قدرت نے جتنی مخلوقات پیدا کیں ان میں مرد اور عورت کی تفریق کیے بغیر انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا۔ مگر مردوں نے خود کو برتر تصور کرتے ہوئے معاشرے کی اس طرح تشکیل کی کہ عورت کو سماج میں اپنی زندگی سے جڑے ہر معاملہ میں مرد کی اجازت کا محتاج کر دیا گیا۔ اس لفظ اجازت نے عورت کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور دیکھئے کہ کئی عورتیں اپنی سماجی حیثیت بدلنا چاہتی تھیں مگر ان کو اجازت نہ ملی
کئی ذہین لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں مگر ان کو اجازت نہ ملی کئی لڑکیاں کھیلوں کے میدان میں اپنا نام روشن کرنا چاہتی تھیں مگر ان کو اجازت نہ ملی، کئی لڑکیاں اپنی پسند کا پیشہ ورانہ شعبہ اختیار کرنا چاہتی تھیں مگر ان کو اجازت نہ ملی کئی لڑکیاں اپنے من پسند ساتھی کا انتخاب چاہتی تھیں مگر اجازت نہ ملی۔
صد افسوس کہ اس ایک لفظ اجازت نے نہ صرف ان لڑکیوں کے کچھ کرنے کے خواب چھینے بلکہ معاشرے کو بھی ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے سے محروم رکھا۔ ذرا سوچئے کہ آخر یہ اجازت کا لفظ لڑکیوں پر ہی کیوں تھوپا جاتا ہے۔ یہ لفظ اجازت مجرم ہے ان عورتوں کا جو معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتی تھیں مگر نہ کر سکیں۔ مردوں کا یہ پدرسری معاشرہ کبھی نہیں چاہتا کہ عورت سیاسی سماجی اور معاشی طور پر خود مختار ہو۔ کیونکہ خود مختار عورت پدرسری کی ٹوکری کے بوجھ کو اٹھانے سے انکار کرتی ہے، وہ ظلم و ستم سہنے سے انکار کرتی ہے، وہ معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج اور منشا کے تحت زندگی بسر کرنے سے انکار کرتی ہے، وہ مرد کے پاؤں کی جوتی بننے سے انکار کرتی ہے، وہ غیرت کے نام پر قتل ہونے سے انکار کرتی ہے، وہ کسی بے زباں جانور کی طرح کسی کے کھونٹے پر بندھے رہنے سے انکار کرتی ہے، وہ اپنی خواہشات اور تخلیقی صلاحیتوں کو دفن کرنے سے انکار کرتی ہے، وہ کسی کے زیر دست زندگی گزارنے سے انکار کرتی ہے، وہ کسی کی ملکیت بننے سے انکار کرتی ہے، وہ اس بات سے بھی انکار کرتی ہے کہ وہ آدھی اور ادھوری ہے۔
پدرسری سوچ ایک ایسی عورت کو قبول نہیں کرتی جس کی جھولی میں انکار ہی انکار ہوں کیوں کہ یہ انکاری عورت معاشرے کے صدیوں سے لگے بندھے اصولوں پر چلنے کی بجائے ان کو چیلنج کرتی ہے یہ خود کو ہر روپ میں خواہ شادی شدہ ہے، غیر شادی شدہ ہے، اولاد والی ہے، بے اولاد یا پھر بیوہ مکمل انسان سمجھتی ہے۔ یہ انکاری عورت اپنی ذات کے متعلق ہونے والے ہر فیصلے کو قبول اور رد کرنے کا اختیار چاہتی ہے۔
مگر کیا کیجیے کہ پدرسری سوچ عورت کے انکار کو برداشت نہیں کر سکتی اب ہوتا یہ ہے کہ عورت کے اس انکار کو مرد اپنی حاکمیت پر کاری وار سمجھتا ہے۔ اب یہ عورت اپنے انکار کی سزا کردار کشی کی صورت میں بھگتی ہے، کہیں تیزاب میں جھلسا دی جاتی ہے اور کہیں غیرت کے نام پر بلی چڑھا دی جاتی ہے اور جب یہ انکاری عورت سینہ تان کر با آواز بلند اپنے اوپر ہونے والے تشدد اور ظلم کے خلاف بولتی ہے تو اس کو ڈرایا جاتا ہے دھمکایا جاتا ہے ہر ممکن اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
کیونکہ پدرسری سوچ عورت کے انکار کو اپنے من چاہے اقرار میں بدلنا چاہتی ہے۔ ایسے اقرار جو مرد کے مفادات سے وابستہ ہوں جس میں صرف مرد کی ذات کی تسکین ہو۔ لہذا یہ پہ در پہ انکار کے وار مرد کی مردانگی کو کانٹے کی مانند چبھتے، کھٹکتے اور سینے پہ مونگ دلتے ہیں اور اسے اپنی حاکمیت چھینتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پدرسری سوچ کے حامیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خود کو مکمل انسان سمجھنے والی عورت اپنے حق کے لئے کھڑی ہونے والی عورت مرد کی دشمن نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کی مخالف ہے بلکہ وہ مرد کے اس پدر سری رویے کی مخالف ہے جو عورت کو بحیثیت انسان وہ عزت نہیں دیتا جس کی وہ مستحق ہے اور نہ ہی اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہتا ہے۔
وہ مرد کو یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ مرد اور عورت کے جسمانی خد و خال فطری ہیں میں عورت ہوں اور تم مرد اس میں نہ ہمارا اختیار ہے نہ کمال ہاں البتہ ایک اختیار ہمارے پاس ہے کہ ہم اپنے فطری وجود کے فرق پر ایک دوسرے کے انسانی حقوق میں فرق نہ کریں کیونکہ یہ فرق سماج کی دی ہوئی سوچ ہے اور یہ سوچ بدلی جا سکتی ہے اور یہ بدلنی ہو گی اور یہ بدلے گی۔