خصوصی رپورٹ
طارق خان ترین
صوبہ بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے جسطرح بڑا صوبہ ہے اسی طرح سے یہاں کے باسی کھیلوں اور دیگر مثبت سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ بلوچستان میں اس وقت 35 اضلاع آٹھ ڈویژنز پر مشتمل ہے۔ یہاں مجموعی طور پر 134 تحصیلات، اور 978 یونین کونسلز بنائے گئے ہیں۔2023 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی ٹوٹل آبادی 14,894,402 ہے۔ جہاں 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں 30 سال سے کم ہے۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے نوجوانوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ مگر یہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ بلوچستان کی تشخص میں اضافے کے باعث جو عوامل ہے انہیں صحیح طرح سے دکھایا نہیں جاتا، یا پھر یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ البتہ یہاں اگر کوئی انہونی ہوتی ہو جس سے کہ صوبے کی تشخص کو بے پناہ نقصان پہنچتا ہو انہیں نہ صرف دکھایا جاتا ہے بلکہ اچھی طرح سے بڑھا چڑھا کر بھی دکھایا جاتا ہے۔ یہاں پر سیاستدانوں کے پاس ایجنڈا وہی بکتا ہے جو ریاست مخالف ہو جو وقت کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈے کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ اسی ایجنڈے پر کاربند رہتے ہوئے ہماری مین سٹریم میڈیا ٹی آر پی کی شکل میں پیسے کماتی ہے جبکہ پروپیگنڈے میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لئے ڈیجٹل میڈیا پر اسی مین سٹریم میڈیا کے بندے بیٹھ کر انکا استعمال کرکے بھی ڈالرز کماتے ہیں۔
پروپیگنڈوں کو مزید دوام بخشنے کے لئے لوکل سطح پر تنظیمیں بنائی جاتی ہیں، مختلف ٹاسک دیئے جاتے ہیں، اور ان تنظیموں کو فنڈز باہر کے ممالک سے موصول ہوتی ہیں، یہ فنڈز کس شکل میں اور کیسے ان خود ساختہ تنظیموں تک پہنچ جاتی ہے؟ اس کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف ائی اے) وہ دیگر اداروں کی خاموشی ایک ظلم کے سوا اور کچھ نہیں۔ لاپتہ افراد پر قوم پرست سیاستدانوں کی چیخ و پکار سے لیکر ان تنظیموں کے خودساختہ بیانئے اور ان پر احتجاج، اور اس احتجاج کی آڑ میں ریاست اور اس کے اداروں کو برا بلا کہہ کر بدنام کرنا، یہاں تک کہ ملک میں عدم استحکام اور افرا تفری پیدا ہو۔ ان سب کا اس ملک میں ممکن ہونا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے! میں نے کہیں مرتبہ اپنے کالمز میں لاپتہ افراد پر لکھا ہے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی ایک بھی شخص بے قصور اور ماورائے قانون لاپتہ ہے تو انہیں دھونڈنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زمہ داری ہے۔ میں نے اپنے کالمز میں اس مسئلے پر پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک کے ساتھ کیا، جن کے سامنے پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد نا ہونے کے برابر ہے۔ ان ممالک میں سالانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہوتے ہیں، بلکہ ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں تو گھنٹے اور منٹ کے حساب سے لوگ لاپتہ ہوتے ہیں تو اندازہ لگائے کہ کتنی تعداد میں لوگ غائب ہونگے، مگر کبھی کسی نے سنا ہو کہ بھارتی میڈیا پر لاپتہ افراد کا مسلہ زیر بحث لایا گیا ہو؟ مجھے پتہ ہے وہاں بالکل بھی اس مسئلے پر نہیں بات تک نہیں کی جاتی۔ مگر پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان میں ہی اسے مسلہ بناکر پیش کیا جاتا ہے؟ جبکہ یہاں کی تعداد بھارت تو چھوڑئے بلکہ ہمارے خیبر پختونخوا سے بھی کم ہے۔ لاپتہ افراد کمیشن کے مطابق جنوری کے مہینے تک بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد 2192 ہے جن میں سے 1484 اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہے۔ ان میں سے بیشتر ایسے بھی ہے جو ملک مخالف عناصر کے کیمپوں میں جاکر بیٹھ گئے اور اہل خانہ کو کچھ معلوم بھی نہیں۔ خیبر پختونخوا میں 3380 لوگ لاپتہ رہے، وہاں کیونکر یہ پروپیگنڈے یا پھر احتجاج نہیں ہوتے؟
