جاتیں، امی کہانی سنانے میں مگن رہتیں۔

کیسی سبق آموز کہانی کہ رحمدل شہزادہ، مجسمہ بن کر بھی رحمدل رہا اور پرندہ کی مدد سے غریبوں کی مدد کرتا رہا۔ آخر میں جب خدا فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اس شہر کی دو سب سے قیمتی چیزیں لاکر اس کے حضور پیش کریں، شہر کا کونا کونا چھاننے کے بعد جب فرشتے خدا کے حضور لوٹے، ہاتھوں میں شہر کی قیمتی ترین دو چیزیں لیے ہوئے تھے، ایک سیسے کا ٹوٹا ہوا دل، دوسرا ایک مرا ہوا ننھا پرندہ، مزے کی بات امی نے کبھی نہیں بتایا کہ یہ کہانی آسکر وائلڈ کی ہے لیکن اس زمانے میں یقیناً انھوں نے کہیں اس کا ترجمہ ضرور پڑھا ہو گا اور اس کہانی کو سبق آموز ہونے کی وجہ سے ہمیں سنایا کرتیں تھیں، ایسی تھیں اس زمانے کی خواتین اپنے بچوں کے اخلاق کہانیوں سے بھی سنوار دیتی تھیں۔

میں یہ کہانی سننے کے بعد ہمیشہ دعا کرتی تھی کہ کاش میرا دل بھی سیسے کا بنا دے تاکہ میں بھی رحم دل شہزادے کی طرح غریبوں کی مدد مرنے کے بعد بھی کر سکوں۔

مارچ کے مہینے کی مناسبت سے مجھے اپنی امی کا یہ کردار بہت پسندیدہ ہے کاش آج کی مائیں بھی اپنے بچوں کے اخلاق اس طرح سنوار سکیں چاہے اس کے لیے دنیا کے کسی بھی ادب سے مدد لینا پڑے۔ خواتین کا عالمی دن مبارک۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *