*سرائیکی وسیب کی عظیم مقامی روحانی بزرگوار ہستی حضرت بابا شیر دیوان مشائخ چاولی شہید رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ


تحقیق: *محمد الطاف ڈاہر altafkhandahir@gmail.com 0300 -7806375 واٹس ایپ

نیک اور صالح عملوں کی تاثیر کا نام ہی تصوف ہے۔سرائیکی وسیب اولیاء کرام کی محبوب ترین دھرتی ہے۔ملتان شریف اور اوچ شریف کو سرائیکی خطے کا روحانی مرکز مانا جاتا ہے۔امن و محبت اور رواداری سرائیکی سرزمین کا خاصہ ہے۔سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ چشتیہ،سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ قادریہ، سلسلہ جلالیہ اور سلسلہ اویسیہ کے عظیم الشان بزرگان اسلام نے برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ میں اہم کردار ادا کیا۔اسلامی روایات کی پاسداری کا سہرا اولیاء کرام کے سر جاتا ہے۔جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو دین اسلام کی روشنی دکھانے اور ان کو اسوہ حسنہ سے روشناس کرانا بزرگان دین کی کرامت ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے اولیاء اللہ کرام نے جنگ لڑے بغیر پیار اور محبت سے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی مشائخ 30 ہجری بمطابق 650 عیسوی کو پیدا ہوئے۔ قبول اسلام سے پہلے آپ رحمتہ اللہ علیہ نام “رائے چاولہ” تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اسلامی نام”شیرمحمد” رکھا گیا ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد رائے لکھمن راجپوت قوم کے سردار تھے۔ راجہ ہسپال بدھ مت کے پیروکار اور حکمران مہاراجہ ڈاہر چچ سندھ کے قریبی تعلق دار بھی تھے ۔اس راجہ کی ایک بیٹی ضلع قصور کی تحصیل چونیاں کی رہنے والی تھی ۔اسی رانی کے بطن سے آپ رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک بہن کنگن بی بی بھی تھی۔ انہی کی مناسبت سے ضلع قصور کے نواح میں ایک قصبہ کا نام کنگن پور رکھا گیا تھا۔ منشی حکم چند نے اپنی کتابوں میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قبول اسلام سے قبل بھی آپ نہایت عابد اور صالح انسان تھے۔ انہی دنوں والئی سندھ اور اہل اسلام کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی۔ جس میں والئی سندھ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔چونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اس جنگ میں والئی سندھ کی طرف سے شریک تھے۔ اس لیے قیدی بنا کر آپ کو مدینہ منورہ بھیج دیا گیا۔دوران قید سرزمین عرب میں آپ دین حق کی سچائی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ۔اس وقت مدینہ منورہ میں حضرت امام حسن علیہ السّلام حیات تھے۔ انہوں نے آپ کو کلمہ توحید پڑھایا اور اسلام کے بارے میں آپ کی رہنمائی فرمائی۔ بعدازاں آپ کو رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ حج بیت اللہ کیا ۔پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دی۔ وہاں چند روز اعتکاف کرکے وہاں سے بھی روحانی فیض حاصل کیا۔ بعد ازاں جب محمد بن قاسم 712 ء میں سندھ کے مضبوط حکمران راجہ ڈاہر چچ سے جنگ لڑنے کے لیے دیبل سندھ کی بندرگاہ پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا ۔تو حضرت بابا شیر دیوان مشائخ چاولی رحمتہ اللہ علیہ بھی لشکر اسلام میں شامل ہو گئے۔محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا تو راجہ ڈاہر مقابلے کے لیے نکلا۔ خوب گھمسان کی لڑائی ہوئی۔سندھ کا مضبوط ترین حکمران راجہ ڈاھر چچ شکست کھاکر موت کے گھاٹ اتر گیا۔ سندھ فتح ہوگیا۔محمد بن قاسم ملتان تک آیا۔شہر سے مال غنیمت قیمتی خزانوں کو عرب حکمران حجاج بن یوسف کو روانہ کیا۔مزید فتوحات کے لیے لشکر اسلام کی پیش قدمی جاری رہی۔ حتیٰ کہ ملتان کے گردو نواح کا علاقہ جس میں قلعہ کوٹھے وال بھی شامل تھا ۔فتح ہوگیا مسلمانوں کے لشکر میں حضرت حاجی شیر محمد دیوان مشائخ چاولی رحمتہ اللہ علیہ بھی شریک تھے۔ کوٹھے وال پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آبائی قصبے میں ہی سکونت اختیار کرلی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حسن اخلاق کی ہر طرف شہرت پھیلی تو لوگ بڑی تعداد میں مسلمان ہونے کے لیے آپ کے در پر حاضر ہونے لگے۔ اور مشرف بہ اسلام ہو کر لشکر اسلام کا حصہ بننے لگے۔ آپ کے خاندان کے دوسرے لوگ ابھی ہندو تھے۔انہیں آپ کے مسلمان ہونے کا دلی رنج تھا۔ چنانچہ انہوں نے 27 رمضان المبارک 748 عیسوی اور 131ہجری کو آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ نماز پڑھ رہے تھے ۔روایت میں موجود ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بہن کنگن بی بی کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی موت کا بہت صدمہ ہوا۔ وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ زندہ زمین میں دفن ہو گئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے 101 سال عمر پائی۔سلطان محمود غزنوی نے 1001ء عیسوی میں جب ہندوستان پر حملہ کیا ۔