دنیا میں بیشتر جنگیں تو اقتدار اور طاقت میں اضافے کے لیے لڑی گئیں مگر تاریخ میں چند ایک جھگڑے آئین بچانے کے لیے بھی ہوئے۔ یہ جنگیں اور جھگڑے جو آئین بچانے کے لیے ہوئے یہ سب مہذب، شعور یافتہ اور تعلیم یافتہ لوگوں نے لڑے ہیں۔ انقلاب فرانس کو تاریخ میں بہت نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایسا انقلاب نہیں تھا کہ ایک دن میں سارے لوگ گھروں سے سر پر کفن باندھ کر نکل آئے اور عمارتوں پر قبضہ کر کے نظام بدل دیا۔
یہ انقلاب 1789 سے 1799 کے بیچ رونما ہوا۔ جس کے نتیجے میں وہاں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور جمہوریہ کی داغ بیل پڑی اور نپولین بونا پارٹ کو عروج حاصل ہوا۔ ان دس برسوں میں فرانس کا سیاسی اور سماجی تبدیلی کا ڈھانچہ مکمل ہوا۔ یہ انقلاب متعدد طویل مدتی اور قلیل مدتی عوامل کا نتیجہ تھا جو 1780 کی دہائی کے آخر میں ایک سماجی، اقتصادی، مالی اور سیاسی بحران پر منتج ہوا۔ فرانس میں آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اور وسائل پر چند مخصوص افراد اور طبقات کا عمل دخل مسلسل بڑھ رہا تھا، جس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات نے مزید سماجی تنازعات کو جنم دیا۔
یہ سب معاشی کساد بازاری کی وجہ بنا اور اس سے بے روزگاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بلند ہوئیں۔ ٹیکس بل واسطہ اور بلا واسطہ صرف غریبوں سے وصول کیا جاتا تھا اور دولت جمع کرنے والے ٹیکس دینے کے روادار نہیں تھے۔ فرانس کے اس دور کے بادشاہ لوئیس XVI قرض پر قرض لیے جا رہے تھے اور ملک کی ہر چیز گروی رکھے جا رہے تھے۔ ان کی بیگم میری اینٹونیٹ اور امراء عیاشی کے ریکارڈ قائم کر رہے تھے۔
سواری سے لے کر محلات اور زیورات سے لے کر تقریبات پر پیسہ پانی کی طرح بھایا جا رہا تھا۔ بادشاہ کو فرانس کی کوئی فکر نہیں تھی وہ امریکہ کو انگلستان کی تسلط سے آزاد کرانے میں لگا ہوا تھا۔ بادشاہ کے اردگرد مفاد پرستوں اور مذہبی موقع پرستوں کا ٹولہ ہی رہتا تھا۔ بادشاہ کے فوجی افسران کرپشن میں ایک دوسرے کو مات دے رہے تھے اور اپنی اپنی بیگمات کی خواہش پر ان کے لیے دوردراز علاقوں میں جائیدادیں خرید رہے تھے، محلات کھڑے کر رہے تھے۔
اس وقت کے فرانس میں بیگمات میں یہ مقابلہ رہتا تھا کہ کس کے پاس جواہرات زیادہ ہیں، کس کا گھر بڑا ہے، کون بڑی دعوت کر سکتا ہے۔ ان سب عیاشیوں کے لیے پیسہ عوام سے وصول کیا جاتا تھا اور جب عوام کے پاس دینے کو کچھ نہیں بچا تو دیگر ممالک اور تاجروں سے قرضے لے لے کر ان عیاشیوں کو جاری رکھا گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب انتہائی مجبوری میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مذہبی ٹھیکیداروں سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ امیر بھی ٹیکس دیں گے تو حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔
مذہبی گروہوں نے تو اسے مذہب کے خلاف قرار دے دیا۔ اور جاگیر دار اور سرمایہ داروں نے اسے اپنی توہین کے مترادف قرار دیا۔ یہ بات ان کی بیگمات کو بھی بہت ناگوار گزری تھی۔ ایسے میں لوئس XVI اصلاحات پر غور کرنے کے لیے تیار ہو گیا تھا، لیکن اس کے حواری جن کی دم پر پاؤں آ رہا تھا وہ تیار نہیں ہوئے اور یہ قدامت پسند عناصر مخالفت پر ڈٹ گئے اور بادشاہ کو بھی ان کی ماننی پڑی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ معاشی طور پر فرانس کا دیوالیہ نکل گیا تھا، مگر اس وقت کے سرکاری کارندوں کی مراعات میں کئی سو گنا اضافہ کر دیا گیا تھا، ہر محافظ کو جاگیریں اور جائیدادیں بانٹی جا رہی تھیں، ان کے خاندانوں کو بھی مراعات دی جا رہی تھیں، تعلیم یافتہ فرانسیسی اشرافیہ، سماجی اداروں کی روشن خیال لوگوں نے ان حالات و دیکھ کر تنقیدی بحثوں کا آغاز بڑے پیمانے پر شروع کر دیا۔
امریکی انقلاب اور 1780 کی دہائی کے یورپی بغاوتوں نے حب الوطنی، آزادی، مساوات اور قوانین بنانے میں لوگوں کی شرکت جیسے مسائل پر عوامی بحث کا آغاز ویسے ہی کر دیا تھا۔ ان مباحثوں نے ریاست کو درپیش بحران کے بارے میں تعلیم یافتہ عوام کے ردعمل کو تشکیل دینے میں مدد دی۔ ڈائمنڈ نیکلیس افیئر جیسے عوامی سکینڈلز کی ایک سیریز نے بھی عدالت، شرافت اور چرچ کے حکام پر عوام کے غصے کو ہوا دی۔ یوں فرانس تین طبقوں میں تقسیم ہو گیا۔
یعنی مذہبی طبقہ، اشرافیہ اور عوام۔ مذہبی طبقہ اپنے لیے سب کچھ جائز سمجھتا تھا اور اپنے خلاف بولنے والوں کو گردن زدنی سمجھتا تھا۔ اشرافیہ تمام عیاشیوں اور مراعات کا خود کو حقدار سمجھتا تھا اور ملکی خزانہ میں اپنے حصہ کا ٹیکس جمع کرنے کا مخالف تھا۔ لیکن فرانس کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اس کے عوام میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان میں فلسفے اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بہت زیادہ تھے۔
ان ادیبوں اور فلاسفروں نے اپنی قوم کو مزاحمت کا ایک ایسا بیانیہ دیا تھا کہ مذہبی اور اشرافیہ باوجود ہزار کوششوں کے اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب فرانس کی اشرافیہ دوسرے ممالک میں جاگیریں خریدنے اور سرمایہ کاری میں مصروف تھے۔ فرانس کی حفاظت پر مامور اس کے محلوں کی اینٹیں بھی چرا کر کسی کو بیچنے سے گریز نہیں کر رہے تھے۔ اس کے مذہبی لوگ کوئی کام کیے بغیر دولت کے انبار جمع کر رہے تھے۔
یہ مذہبی لوگ جب چاہتے تھے مذہب کارڈ کا استعمال کر کے کسی کا بھی کسی بھی وقت استحصال کرنے میں آزاد تھے، فرانس کا قانون ان کے سامنے بے بس تھا، یہ بادشاہ کے ہر غلط کام اور اس کی بیگم کی تمام خرابیوں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ اشرافیہ کو کھلی اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے جس شے کی جو بھی قیمت وصول کر سکتے ہیں وہ کر لیں۔ جس سے ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ اس دورانیے میں سیاسی کھیل بھی جاری رہا، قانون سازی بھی ہوتی رہی، نئے سیاسی گروہ اور حامی اور مخالف بھی پیدا ہوتے رہے۔
مگر اشرافیہ اور مذہبی طبقہ ان سب کا استعمال اپنے حق میں ہی کرتے رہے، یوں انقلاب کے لیے راستہ ہموار ہوتا گیا اور پھر وہ دن آیا کہ لوگ بادشاہت، مذہبی غلبہ پسند اور اشرافیہ کے تسلط سے آزاد ہو گئے۔ یہ آزادی ملی تو انہوں نے اپنا کیلنڈر بھی بدل دیا، 1789 سے 1799 تک کے عرصے کے دوران، فرانس کو سیاسی انقلاب نے ہلا کر رکھ دیا تھا، بادشاہ کو ہٹا کر ایک جمہوریہ قائم کی گئی۔ اس اتھل پتھل نے نہ صرف فرانس کے طرز حکمرانی کو متاثر کیا بلکہ اس نے لوگوں کی روزمرہ زندگی کو بھی بدل دیا۔
22 ستمبر 1792 کو بادشاہ کی حکمرانی کی جگہ جمہوریہ نے لے لی۔ یہاں ملک کی حکومت مشترکہ تھی اور اشرافیہ اور عیسائی مذہب کی مراعات ختم کر دی گئیں۔ اب قانون کے سامنے تمام لوگ برابر تھے۔ فرانسیسیوں نے پرانے کیلنڈر کو ختم کر کے نیا بنانے کا فیصلہ 6 اکتوبر 1793 کو کیا گیا اس کا نام ریپبلیکن کیلنڈر رکھا گیا۔ اور جس دن جمہوریہ کا اعلان کیا گیا وہ سال کا پہلا دن بن گیا، یعنی 22 ستمبر، 1792، نہ کہ یکم جنوری!
نہ صرف دنوں، ہفتوں اور مہینوں کے نام بدلے گئے بلکہ ان کا اعشاریہ بھی رکھا گیا۔ دنوں کو بیس گھنٹوں میں تقسیم کیا گیا، ہفتوں کو دس دن لمبا کیا گیا اور اسے ’دہائیاں‘ کہا گیا، اور تین، دس دن کے ہفتوں سے ایک مہینہ بنتا تھا۔ دنوں کا نام تبدیل کر دیا گیا پر یمیڈی، ڈوڈی، ٹریڈی، کو ارٹیڈی، کو ئنٹڈی، سیکسٹیڈی، سیپٹڈی، اوکٹیڈی، نونیڈی اور ڈیکاڈی (ایک دن، دو دن، تین دن وغیرہ) ۔ مہینوں کے ناموں کے لیے، شاعر، Fabre d ’Eglantine نے موسموں اور ان سے وابستہ قدرتی تبدیلیوں سے تحریک لی۔
ریپبلکن کیلنڈر کا آغاز Vendémiaire کے مہینے سے ہوا، انگور کی کٹائی کا مہینہ، جو 22 ستمبر سے 21 اکتوبر تک کے عرصے کے برابر تھا۔ اس کے بعد برومائر دھند کا مہینہ، فریمیر سردی کا مہینہ، Nivôse برف کا مہینہPluviôse بارش کا مہینہVentôse کہر کا مہینہ، Germinal خزاں کا مہینہ، Floréal پھولوں کا مہینہ، Prairial سبز گھاس کا مہینہ اور آخر میں Messidor فصل کا مہینہThermidor گرم مہینہ اور Fructidor پھلوں کا مہینہ۔
سال کے ہر دن کو ایک نام دیا گیا جو پھول، درخت، پودے، جانور یا زرعی آلے کے نام سے مطابقت رکھتا تھا۔ اس طرح سال کے پہلے دن، 1 Vendémiaire، کو ایک پھل کا نام دیا گیا یعنی انگور، یہ فرانسیسی لوگوں کے لیے ایک حقیقی سر درد تھا جو اس کے عادی نہیں تھے۔ نپولین اول نے 9 ستمبر 1805 کو ایک شاہی فرمان کے ساتھ ریپبلکن کیلنڈر کو ختم کر دیا اور گریگورین کیلنڈر 1 جنوری 1806 کو دوبارہ شروع ہوا۔ ریپبلکن کیلنڈر تیرہ سال تک رائج رہا۔
یہ سب فرانس کے لوگوں نے اپنے طویل تر جدوجہد کے نتیجے میں کیا تھا اور فرانسیسی آئین میں درج کر کے کیا تھا۔ پاکستان کا آئین جو 1973 سے اس ملک میں رائج ہے اس میں درج ہے کہ نگران حکومت نوے دن کے لیے آئے گی، ساٹھ سے نوے دنوں میں الیکشن ہوں گے۔ نگران صرف انتخابات کرانے آئیں گے۔ پاکستان میں فرانس جتنے پڑھے لکھے ہوتے اور حکومت اچھے مشیر رکھتی تو وہ بھی اس عرصے میں کیلنڈر بدل سکتے تھے۔ مہینے تیس دن سے ساٹھ پر لے جا سکتے تھے، دن اڑتالیس گھنٹوں کا کر سکتے تھے۔
اور عدالتیں تو پریسیڈنٹ مانگتی ہیں۔ ہمارے قابل وکلاء باآسانی فرانس کے ریپبلیکن کیلنڈر کا حوالہ دے سکتے تھے۔ ایسے میں آئین کا بھرم بھی رہ جاتا۔ اور قانونی تقاضے بھی پورے ہو جاتے۔ لیکن ہمارے بوروژوا نے آئین کو ریپبلیکن کیلنڈر تو بنا دیا مگر یہ کیلنڈر چھپا نہیں اور زندگی کے دیگر معمولات اور کام اس کے مطابق نہیں ہوئے۔ اس لیے ہم اس کا کریڈیٹ لینے سے محروم رہ گئے۔ ہمارے نگران وزیر اعظم جو تاریخ کا درس یونیورسٹی کے بچوں کو دینے جاتے تھے، اب کے بار اگر کسی یونیورسٹی کے طالب علم کے ہتھے چڑھے تو ان سے پاکستانی ریپبلیکن کیلنڈر کے بارے میں ضرور پوچھیں گے۔
جس کے تحت وہ نوے روزہ اختیار کو چھ ماہ سے زیادہ چلاتے رہے۔ انتخابات کو نوے روز میں کرانے کی جگہ چھ ماہ سے زیادہ ٹالتے رہے۔ یہ تو شروعات ہیں آئین میں نقب پڑ جائے تو پھر اس میں نظریہ ضرورت کا راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔ اور اس راستے سے وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جس کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ لوگ جو آئین کی حفاظت، پاسداری اور حفاظت پر مامور ہیں وہی اس کا حلیہ بگاڑتے ہیں اور پھر تاریخ ان کو نہیں بھولتی جیسے تاریخ نے انقلاب فرانس سے پہلے کے لوگوں کو یاد رکھا اور ہم اب ان کی مثالیں دیتے ہیں ایسے ہی ان لوگوں کو بھی تاریخ یاد رکھے گی۔ وکٹر ہیگو کے ایک ناول میں ایک باپ اپنے بچے کی بھوک مٹانے کے لیے ڈبل روٹی چراتا ہے جس کے لیے اسے پانچ برس کی سخت سزا ملتی ہے اور اسی دورانیہ میں چند افراد فرانس کا سارا خزانہ کھا جاتے ہیں اور قانون ان کو کچھ نہیں کہتا۔ کیا ہم بھی کسی انقلاب کی خاموش تیاری کر رہے ہیں!