بحرحال بات واپس اپنے موضوع کی طرف لانا چاہونگا، کہ درحقیقت بلوچستان میں موجود وسائل ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہورہے جس کی وجہ سے وہ مختلف طور طریقوں سے واردات کرتے ہوئے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ مگر بلوچستان کے باسی خصوصا نوجوان طبقہ نے سیاستدانوں، قوم پرستوں، اور انتشاری تنظیموں کے پروپیگنڈوں سے تنگ آکر اپنے اپنی ترجیحات کا تعین مثبت سرگرمیوں کی طرف کردیا ہے۔ اسی لئے صوبے کا ہر ضلع، تحصیل یہاں تک کہ ہر یونین کونسل میں کھیلوں کے رجحانات بڑھ رہیں ہیں۔ صوبے کا اکثریتی حصہ جو نوجوانوں پر مشتمل ہے کا کھیلوں اور دیگر مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ہونا نہ صرف پورے صوبے کے لئے بلکہ پاکستان کی بہتر مستقبل کا ضامن ہے۔ مئی کے مہینے میں ان سرگرمیوں پر اگر نظر دہرائی جائے تو 28 مئی یوم تکبیر کے دن کے مناسبت سے تقاریب میں عوام نے مسلح افواج، پاکستانی سائنسدانوں اور شہدا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ جہاں 110,000 سے زیادہ افراد نے براہ راست شرکت کرتے ہوئے اپنے محافظوں اور محسنین کو خراج تحسین جبکہ شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ پشین میں تمباکو کے عالمی دن اور پولیو سے آگاہی اور روک تھام کے حوالے سے دو سیمینارز کا انعقاد کیا گیا۔ “تمباکو اور منشیات کی وجہ سے صحت کے نقصانات” پر لیکچر میں 120 سے زائد افراد نے شرکت کی، جبکہ تمباکو اور منشیات کی روک تھام کے لیے آگاہی مہم کے حوالے سے ریلی میں 80 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اسی طرح سے کوئٹہ، خضدار اور ژوب کے اضلاع میں “بلوچستان میں امن و استحکام” اور “مذہبی ہم آہنگی اور پاکستانی معاشرے میں اس کی ضرورت” کے فروغ کے لیے 4 سیمینار منعقد ہوئے۔ جہاں سیمینار میں 950 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ بارکھان میں سیرت النبیؐ و قرات کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ مقابلے میں 170 سے زائد افراد نے حصہ لیا۔ ضلع قلعہ عبداللہ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ 50 سے زائد ہیڈ ماسٹرز نے شرکت کی۔ ضلع پشین میں معذور افراد کے لیے ایک فلاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں 170 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اسلام میں خواتین کی حیثیت کے موضوع پر ہرنائی اور پشین میں دو سیمینارز کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں 150 سے زائد افراد نے شرکت کی۔
کھیلو کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مئی کے مہینے میں خضدار، لسبیلہ، دالبندین، حب، ژوب، کوہلو، ہرنائی اور مستونگ میں فٹ بال ٹورنامنٹ کے 29 میچز کھیلے گئے۔ جنہیں دیکھنے کے لئے 3,470 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کرتے ہوئے سماں باندھ دیا۔ دالبندین، نوشکی، حب اور کیچ میں 9 کرکٹ ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا۔ مجموعی طور پر 1,050 سے زیادہ لوگ میچ سے لطف اندوز ہوئے۔ اسی طرح لورالائی میں یوتھ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔ میلے میں 150 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ خضدار میں سپر سنڈے شوٹنگ والی بال میچ کھیلا گیا۔ 60 سے زائد لوگوں نے میچ دیکھا۔خضدار، حب، شیرانی، موسیٰ خیل اور کیچ میں لیکچرز اور کھیلوں کی سرگرمیوں سمیت گیارہ ایونٹس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں 1,400 سے زیادہ لوگ مصروف عمل تھے۔ خضدار، حب، ہرنائی اور قلات میں فٹ بال کے 9 ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا۔ 1200 سے زائد تماشائیوں نے میچ دیکھا۔ اضلاع کوہلو، تربت اور دالبندین میں 3 کرکٹ ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا۔ 230 سے زائد لوگوں نے میچ دیکھا۔