تو اس نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کرامتوں کی شہرت سنی تو آپ کی درگاہ پر خود حاضر ہوا ۔اور قبر مبارک پر شاندار روضہ تعمیر کروایا ۔اس کےبعد بادشاہ برصغیر پاک و ھند جلال الدین اکبر مغل (جس کا نام شہنشاہ ولایت حضرت شیر شاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کی نسبت سے رکھا گیا)۔اوربادشاہ جہانگیر نے مزار شریف کی مرمت کروائی ۔آپ کا مزار سرائیکی وسیب کے اعلی ترین نمونہ ہے۔ملتانی فن تعمیر کے اولین نمونوں میں شامل تھا۔ یہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بہن کنگن بی بی بھی دفن ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بہن کی قبر کو ایک چوبی پنجرے سے محفوظ کردیا گیا تھا۔ جس پر ہر وقت کپڑا پڑا رہتا ہے تاکہ ان کی قبر غیر محرموں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے۔تاریخ کے اوراق میں حضرت بابا دیوان شیر مشائخ چاولی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ایک واقعے کا ذکر موجود ہے کہ محمد مراد کھرل جو موضع نور شاہ کا رہنے والا تھا ۔اس نے یہاں اعتکاف کیا ۔تو آپ رحمتہ اللہ علیہ خواب میں آکر مراد کھرل کو ہدایت فرمائی کہ اسم “ھوا للہ الذی لاالہ الاھو ” کا ورد اس طرح کرو “ھو” کو سانس ختم ہونے تک کھینچو، اس سے قلب (دل) منور ہوجائے گا۔ چنانچہ محمد مراد کھرل کا قلب منور ہوگیا ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک کرامت یہ بھی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر آنے والے دماغی مریض چند دنوں میں رب العزت کے حکم سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی فیضان کی اور نظر کرم سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے والد حضرت حافظ جمال الدین سلیمان کو اس قصبے کوٹھے وال کا قاضی مقرر کیا گیا تھا ۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے والدین نے یہیں پر وفات پائی اور ان دونوں کے مزارات اسی قصبے بدھلہ سنت میں موجود ہیں۔مزار کے احاطے میں آج بھی دو مقامات ایسے ہیں جن کو حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سے ذاتی نسبت دی جاتی ہے ۔یعنی گلہ فرید اور چاہ فرید اسے بابا فرید کی جائے پیدائش بھی کہا جاتا ہے۔ قریب ہی ایک کنواں بھی ان سے منسوب ہے جہاں حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ملتانی نے چلہ معکوس کاٹا تھا۔ یعنی کچی تند کے ساتھ اس کنویں میں لٹکے رہے تھے۔ زائرین بیماریوں سے شفاء کے لیے اس کنوے کا پانی استعمال کرتے ہیں ۔قصبہ دیوان صاحب میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کے ساتھ ہی حضرت بابا فريد الدين مسعود گنج شڪر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کا گھر تھا۔ یہاں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند حضرت نصیر الدین مسعود رحمتہ اللہ علیہ کی قبر بھی ہے۔ اس مسجد میں چار ولی اللہ حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ، شہنشاہ ولایت حضرت مخدوم سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری اوچی ع، سرائیکی زبان و ادب کے پہلے مایہ ناز صوفی شاعر( اشلوک) حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت عثمان مروندی لال شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ نے بیٹھک کی تھی۔ اسی وجہ سے اسے مسجد چہار یار بھی کہا جاتاہے۔ چاہ فرید کے بالکل ساتھ بیٹھک سکھوں کے روحانی پیشوا پیر بابا گورو نانک بھی ہے۔ اس پر ایک بڑا گنبد اور چاروں کونوں پر چھوٹے چھوٹے مینار بنے ہوئے ہیں۔ اس مقام پر بابا گورو نانک نے چلہ کشی کی۔ اور دربار بابا حضور حضرت دیوان مشائخ چاولی حاجی شیر سے خوب فیض حاصل کیا۔ اس وجہ سے سکھ حکمرانوں نے اس کی تعمیر کی تھی ۔سکھ اسے بڑا متبرک مقام سمجھتے ہیں۔ اسے دھرم شالا گورو نانک بھی کہا جاتا تھا۔ قصبہ دیوان صاحب میں حضرت بابا حاجی شیر دیوان مشائخ چاولی رحمتہ اللہ علیہ 1314 ویں سالانہ عرس مبارک کی تین روزہ تقریبات کا با قاعدہ آغاز غسل مزار شریف و چادر پوشی سے 9 جولائی 2024ء سے شروع ہے۔ضلع وہاڑی میں مقامی چھٹی کا اعلان بھی جاری ہوچکا ہے ۔ سہ روزہ سالانہ تقریبات کے دوسرے روز محفل نعت و سماع جبکہ تیسرے اور آخری روز ختم شریف اور رات کو چراغاں سے عرس کی تقریبات اختتام پذیر ہونگیں۔ برصغیر پاک وہند کی پہلی روحانی سرائیکی خطے کی مقامی ہستی حضرت بابا حاجی شیر دیوان مشائخ چاولی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار سرائیکی وسیب (ساوتھ پنجاب )مرکزی اہم ڈویژن ملتان کے ضلع وہاڑی تحصیل بورے والا سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے ستلج کے کنارے پر واقع قصبہ دیوان صاحب میں ہے۔اولیاء کرام کے مزارات آج بھی رشدوہدایت کے سرچشمے ہیں ۔ہمیں ان کی زندگیوں سے صحیح معنوں میں بھلائی حاصل کرنی چاہیے کیوں کہ بزرگان دین کی تعلیمات امن و احترام آدمیت کا فلسفہ اور ہر دور کی نسل کے لئے حقیقی مشعل راہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *