” چائنا ” چانکیہ ” را “


تحریر۔نظام الدین

کراچی چھ اکتوبر کی سب جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر چینی شہریوں کو لے جانے والے کانوائے پر حملے میں دو چینی انجینیئرز سمیت تین افراد ہلاک جبکہ گیارہ افراد زخمی ہوئے “یاد رہے “کراچی میں دو ہزار سترہ سے اب تک چینی شہریوں پر یہ آٹھواں کامیاب حملہ ہے، جبکہ دوسرے صوبوں میں بھی اس طرح کے حملوں میں کئی چینی ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں؟
پاکستان میں آخر معصوم بے گناہ چینی شہریوں پر قاتلانہ حملوں کا خفیہ دہشت گرد نیٹورک کوں چلا رہا ہے؟ ؟ ؟
اس کو سمجھنے کے لئے سنہ انیس سو باسٹھ چین بھارت جنگ اور سنہ انیس سو پینسٹھ پاکستان بھارت جنگ اور
“چانکیہ” کو سمجھنا ضروری ہے، دراصل دونوں جنگوں میں چین اور پاکستان نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا ” تب بھارت کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا؟
بھارتی ہندؤں لیڈروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب انہیں سیاست اور جنگ میں شکست کا سامنا ہوتا ہے تو وہ سازشی نظریات رکھنے والے”چانکیہ” کے اصولوں کے تحت کام کرنا شروع کر دیتے ہیں؟
جیسے برطانوی دور حکومت میں موہن داس کرم چند گاندھی کی انگریز “ہندوستان چھوڑو تحریک کو سختی سے کچل کر گاندھی کو جیل میں ڈال دیاگیا تو اس تحریک میں جان نہیں رہی، “تب گاندھی نے جیل سے باہر چکروتی راج گوپال اچاریہ جو انڈین نیشنل کانگرس کا ایک اہم رہنما تھا اور “چانکیہ”کے فلسفے کا پیروکار تھا اس کے ساتھ مل کر ایک سازشی فارمولا “سی ار” تیار کرا کر محمد علی جناح کو سازشی جال میں پھنسانے کے لیے بھیج دیا جس کا مقصد مسلم لیگ کو کمزور کرنے کی کوشش تھا،
مگر محمد علی جناح جب ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے ” تب وہ ہندؤں کی سازشی پالیسیوں کو بڑے قریب سے دیکھ چکے تھے انہیں معلوم تھا یہ چکروتی فارمولا نہیں بلکہ “چانکیہ” فارمولا ہے جو مسلمانوں کے خلاف سازش ہے،
اس طرح بھارت جب پے در پے شکست سے دو چار ہؤا تو سابق وزیراعظم انجہانی اندرا گاندھی جو چکروتی اور بھارت کے پہلے وزیراعظم جوہر لال نہرو کی طرح فکری اور عملی طور پر “چانکیہ ” کی پیروکار اور عقیدت مند تھیں۔ اس نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے “چانکیہ” کی تعلیمات کی روشنی میں خارجہ پالیسی تیار کی، سازشوں اور خفیہ جنگوں کا طریقہ اپنایا۔ جنوبی ایشیا پر بھارت کا تسلّط قائم کرنے کی خاطر مرکزی خفیہ ادارے کی حیثیت سے ’’را‘‘
(ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ) جیسی ایجنسی قائم کی
جو براہِ راست وزیراعظم کی نگرانی میں کام کرتی ہے،
اس سب کے لیے اندرا گاندھی نے ہندو مفکر “چانکیہ” کی کتاب “ارتھ شاستر”
(علم الاقتصاد) جو تقریباً تین ہزار قبل مسیح کے دوران سنسکرت زبان میں پندرہ حصوں اور ایک سو اسی ابواب پر مشتمل تھی ، انیس سو پندرہ میں اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ شائع ہوا تھا ،،، اور اب لائبریریوں میں موجود “ارتھ شاستر” اردو زبان میں چودہ حصوں میں تقسیم ہے ، اس کتاب کو لکھنے والا “چانکیہ” مکرو ؤ فریب پر مشتمل ایک سازشی نظریات رکھنے والا شخص تھا جو موریا بادشاہ کو ریاست چلانے کے گر سکھایا کرتا تھا “چانکیہ” کے ریاست چلانے کے یوں تو بے شمار اصول ، طریقے اور گر کتاب میں موجود ہیں، جس میں ، ہمسایہ ملک کو دشمن قرار دینا مگر اس دشمن کے ہمسائے کو دوست بنا کر رکھنا ،
“جیسے پاکستان دشمن ہے لیکن پاکستان کے ہمسائے ایران افغانستان دوست ہیں”
اسی طرح چین دشمن ہے تو اس کا ہمسایہ”روس دوست ہے”
اسی طرح کسی بھی ملک پر حملہ کرنے سے پہلے اس کے معاشی، سماجی، اور دفاعی نظام کو کمزور کرنا، ” پھر جب وہ ملک کمزور ہوجائے تو اس پر حملہ کردو “جس پر عمل وہ بنگلہ دیش میں کرچکا ہے”
کسی بھی ملک کی عوام میں خوف ؤ دہشت پھیلانے کے لیے کمیائی اور حیاتیاتی اجزاء کا استعمال ؟ اس کتاب میں انسانوں پر کیمیائی اور حیاتیاتی اجزاء استعمال کرنے کے طور طریقے بتائے گئے ہیں ،کہ کس طرح دشمن ملک کی عوام کی صحت پر بار بار ضرب لگانا ہے ؟ جیسے آج کل کراچی میں ایک نئے قسم کے بخار پر کوئی دوا اثر نہیں کررہی یہ بخار دوبارہ خودبخود جنم لیتا ہے بخار کا یہ جراثیم چودہ ماہ قبل دریافت ہوا تھا جو اب پورے کراچی میں پھیل چکا ہے ہر شہری اس عجیب و غریب بخار کا شکار ہو رہا ہے تمام چھوٹے بڑے ہسپتال اس بخار کے مریضوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں ، کیا یہ “چانکیہ” کے حیاتیاتی اور کیمیائی جنگی اصول کی کاپی نہیں ہے ؟
دشمن کے گھر میں گھس کر وہاں لوگوں کو خریدنا انہیں ریاست اور فوج کے خلاف باغی بنا کر ملک میں افراتفری پیدا کرنا “جیسے بلوچستان میں وہ کررہا ہے اور افواج پاکستان کو آس قدر بدنام کردیا ہے کہ پاکستان ہونے والی ہر دہشت گردی پاکستان کی خفیہ ایجنسی سے جوڑ دیا جاتا ہے ؟ ” اپنے سے زیادہ طاقت ور دشمن پڑوسی ملک کی جنگ اپنے کمزور دشمن ملک کے اندر گھس کر لڑنا
“پاکستان میں چائنیز” پر قاتلانہ حملے “چانکیہ” کے اصولوں کی کڑی ہے”کیونکہ” اندرا گاندھی کے بعد آنے والے تمام بھارتی حکمرانوں نے بھی ” چانکیہ” کے اصولوں کی بنیادوں پر غیراعلانیہ اور خفیہ کارروائیوں کے لیے ’’را‘‘ میں اسپیشل آپریشن برانچ قائم کی ہے جس میں مخصوص قسم کے طیارے ہیلی کاپٹر کیمیائی اور حیاتیاتی لیبارٹری سمیت اور بہت کچھ ’’را‘‘ کے صدر دفتر لودھی اسٹیٹ، نئی دہلی کی گیارہ منزل عمارت میں “چانکیہ” کے طے کردہ اُصولوں طریقوں اور گر کے مطابق کام ہو رہا ہے جہاں “چانکیہ”، کی بہت بڑی تصویر آویزاں ہے ، یہ ہی سبب ہے کہ ’’را‘‘ کے بارے میں مشہور ہے وہ دوسرے ملکوں بالخصوص ہمسایوں کے معاملے میں “چانکیہ” کے طے کردہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ’’را‘‘ کا کردار ہمیشہ بہت اہم رہا ہے۔ چند برسوں کے دوران ’’را‘‘ اِس قدر طاقتور ہوکر اُبھرا ہے کہ اب یہ دوسرے ملکوں کے سیاسی کھیل میں بھی ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ خفیہ ادارے کی حیثیت سے روایتی نوعیت کے فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ’’را‘‘ درج ذیل مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ چھوٹے اور آسانی سے ہدف بن جانے والے پڑوسی ممالک پر بھارت کی بالا دستی قائم کرنا۔ جنوبی ایشیا میں عمومی اور بحر ہند کے خطے میں خصوصی طور پر بھارت کا عسکری، سیاسی اور ثقافتی اثر و رسوخ بڑھانا ، دوستی، تعاون اور اشتراکِ عمل کی آڑ میں دور و نزدیک کی زیادہ سے زیادہ ریاستوں کو اپنے دائرۂ اثر میں لانا،دوستی کا راگ الاپتے ہوئے دُشمنی کو پروان چڑھاتے رہنا۔
اگر ضروری یا ناگزیر ہوجائے تو اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی ریاست پر دباؤ ڈالنے یا اُسے دھمکانے سے بھی گریز نہ کرنا ، دو طرفہ معاملات کی پالیسی پر زیادہ سے زیادہ اِصرار۔ جب اپنی پوزیشن اخلاقی یا قانونی اعتبار سے کمزور ہو تو دیرینہ تنازعات کے حتمی تصفیے میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کرنا ،
کمزور ریاستوں کے سامنے خود کو سپر پاور کی حیثیت سے پیش کرنا، ’’را‘‘ اپنے عمومی اور خصوصی ہر دو طرح کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کیا کر رہا ہے۔
بیرونِ ملک بھارتی سفارتی مشنز میں سفارت کاروں میں ایجنٹس تعینات کرنا تاکہ وہاں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مطلوبہ معلومات حاصل کی جاسکیں۔ دشمن ممالک میں سیاست دانوں، فوجی افسروں، بیورو کریٹس، عام سرکاری ملازمین، دانشوروں، صحافیوں، قانون دانوں، ٹریڈ یونین رہنماؤں، اساتذہ اور فنکاروں کو ایجنٹس کی حیثیت سے پے رول پر رکھنا۔ طے شدہ مقاصد کے حصول کے لیے اعلیٰ تربیت یافتہ خواتین کے ذریعے دشمن ممالک کی اہم شخصیات سے قریبی روابط قائم کرنا اور ضرورت پڑنے پر اُنہیں بہلانے پُھسلانے کے ساتھ ساتھ دھمکانے اور بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہ کرنا۔ جس ملک سے کوئی بڑا مفاد یا چھوٹے چھوٹے کئی مفادات وابستہ ہوں، اُس سے ترغیب و تحریک یا پھر دھمکی اور دباؤ کے ذریعے اپنی مرضی سے معاہدے کرنا۔ دوسرے ممالک کے سِول اور فوجی ملازمین اور افسران کو تربیت کی پیشکش کرنا اور پھر اُن زیر تربیت افراد میں اپنے ایجنٹس مقرر کرنا۔، اسکالر شپس اور مطالعاتی دوروں کے ذریعے دوسرے ممالک کے دانشوروں کی برین واشنگ۔
ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام، فلموں، اخبارات اور جرائد کے ذریعے بھارت کے ثقافتی اثرات کا دائرہ وسیع کرنا۔ ہدف کے طور پر منتخب کیے جانے والے ممالک میں قبائلی، قدیم مقامی اور اقلیتی برادریوں کے درمیان مناقشوں اور تشدد کو ہوا دینا۔
ہدف بنائے جانے والے ممالک میں علیحدگی پسند تحریکیں چلانے کے لیے دہشت گرد اور علیحدگی پسند عناصر کو بھرپور مالیاتی وسائل، ہتھیار اور تربیت فراہم کرنا۔ اور اگر اُن پر مشکل وقت آن پڑے تو اپنے ہاں پناہ بھی دینا۔ کسی بھی منتخب ملک کی حکومت، پارلیمنٹ کے ارکان اور اعلیٰ سرکاری افسران پر اثر و رسوخ استعمال کرکے اُن پر بھارت کی طرف جھکنے کے لیے دباؤ ڈالنا۔ جو لوگ اِس نوعیت کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، اُنہیں مختلف طریقوں سے زیر دام لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
منتخب ممالک میں اپنے ایجنٹس بھرتی کرکے پریشر گروپ بنانا تاکہ جلاؤ گھیراؤ کیا جاسکے، ہڑتالیں کرائی جاسکیں اور معاشی و معاشرتی انتشار پیدا کرکے معاملات کو زیادہ سے زیادہ خراب کیا جاسکے۔
منتخب یعنی ہدف ممالک کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے اور اُن کی عمومی ساکھ اور اُن کے بارے میں پائے جانے والے مثبت تاثر کو داغدار کرنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے غلط، بے بنیاد اور مسخ خبریں پھیلانا۔ قابو میں نہ آنے والی اور کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لانے والی دشمن ممالک کی اہم شخصیات کو قتل کرنا تاکہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاسکیں اور متعلقہ ممالک کے اعلیٰ سرکاری افسران خوفزدہ ہوکر ’’تعاون‘‘ پر آمادہ ہو جائیں ، مخالف سمجھی جانے والی حکومت کو گرانے کے لیے فوجی بغاوت یا سیاسی تحریک کی بھرپور معاونت۔
اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور توانا رکھنے کے لیے پروپیگنڈا مشینری کو بھرپور طور پر متحرک رکھنا۔
’’را‘‘ اپنے قیام کے بعد سے اب تک بھارت کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ “چانکیہ” کے ترتیب دیے ہوئے اُصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ’’را‘‘ نے کمزور پڑوسی ممالک کے خلاف خفیہ جنگیں تواتر سے جاری رکھی ہیں۔ ’’را‘‘ نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کبھی کسی بھی حد تک جانے میں شرم یا جھجھک محسوس نہیں کی اور اپنے اہداف غیر معمولی سَفّاکی کا مظاہرہ کرکے بھی حاصل کیے ہیں۔ مگر ایسا بھی نہیں ؟ ’’را‘‘ میں کہیں کوئی کمزوری نہیں۔ دوسرے خفیہ اداروں اور دیگر اداروں کی طرح ’’را‘‘ کی بھی بہت سی کمزوریاں ہیں اور یہ بھی بعض معاملات میں خاصا ہدف پذیر ہے۔ اِس کے مذموم مقاصد اور طریق کار کا بغور جائزہ لینے سے اِس کے خوں آشام ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے موثر طریقے وضع کیے جاسکتے ہیں اس کے لیے پاکستان کے ہر شہری کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے ،،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *