پچھلا خلاصہ :راوی، انجینئرنگ کے سال آخر کا طالب علم، اگست 1987 کی ایک دوپہر ریڈیو پاکستان کراچی سے واپس گھر جاتا ہے، ایمپریس مارکیٹ صدر میں جیب کٹنے کا احساس ہوا۔ گھر واپسی کا سب سے سستا ممکنہ کرایہ تیس پیسے بھی پاس نہیں تھا۔ وہیں سڑک کنارے تماشا لگائے ایک مداری کی مدد سے اس کا سرمہ سلیمانی، منجن اور سانڈے کا تیل بیچنے کی کوشش کی اور اس دوران جب سر پر پڑی تو مجھے صادقین کی شاگردی سے لے کر یاد آیا کہ مجھے مختلف علوم مخفی پر چھوٹی موٹی دسترس بھی حاصل ہے۔
ایک سپیرے کے بیٹے کو میٹرک پاس کرانے پر اس سے ملا، شیش ناگ کا منکہ اور گیدڑ سنگھی یاد آئی، جو اس وقت بھی میرے پاس ایک ماچس میں موجود تھی۔ مجھے ماضی کی باتیں یاد آتی گئیں اور پھر وہاں جو کچھ ہوا۔ اس کا احوال۔ پیسوں کی اہمیت سمجھنے کے لئے انہیں سو سے ضرب دیا جاسکتا ہے یوں اس دن کا ایک روپیہ۔ آج کے سو روپوں سے کم نہیں تھا۔
٭٭٭
میری پہلی کمائی گوروں سے ہی ہوئی۔ گیدڑ سینگھی کی منہ دکھائی کی صورت میں۔ تجسس جب عروج پر تھا تو میں نے جیکل ہارن صرف گوروں کو دکھانے کی حامی بھر لی، لیکن شرط یہ رکھی کہ یہ اس کے سونے کا وقت ہے تو آپ جتنا دیکھنا چاہو دیکھ سکتے ہو لیکن چھونا نہیں۔ بولنے اور چیخنے پر بھی پابندی نہیں کیونکہ یہ سن نہیں سکتی۔ فیس میں نے پچیس پیسے فی شخص فی تیس سیکنڈ رکھی۔ جس میں ایک سہولت یہ تھی کہ اگر چار لوگ مل کر دیکھیں تو ایک روپیہ دینا ہو گا اور وقت دو منٹ ہو جائے گا۔ یوں تھوڑی دیر بعد میں یونیورسٹی کی کتابوں کے درمیان سے ماچس نکال رہا تھا۔ اور ایک روپیہ میری جیب میں جا چکا تھا۔ قاسم جٹ نے للچائی نظروں سے مجھے دیکھا، تو میں نے آہستہ سے کہا، چچا شرم کرو، ساتھ حوصلہ رکھو۔
یونیورسٹی کی کتابیں باہر نکالیں، تو سب سے پہلے میرے ہاتھ میں تین ہزار صفحات والی الیکٹریکل کی بائبل بی ایل تھراجا باہر آئی۔ تماش بین کتاب کی ضخامت یعنی موٹائی اور وزن دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ایک گورے نے پوچھا یہ کیا ہے۔ میں نے کہا، کتاب۔ کہنے لگا وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری ہے۔ ہاں۔ میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں سال آخر کا طالب علم ہوں۔ وہ اور بہت سے دوسرے لوگ جو انگریزی سمجھ سکتے تھے۔ حیرت میں پڑ گئے۔ کہنے لگا۔ یہاں کیا کر رہے ہو۔ میں نے کہا، باپ دادا کا کام جس نے اس قابل کیا کہ میں انجینئرنگ کر سکوں تو اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ تمام گوروں نے اچھی طرح گیدڑ سینگھی کے درشن کرنے کے بعد مجھے پانچ روپے اور دینے کی کوشش کی، جو میں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ بخشش نہیں۔
ایک نے کہا اگر تصویر کھینچنی ہو۔ میں نے کہا مفت۔ کہنے لگا تمہارے ساتھ، تاکہ اگر کسی رسالے میں کور اسٹوری لگانی ہو۔ میں نے کہا، میرے چچا کے ساتھ کھینچ لو میری نہیں۔ گورا حیران تھا کہ یہ عجیب شخص ہے نا بخشش اور نہ تصویر کھینچنے پر پیسے۔
ہماری زیادہ تر باتوں سے قاسم جٹ لاعلم تھا۔ کیونکہ وہ اس وقت لوگوں سے ان کا بائیو ڈیٹا جمع کر رہا تھا۔ پہلے دس لوگ چالیس پیسے میں سرمہ بک کرا چکے تھے۔ جبکہ باقی کا حال یہ تھا کہ وہ پچاس کی بجائے روپیہ دینے کے لئے بھی تیار تھے۔ لوگوں کو بتا دیا گیا تھا کہ ان کی معلومات شاہ صاحب کو ابھی دی جائیں گی جو آدھے پون گھنٹے بعد ہر ایک کے لئے تسبیح اور تعویذ بھیجیں گے۔ لیکن اس میں وقت بھی لگ سکتا ہے۔ اور لوگوں کی عقیدت کا حال یہ تھا کہ فرہاد علی تیمور کا سرمہ مع بابا فرید واسطی کے تعویذ، سسپنس ڈائجسٹ کے ہر قاری کو چاہیے تھا۔ جس کے پندرہ دن استعمال کے پیکج کی مجموعی قیمت صرف ایک روپیہ تھی۔ وہی پچاس پیسے قاسم جٹ کے اور باقی میری ویلیو ایڈڈ سروس کے۔ میں نے جٹ کی کاپی پر دیکھا تو روحانی سرمے والوں کی تعداد 25 ہو چکی تھی۔ یعنی ہم دونوں کے کم از کم ساڑھے بارہ، ساڑھے بارہ روپے۔
فرہاد علی تیمور کی کہانی میں اس دوران دو سے تین بار دہرا چکا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ چند ہفتے پہلے ہی میں اپنے دوست ابراہیم غوری (ایڈونچر اور مسٹری میگزین والے ) کے ہمراہ سسپنس کے دفتر میں معراج رسول صاحب سے مل چکا تھا جہاں سے دیوتا کی ابتدائی جلدیں عاریتاً لی تھیں۔ جبکہ تازہ قسطیں میں تین چار سال سے پڑھ ہی رہا تھا۔
تماش بینوں میں ایک جوان مجھے زیادہ پڑھا لکھا لگا، جس نے مجھ سے فرہاد علی تیمور کے بارے میں مختلف سوال پوچھنے شروع کر دیے۔ میرے پیسے تو پہلے ہی وصول ہوچکے تھے۔ لیکن میں نے خود اعتمادی کا ہمالہ سر کرتے ہوئے یعنی اوور کانفیڈنٹ ہوتے ہوئے ایک اور بونگی مار دی کہ آپ اگر کل آؤ تو گیدڑ سینگھی کی طرح فرہاد علی تیمور اور میڈم سونیا کی تصویر بھی دکھا سکتا ہوں۔ لیکن اس کے لئے مجھے کسی سے اجازت لینی پڑے گی۔ رقم مگر ایڈوانس ہوگی۔ اس نے کہا یہاں کب تک ہو میں نے کہا، ایک دو گھنٹے۔ وہ صرف آدھے گھنٹے کی مہلت لے کر چلا گیا۔
آج بابری منجن، سلاجیت اور روغن سانڈا کی فروخت کی ضرورت نہیں تھی، اور میری ہی نہیں قاسم جٹ کی دیہاڑی بھی لگ چکی تھی۔ جبکہ سارا پیسہ اسی کے پاس تھا یہ اور بات کہ میں اب پیسوں سے بے پروا تھا۔ گورے البتہ ابھی بھی حیران تھے کہ پاکستان میں ایک پروفیشنل انجینئر سڑک پر کیا کر رہا ہے۔ میں نے ان کے لیڈر کا کاندھا تھپ تھپا کر کہا کہ پریشان مت ہو۔ وہ کہنے لگا اگر تم چاہو تو میرے ساتھ یورپ چلو۔ میں نے بات کاٹ پوچھا، ”سلاجیت چاہیے“ ۔
کہنا لگا ہاں، لیکن خالص ہو۔ میں نے پوچھا کس مقصد کے لئے۔ پہلا مقصد تو وہی تھا جسے سن کر میرے کان پہلے ہی دھواں نکل چکا تھا اور دوسرا وہ کہنے لگا ہم لوگ چل چل کر تھک جاتے ہیں تو سنا ہے اس کے استعمال سے گھٹنوں اور جوڑوں میں درد کم ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا، ہاں ایسا سنا تو ہے۔ لیکن تم کتنے پیسے دو گے۔ وہ پچیس روپے پر راضی ہو گیا۔ ساتھ اصلی ہونے کی گارنٹی اس نے مجھ پر ڈالتے کہا تم نے بخشش اور تصویر کے لئے پیسے نہیں لئے، اس لئے مجھے تم پر سو فی صد بھروسا ہے۔