بلوچستان میں جون اور جولائی جیسے گرم ترین مہینے میں صحتمندانہ سرگرمیوں میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی پر اگر بات کی جائے تو پروجیکٹ پاکستان کے تحت 10 سے زائد عوامی اجتماعات قائم کئے گئے، جہاں مختلف علاقوں میں مفت طبی کیمپس، کھیل و ٹورنامنٹس کا انعقاد شامل ہیں۔ مفت میڈیکل کیمپس آروی، سوئی اور گندوئی قائم کیا گیا جس کے مہمان خصوصی ڈی ایچ او اعظم تھے جہاں تقریبا 265 مریضوں کا معائنہ کیا گیا۔ جبکہ دوسرا طبی کیمپ آر وی، سوئی کے علاقے موضع شاہ زین ضلع ڈیرہ بگٹی میں قائم کیا گیا، جس میں 269 مریضوں کی جانچ کی گئی۔ اسی طرح سے سوئی کے ایک اور علاقے سگھاری سوئی میں بھی مفت طبی کیمپ قائم کیا گیا جس میں 195 مریضوں کا معائنہ کیا گیا۔ ان تمام مفت طبی مراکز میں مریضوں کو مفت ادویات اور دیگر سہولیات فاہم کی گئی۔ ضلع خضدار میں پہلا آل خلیل احمد (مرحوم) فٹبال ٹورنامنٹ 2024 فیاض جان فٹبال گراونڈ لیزو کھز میں ریحام رمد فٹبال کلب بمقابلہ جھالاوان فٹبال کلب کے درمیان فٹبال میں میچ کھیلا گیا جسکے مہمان خصوصی میر نثار قمبرانی تھے۔ جس میں 130 سے زائد تماشائیوں نے شرکت کی۔ پانچواں آل خز باغبانہ فرینڈشپ فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد نواب نوروز خان اسٹیڈیم خضدار میں ہوا۔ جہاں شہید عبدالقادر فٹبال کلب باغبانہ اور نعیم شاہ فٹبال کلب کے درمیان مقابلہ ہوا جس کے مہمان خصوصی محمد علی نوتانی رہے۔ میچ کو دیکھنے کے لئے 110 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ آل مککوراں ڈسٹرکٹ کیچ کرکٹ ٹورنامنٹ کرکٹ گراونڈ منڈ میں کھیلا گیا۔ نالی پیری خان کرکٹ کلب اور ینگ اسٹار بلوچ آباد کرکٹ کلب کے درمیان مقابلہ ہوا، محمد اقبال میچ کے مہمان خصوصی رہے جبکہ میچ کو 130 سے زائد لوگوں نے دیکھا۔ پنجگور کے آفتاب شپاتن اسٹیڈیم میں بھی فٹبال ٹورنامنٹ منعقد ہوا، جہاں سورج کلب فٹ بال گرمکان بمقابلہ نوکا آباد فٹ بال کلب کے درمیان میچ ہوا، دلاور بلوچ مہمان خصوصی جبکہ میچ کو 130 سے زائد لوگوں نے دیکھا۔ قلات میں فٹ بال ٹورنامنٹ سروان چیلنج کپ 2024 مستونگ کھیلا گیا جس میں نوید شہید فٹبال کلب اور ہاشم اکیڈمی فٹبال کلب کے درمیان مقابلہ ہوا۔ میچ کے مہمان خصوصی عزیز خان ترین جبکہ میچ دیکھنے کے لئے 130 سائقین نے شرکت کی۔ جشن نوشکی پیس کپ فٹبال ٹورنامنٹ بلوچ فٹبال گراونڈ ضلع نوشکی میں کھیلا گیا، نیشنل ایف سی کرڈی گاپ اور میر یعقوب اکیڈمی نوشک کے درمیان میچ کھیلا گیا جس میں 70 سے زائد شائقین نے شرکت کی۔ نوشکی کے اسی گراونڈ پر پہلا آل نوشکی صدر انجمن تاجران سعید بلوچ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا۔ ینگ بلوچ کرکٹ کلب اور عارف جان کرکٹ کلب کے درمیان میچ کھیلا گیا جس میں 50 سے زائد افراد نے شرکت کرتے ہوئے اپنی اپنی ٹیموں کو سپورٹ کیا۔ ملک کے مختلف علاقوں کے نوجوانوں کو اس طرح کی مثبت اور صحت مند سرگرمیاں میسر ہونے سے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مدد مل رہی ہے نہ صرف بلکہ ان سرگرمیوں کی وجہ سے نوجوان قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے فعال شہری ثابت ہو رہے ہیں۔