تحریر ۔ کشف عبیر
دین اسلام انسانیت، عظمت ، روحانیت ، معرفت اور جدت کا بہترین امتزاج ہے ۔ زمانہ جاہلیت اور دقیانوسیت سے انسان کو نکال کر دنیا کا پُرامن اور جدید سسٹم دینے والا مذہب، اسلام ہی ہے۔ لیکن اس وقت میں جو بات کرنے جا رہی ہوں شاید کچھ ناقدین کو میری باتوں پر اعتراض گزرے یا وہ اس وقت کو ایسی باتوں کے لیۓ مناسب موقع محل نہ قرار دیں۔ لیکن میرے مطابق یہی بہترین وقت ہے نہ صرف یہ باتیں کرنے کا بلکہ ان پر کان دھرنے اور عمل پیرا ہونے کا بھی۔ محترم قارئین ! میں خوش نصیب تھی کہ نو عمری میں ہی مجھ پر قرآن کریم کے زریعے دینِ اسلام کی خوبصورتی عیاں ہوئی۔ اس بات سے ہم سب ہی واقف ہیں کہ کامیابی کی جدوجہد کے دوران کئ لوگ مختلف اتارچڑھاؤ کا لازمی سامنا کرتے ہیں۔ بچپن کا المناک دور ایک طرف لیکن پھر عمر کے کچھ زینے چڑھ کر بحثیت ایک لڑکی زندگی میں ایک نہیں بلکہ کئ محاذوں پر تنہا مقابلہ کرتے ہوۓ میں جس ظلم ، تعصب ، بے حسی ،حقوق کی پامالی اور شرانگیزی کا شکار ہوئی وہ سب میرے قریبی مسلمان احباب ہی کی کرم نوازی تھی۔ جب میں قرآن پاک کا ترجمہ پڑھا کرتی تو جو حال کفار اور منافقین کے کرتوتوں کا بیان کیا ہوتا مجھے ان سب کے ہاتھوں بالکل وہی کچھ سہنا پڑا ، اسی لیے نہ چاہتے ہوۓ بھی ذہن میں ان سب کے چہرے گھومنے لگتے جو میری جان ، مال ، عزت اور سکون کے دشمن تھے۔ ان کی ذہنی و عملی پستی دیکھ کر بلکہ سہہ کر میں اکثر یہی سوچا کرتی تھی کہ اسلام اور مسلمانوں میں بہت فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میں فلسطین اور اسرائیل کی موجودہ صورتحال پر آپ سب کے سامنے کوئی روائتی تحریر نہیں پیش کر پائی جو صرف مسلمانوں کے حق میں ہو۔ معزز قارئین ! علم و آگاہی ، فکروتدبر، حسن اخلاق، اعلیٰ تربیت ، یقین کی قوت ، بڑے مقاصد ، نتائج کو سامنے رکھنا ، نظم وضبط( ڈسپلن )، ہر وقت چاک و چوبند رہنا ، مسلسل کوشش کرنا ، مایوس نہ ہونا ، انسانیت کی خدمت کا درس ، يتیموں سے درد مندی، ضرورت مند کی داد رسی، بیمار کا احساس کرنا ہمیں دراصل اسلام یہ سب سکھانے آیا تھا۔ مگر ہم نے کیا سیکھا ؟ کسی کو طاقت اور اختیارات ملے وہ چاہے والدین ہوں یا اساتذہ ، گھر اور اداروں کے سرپرست و مختار ہوں یا پھر ریاست کےحاکم و سربراہان انہوں نے ظلم اور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا سب سے پہلے سیکھا۔ والدین کی بے جا سختی سے تنگ آئی اولاد جب خود صاحب اولاد ہوئی تو اپنے ماضی کی گھٹن مٹانے کے لیے اپنی ہی اولاد کو لاڈ پیار کے نام پر اچھی تربیت سے محرومی کا تحفہ دیا اور انہیں بہترین انسان اور مسلمان بنانے کی بجاۓ خود سر اور منہ زور گھوڑے بنانے کو ترجیج دی۔ والدین نے انہیں بڑوں کی نہیں بلکہ صرف اپنی عزت کرنا سکھایا اور کچھ نے وہ زحمت بھی نہ کی ۔وہ بچوں کو نام نہاد دوستانہ ماحول دینے کے چکر میں بھول ہی بیٹھے کہ انہیں اپنے بچے سے صرف فاصلے کم کرنا تھے تاکہ وہ ان سے ہر بات آسانی سے کر سکے اور خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔ نہ کہ خود کو اپنے معیار سے گرانا تھا۔ والدین نے اساتذہ کا احترام سکھانے کی بجاۓ انہیں یہ درجہ بندی سکھانے پر زیادہ زور رکھا کہ سکول ، کالج کے اساتذہ کو کتنی اہمیت دینا ہے اور ٹیوٹر کو کتنی۔ اس درجہ بندی میں مسلمان والدین نے ہمیشہ سب سے کم درجے پر اگر رکھا تو وہ ہیں قرآن پاک کی تعلیم دینے والے معلم اور معلمہ۔ لیکن ہم بضد ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم ذات پات ، درجہ بندی اور تفرقے کو پسند نہیں کرتے ہاں بس بڑے فخر کے ساتھ اپنے بچوں کی تربیت انہیں گھٹیا اصولوں پر کرتے ہیں ۔ پڑوسی اور محلے دار کے حقوق ادا کرنے سے پہلے ہم انہیں باقاعدہ عملی نمونہ پیش کر کے دکھاتے ہیں کہ یہ جاننا انکے لیۓ از حد ضروری ہے کہ پڑوسی کا اپنا گھر ہے یا وہ کرایہ دار ہے۔ اگر وہ کرایہ دار ہے تو ہمیں اسلام کے عائد کردہ پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت نہیں ، ان حقوق کے صرف وہی حقدار ہیں جن کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی بضد ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ خاندان میں کمزور فریق کی جائیداد ہڑپ کرنے اور یتیموں کا مال کھا کر ہم بیشک ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھیں لیکن ہمارے مسلمان ہونے پر زرہ برابر شبہ نہ کیا جاۓ ۔ نکاح کو مشکل ترین اور زنا کو آسان بنا کر اپنی اولاد کو گناہ کبیرہ میں بال بال ڈبونے کے باوجود ہم سچے اور پکے مسلمان ہیں۔ اور اولادیں سمجھدار ہونے کے بعد بھی اپنے سر زد اعمال سے یوں بری الذمہ دکھائی دیتی ہیں جیسے ان سے اس کی بابت کچھ باز پُرس نہ ہوگی۔ ہم کس منہ سے تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے نعرے لگاتے ہیں؟ کیا ہم آقا خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی دن رات کی محنت کا حق ادا کر رہے ہیں؟جس اسلام کو آپ ﷺ نے تلوار کے زور پر نہیں بلکہ حسن اخلاق سے عالم دنیا میں پھیلایا تھا، کیا ہم اس پر قائم ہیں ؟ ہم کس منہ سے فلسطین پر ہونے والے ظلم و ستم کی بات کرتے ہیں کیا ہم نے اپنے بچوں کو حق و باطل میں فرق سکھایا ۔حقوق العباد کیا ہیں انکی اہمیت کیا ہے یہ الفاظ انہوں نے کتابوں میں تو ضرور پڑھے ہونگے لیکن کیا ہم یہ دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو حقوق العباد ادا کرنا سکھایا بھی ہے۔ نہیں ، بلکہ ہم نے تو انہیں باقاعدہ کفار کی تعلیم دی کہ جو کمزور ہو اس پر چڑھ دوڑو اور جو طاقت ور ہو وہ بھلے غلط ہو اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دو ، منہ سی لو ۔ ہم نے انہیں سوشل میڈیا کی نذر کر کے ہر معاملے پر محض ڈی پی اور سٹیٹس لگانے کی لائن میں لا کھڑا کیا ہے ۔ لیکن ابھی اگر کوئی اخلاقی تقاضا درپیش ہوا تو وه سب سے پہلے جو بات اٹھا کر بالاۓ طاق رکھیں گے وہ یہی ہوگی کہ ہم مسلمان ہیں۔ انھیں بس اتنا یاد رہے گا کہ ان کے پاس کتنی طاقت ہے ، کتنے اختیارات ہیں اور وه ان کا کتنا ناجائز استعمال کر کے دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں، کتنا گر سکتے ہیں اور کتنی سفاکی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم کفار سے کیا گلہ کریں ۔۔ ہمارے اپنے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کا جھول معاشرے کے بے ضرر لوگوں پر کیسے قہر بن کر ٹوٹتا ہے اس سے صرف عقل کے اندھے ہی غافل رہ سکتے ہیں اہل شعور اور خاندانی لوگ نہیں۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ اکثریت عقل کی اندھی ہی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو اس کی مخالفت حتی کہ اسکا مقابلہ اور خاتمہ ہم سب مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے لیکن ہمارے اپنے، اپنوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں اس کو نظر انداز کر دینا بذات خود ایک ظلم ہے۔ جس کا مسکن ہمارا گھر اور یہ معاشرہ ہے۔ ہم مسلمان اہل بصارت ہیں لیکن اہل بصیرت نہیں رہے۔ ہمیں کھلی آنکھوں سے بھی نہیں دکھتا کہ کفر کا نظام چل نہیں بلکہ دوڈ رہا ہے لیکن یہاں کوئی نظام چل کر ہی نہیں دیتا کیونکہ یہ ظلم کا نظام ہے۔
بقول مولا علی کرم اللّه وجہہ:
“کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں”۔ ہم نے کفار کے جھنڈے پاؤں تلے رکھ کر تصویر بنانے سے قبل اسلام کو اپنے اور اپنی اولاد کے ماتھے پر سجانا تھا، ہم نے ان کی سیرت ، شعور اور شخصیت کو اسلام کے مطابق ڈھالنا تھا اور ظلم و گمراہی کے راستوں کو بند کرنا تھا لیکن وہ تو ہم بھول گئے۔ ہم نوجوانوں کو میدان جنگ میں اترنے کے لیۓ جوش تو دلائیں لیکن میدان جنگ میں ثابت قدم کیسے رہنا ہے ، ذہنی و جسمانی صلاحیت کو بیک وقت کیسے استعمال کر کے ٹکے رہنا ہے یہ کس نے سکھانا ہے۔ کسی اور کو انجام نظر آۓ یا نہیں لیکن میں بخوبی دیکھ سکتی ہوں کہ ہمارا جو حال دورِ امن کے میدان عمل میں ہے وہی میدان جنگ میں بھی ہوگا۔ جس طرف منہ کرو لوگ ناچ گانے ، خرافات اور عورت کی بے جا آزادی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن منافقت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ انہیں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہوتا ہے۔ لڑکا سڑک پر ڈانس کرلے یا لڑکی نازیبا لباس پہن کر بس زرا چار قدم ہی چل لے لوگوں کا ان کلپس پر مجمع لگ جاتا ہے ، کیوں ؟ کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن خدا جانے ہم ایک ہاتھ سے سینہ کوبی اور دوسرے ہاتھ سے ظلم کی مدد کرنا کب چھوڑیں گے۔ ہم نے اپنے بچوں کے ذہنوں میں دو ٹکے کے شوق اور دوٹکے کی دشمنیاں بھر کر ان کی انرجی کو راکھ کر دیا ہے اور یاد رکھیں ہوائیں کبھی چلنے سے پہلے اپنے رخ کی اطلاع نہیں دیا کرتیں ، ان ہواؤں کا رخ آپ کی جانب ہوا تو سب سے پہلے یہی راکھ اُڑ کر آپ کی آنکھوں میں پڑے گی۔ نامساعد حالات اور جنگوں کی تیاری ہمیشہ امن کے دور میں کی جاتی ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو “ابھی بچہ ہے بڑا ہوکر خود ہی ٹھیک ہو جاۓ گا” کہہ کر ان کا جو رشتہ اسلام ، ایمان ، قرآن ، احساس ، اخلاق ، انسانیت ، بڑی سوچ اور بڑے مقاصد سے توڑا ہے وہ راتوں رات نہیں ہوا ، لہذا یہ تعلق راتوں رات جڑے گا بھی نہیں۔ ہر چیز کا حل ایٹمی ہتھیاروں میں نہیں۔ جنگیں تعداد اور ہتھیار سے زیادہ جذبہ ایمانی کے بل بوتے پر جیتی جاتی ہیں۔ جو کہ ایک خاص تربیت کے تحت پیدا کیا جاتا ہے۔ بالکل جیسے یہ دنیا آخرت کی تیاری کی مہلت کا نام ہے ، کیا اس تیاری کے بغیر ہم آخرت کو فیس کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ آخرت چھوڑیں ہم اس دنیا جو کہ آخرت کے مقابلے میں ادنیٰ قرار دی گئ ہے ، اسے نہیں جھیل پا رہے۔ ایسی تربیت کے ساتھ جب ریاست پر کڑا وقت آتا ہے تو عوام میں جذبہ قربانی نہیں بلکہ ” بے بسی یا بےحسی ” میں سے کوئی ایک عنصر لازمی غالب آجاتا ہے ، حکمران بھی حق کے سامنے سینہ سپر ہونے کی بجاۓ رعایا کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دنیاوی اور بوگس مفادات کی راہ میں ان کی بلی چڑھا دیا کرتے ہیں اور بالآخر کسی سفاک قوم کے ہاتھوں ظاہری یا مخفی طور پر مغلوب و محکوم بن جاتے ہیں۔ حقائق تلخ ہی صحیح لیکن ہمیں ماننا ہوگا کہ اسلام اور مسلمانوں میں بہت فرق ہے۔ لیکن وقت ابھی بھی ہے ۔ اب عالم اسلام اس نازک دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں جنگ انسان اور شیطان کے درمیان زور پکڑ چکی ہے۔ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو ہمارے گھروں میں اولادیں نہیں دجال کے آلہٴ کار پروان چڑھیں گے لیکن کیا وہ خود اس بات کے قصور وار ہونگے ہرگز نہیں ، قصور وار ہم ہیں جنھوں نے انہیں اسلام اور نیک تربیت سے دور رکھا۔ آج اگر غور کریں تو ہر ایک اپنے دائرۀ قدرت میں فرعون بنا بیٹھا ہے جبکہ عاقبت موسیٰ والی چاہتا ہے۔ ہم نے یہ سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ اگر تربیت بہترین ہو تو فرعون کے محل سے بھی موسی علیہ السلام پروان چڑھ کر نکلتے ہیں ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہماری تو مساجد اور نام نہاد اسلامی گھرانوں سے بھی فرعون پل پل کر باہر آ رہے ہیں۔ کسی بھی قوم کی بنیاد اور اسکی بقاء کے ضامن اس قوم کے بچے اور نوجوان ہوتے ہیں۔ انہیں صرف اپنی اولادیں اور شاگرد نہ سمجھیں اس سے پہلے وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ انہیں صرف اپنے خودساختہ مسالک اور فرقوں سے جوڑیں بلکہ اسلام اور قرآن کی حقیقی تعلیم سے جوڑیں ، ان کا تعلق انسانیت ، اخلاق اور احساس سے مضبوط کریں۔ تعلیم کو اگر تربیت سے جدا کر دیا جاۓ تو وہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جسم بنا روح کے ۔ بہترین تربیت ان بچوں کا حق ہے۔ انہیں ایک مخصوص مدت تک آپ کی رعیت میں دیا گیا ہے اور انہیں روز محشر اپنے ہر ایک عمل کا حساب دینا ہوگا بالکل ایسے ہی جیسے آپ کو ۔۔۔۔ !