میں نے اسے ایک گھنٹے بعد آنے کو کہا۔ میرے ذہن میں دو طریقے تھے جس کے ذریعہ میں دھوکہ دیے بغیر اس کی مدد کر سکتا تھا۔ اس دوران کچھ مقامی لوگوں نے بھی گیدڑ سینگھی دیکھنے کی فرمائش کی۔ جن کے لئے میں نے پانچ لوگوں کے لئے قیمت پچاس پیسے فی دو منٹ مقرر کی جو لوگوں نے ہنستے ہنستے ادا کردی۔ اس زمانے میں شام کا اخبار عوام اور قومی اخبار شاید پچاس پیسے یا ایک روپے کا تھا۔ تو یہ عیاشی درحقیقت زندگی بھر کی اس ٹھرک پر بھاری تھی کہ: ”میں نے گیدڑ سینگھی دیکھی ہے اور وہ بھی اصلی“ ۔ کیونکہ انجینئر کی کہانی لگ بھگ سب کو پتہ چل چکی تھی جس نے میری مارکیٹ ویلیو مزید بڑھا دی تھی۔ اور قاسم جٹ کی بھی۔
لوگ گیدڑ سینگھی دیکھ رہے تھے اور خوش تھے۔ میں نے ماچس کو ایک پلاسٹک بیگ پر رکھ کر اس میں تھوڑی سائنس ملائی تو ماچس تھوڑی تھوڑی دیر بعد خود ”شف شف“ یعنی حرکت کرنے لگی۔ لوگوں نے ہی مجھے بتایا کہ ”آپ“ کی گیدڑ سینگھی جاگ گئی ہے۔ مداری بچہ، انجینئر ثابت ہونے کے بعد ان سب کے لئے تم سے آپ ہو چکا تھا۔
وہ شخص جو مجھ سے آدھے گھنٹے کا کہ کر گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گوروں کے ساتھ ایک کونے میں کھڑا نظر آیا۔ غور کیا تو اس کے ساتھ ایک پچاس پچپن سال کا جہاں دیدہ شخص بھی کھڑا تھا، جس سے وہ بات کر رہا تھا۔ نیا شخص مجھے اور میری حرکتوں کا بغور مطالعہ کر رہا تھا۔ میں لگ بھگ فارغ تھا، گیدڑ سینگھی سے لوگ کھیل کر پیسے میرے شاپر میں خود ڈال رہے تھے۔ اور میں قاسم جٹ کی کاپی سے پہلا صفحہ پھاڑ کر لوگوں کا مستقبل بنانے لگا۔
میں نے اپنے نانا سید جمال احمد رضوی کے کزن سید صبور نقوی سے علم نجوم اور وظائف پر اضافی ٹریننگ لے رکھی تھی کیونکہ بعض اوقات جب ان کے معتقدین ملنے آتے تو یہ کام وہ مجھ سے اس لئے کروا لیتے کہ مجھے ابجد سے نام کا حساب نکالنے میں لمحے لگتے تھے۔ (اللہ تعالی ان دونوں کی مغفرت فرمائے ) ۔ اب میں نے ایک جدول بنا کر، ہر شخص کے نام کے حساب سے اللہ تعالی کا کون سا نام اور کتنی تعداد میں پڑھنا ہے لکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران میں لوگوں سے ادھر ادھر بات بھی کرتا جا رہا تھا۔
مجھے نہیں پتہ چلا کہ کب وہ جہاں دیدہ اور بظاہر پڑھا لکھا شخص مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ پہلے لگا کہ یہ فیض احمد فیض کا کوئی رشتہ دار ہے۔ لیکن کوئی پروفیسر ٹائپ شخص۔ حلیہ امیر نہ سہی مگر اچھی فیملی کا۔ ناک تھوڑی پھولی ہوئی (جسے میں نے پکوڑا جانا) ۔ بظاہر غصیلا۔ سامنے سے تھوڑا گنج جیسے بقول صبور نانا، بیوی لڑاکا ہو۔ مگر اس کے چہرے پر سب سے اہم چیز اس کی آنکھیں تھیں۔ آگ اگلتی اور تیز چیرتی ہوئی، جن سے میں نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ ایک وجہ کہ میں پراجیکٹ تعویذ پر کام کر رہا تھا۔ دوسرا میں خود اس کی آنکھوں سے بچنا چاہتا تھا۔
کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ غصیلا یعنی جو شخص مجھ سے اب فرہاد علی تیمور کے دیوتا کے بارے میں زیادہ باتیں کر رہا تھا۔ اس کو لانے والا شخص غائب ہو چکا تھا۔ غصیلے نے بھی سرمہ سلیمانی اور بابا فرید واسطی سے تعلق کے دعوی کو بڑے غور سے سنا۔ فرہاد علی تیمور کی ابتدائی زندگی اور لاہور کی گلیوں کے بارے میں کرید کرید کر باتیں پوچھیں، جو مجھے سب، صحیح صحیح، اس لئے پتہ تھیں کیونکہ میں نے کچھ عرصے پہلے ہی پڑھی تھیں۔ اعلی بی بی، رسونتی، میڈم سونیا۔ وہ مجھ سے بات کرتا رہا اور میں تعویذ بناتے، بغیر اسے دیکھے جواب دیتا رہا۔
کہنے لگا فرہاد کی تصویر چاہیے۔ میں نے کہا نہیں ہے۔ اس نے کہا مجھے تو لانے والے نے کہا تھا کہ تصویر ہے۔ میں نے کہا یہ آفر اس کے لئے تھی، آپ کے لئے نہیں۔ میں نے آپ سے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ کہنے لگا، اگر اس کو بلا لوں۔ میں نے کہا، اب نہیں، اسے بھی میں نے فیصلے کے لئے آدھے گھنٹے کی مہلت دی تھی۔
لوگ گیدڑ سینگھی دیکھ رہے تھے۔ قاسم جٹ کی فہرست پچاس کو چھو چکی تھی۔ جب میں نے یکایک اسے کہا۔ آج کے لئے بس اتنا ہی کوئی سرمہ لینا چاہے تو لے لے مگر روحانی کوٹہ ختم ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو میں نے کہا۔ آپ کون سا شروع سے یہاں کھڑے ہیں۔ اور ہمارے پاس پہلے آئیے پہلے پائیے ہوتا ہے۔ قاسم جٹ نے کچھ اعتراض کیا تو میں نے اشاروں کنایوں میں کہا، چچا، اگر کوئی سرمہ لیتا ہے تو آپ کا۔ تعویذ تو شاہ صاحب کا حصہ ہے اور وہ اتنا ہی کرتے ہیں۔ ساتھ میں نے اعلان کیا کہ جس کو سمجھ آتا ہے وہ سرمہ آج لے لے۔ کل اگر شاہ صاحب ہوئے تو اضافی رقم دے کر تعویذ بھی لے لیجیے گا۔ اور ان لوگوں کو شاہ صاحب پہلے دیکھیں گے جو بکنگ کرا چکے ہوں گے ۔ قاسم جٹ کی باچھیں کھل گئیں اور دوسرے لوگوں کی بھی کیونکہ اس میں سب کی جیت تھی۔
چیرتی آنکھوں والا شخص جس کا غصہ اب حیرت میں زیادہ بدل چکا تھا۔ اس نے مجھے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور آہستہ سے پوچھا۔ تم کون ہو۔ میرا جواب سادہ سا تھا، مداری بچہ۔
کہنے لگا، نہیں۔
میں نے بے رخی سے کہا، آپ کی مرضی۔
مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ قاسم جٹ، ٹھیٹ پنجابی سرائیکی لہجے میں اردو بول رہا تھا اور میں صاف اور تسنیم میں دھلی اردو۔ ساتھ انگریزی کے تڑکے۔ اور اس کا شک بجا تھا۔ جس کا مطلب یہ بھی تھا۔ میاں رضی کھسک لو۔ مجھے لگا کہ یہ شخص شاید سی آئی ڈی یا انٹیلیجنس کا افسر ہے اور ممکن ہے حالیہ بم دھماکوں پر تحقیق کر رہا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے فراڈیا ثابت کر کے تھوڑی دیر بعد گرفتار کر لے کیونکہ بہرکیف میرے یعنی چور کی داڑھی نہیں تھی تو کیا ہوا، اس میں تنکا تو موجود تھا۔