(ترتیب)
(نظام الدین)
عرب خلیجی ریاستوں کے نظام کفالت پر بنائی گئی بھارتی نیٹ فلیکس فلم(دی گوٹ لائف) یعنی”حیاہ الما عز”جس کی کہانی کچھ حد تک پاکستان میں لکھے گئے کالم
“سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل”سے مماثلت رکھتی ہے ؟
جو اتور 29 جولائی 2012 کو روزنامہ “امن” اخبار میں شائع ہوئی تھی وہ اخبار گوگل پر موجود ہے،،،
بعد میں اس کہانی کو ایک عربی اخبار “مال” نے بھی شائع کیا تھا ، یہ کہانی ایک پاکستانی لکھاری اور اس کے بیٹے کے گرد۔ گھومتی ہے جس کا بیٹا اپنے خاندان سے دور عرب کے ریگستان میں زندگی گزارنے پر مجبور تھا؟ ” تب” دوسری طرف اس کا والد پاکستان میں اس کی وطن واپسی کے لیے مسلسل جدوجہد کررہا تھا؟ یہ کہانی صرف اس کے بیٹے کی ہی نہیں تھی؟ بلکہ ہزاروں پاکستانی جو اپنے ملک کے حالات غربت ، مہنگائی، بے روزگاری دھشگردی جیسے ماحول سے دل برداشتہ ہوکر اپنے والدین کی زندگی بھر کی کمائی قیمتی اشیاء اور یہاں تک کہ قرض لے کر بیرون ملک ملازمت پر جانے والوں کی بھی تھی، جن میں اکثریت کا بیرونے ملک سفر ان کی زندگی کا پہلا تجربہ ہوتا ہے ؛؛ بیرونے ملک پہنچتے ہی ان کی آنکھوں سے پردے ہتنا شروع ہو جاتے ہیں ، جب اپنے ہی ہاتھوں اپنا پاسپورٹ بیرونے ملک خاص کر عرب ممالک کے ائیرپورٹ پر کمپنی کے ( پی ار او) کو دیا جاتا ہے ، پاسپورٹ ایسے وقت میں ضبط ہوتا ہے جب وہ اس ملک کے جغرافیہ محل وقوع ماحول حالات اور زبان سے بے خبر ہوتے ہیں ، کمپنی کے
(پی ار او) کو پاسپورٹ حوالے کرتے وقت تو اس بات کا قطعاَ علم نہیں ہوتا کہ کتنی بڑی اور سنگین غلطی ہو رہی ہے ، لیکن وقت آنے پر پاسپورٹ کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جاتا ہے ، “راقم الحروف”کو اس کا تجربہ اس وقت ہوا جب میرا بیٹا سلمان ریفریجریٹر اینڈ ایرکنڈیشن کا ڈپلومہ کرنے کے بعد گھر والوں کے لیے خوشیاں تلاش کرنے سلیم ریکروٹمنٹ ایجنسی کی معروف دمام کے لیے روانہ ہوا تو وطن سے رخصت ہوتے وفت نکلنے والے انسون کا خلاء تو بہرحال کسی صورت میں پر ہوگیا کیونکہ اس وقت دوسری طرف رونے والی آنکھیں والدین اور بہن بھائیوں کی بھی تھیں ، جس کی وجہ سے غم تقسیم ہو کر مختلف دلوں میں پیوست ہوتا گیا ، لیکن ان آنسوں کو لفظوں میں قطعی بیاں نہیں کیا جا سکتا جب وطن سے دور مان کی بیماری کا پتہ چلنے کے بعد بھی کمپنی سے پاسپورٹ نہیں ملتا ، اور پردیش میں رونے والی آنکھوں کے آنسوں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ جس کمپنی نے پاکستان میں اس سے کام کا معاہدہ کیا تھا اس کمپنی نے اسے دوسری کمپنی کے حوالے کردیا اور وہ کمپنی اسے دمام سےخلیج فارس کے کنارے واقع مشرقی صوبے الخبور لے گئی ہے ؟ جہاں بے بسی کا شکار پردیش میں میرا بیٹا ہی نہیں وطن سے دور لاتعداد بیٹے زندہ لاش کی طرح ایک کے بعد دوسری کمپنیوں کی کفالت میں جانے پر مجبور ہیں ، اور وہاں ان سے وہ کام بھی نہیں لیا جاتا جس کا معاہدہ وطن عزیز میں کیا گیا تھا؟ بلکہ بیابان ریگستان میں 50 سینٹی گریڈ گرم صحرا میں کنٹینرز میں رہتے ہوئے اپنے دکھ کا اظہار کسی سے کر بھی نہیں سکتے ؟ کیونکہ کفیل اردو سمجھتا نہیں پاکستانی عربی بول نہیں سکتے ؟
جبک وہاں موجود پاکستان کے سفارت خانے میں کمیونٹی ویلفیر کے افسران جن کا کام ہی صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ وہاں موجود اپنے ملک کے ہر فرد کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور نا انصافیوں کا جائزہ لےکر ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں لیکن بدقسمتی سے ان کا رویہ اپنے ملک کے باشندوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ کسی دشمن ملک کے باشندے ہوں میرے بیٹے اور دوسرے ہم وطنوں نے ٹیلیفون پر وہاں کی زیادتیوں ناانصافیوں کو رو رو کر بیان کیا تو ان کے درد کو محسوس کر تے ہوئے وہاں کے مسائل کو اجاگر کرنا اپنی ذمہ داری سمجھا اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کر دی
” تب حقیقت شامنے ائی کہ سمندر پار جانے والے پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور ناانصافیوں کا ذمہ دار وہاں کی حکومت یا کفیل کو ہی ٹھہرانا ناانصافی کے منافی ہے کیونکہ ؟ اس میں ہمارے ملک کے اداروں کا کردار نہایت بھیانک ہے ،
جو پاکستان میں موجود ریکورئمنٹ ایجنسیوں اور انسانی اسمگلروں کے غیر قانونی معاملات سے لاتعلق رہتے ہیں کیونکہ ان ریکوارئمنٹ ایجنٹوں اور انسانی اسمگلروں کا نیٹورک مکڑیوں کے جال کی طرح پاکستان سے لے کر بیرون ملک سفارت خانوں تک پھیلا ہوتا ہے اس کا ادراک مجھے اس وقت ہوا جب میں اپنے بیٹے کی وطن واپسی کے لیے سب سے پہلے اس ریکروٹمنٹ ایجنسی کےآفس گیا جس سے میرا بیٹا دمام گیا تھا وہاں سے جب کوئی معلومات نہیں ملی تو وزیر سمندر پار پاکستانی جناب فاروق ستار سے ملاقات کرکے سلمان کی وطن واپسی اور دیگر افراد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر توجہ مرکوز کرائی مگر وہ بہت مصروف ہونے کی وجہ سے ان مسائل کے لیے وقت نہیں نکال سکے ؟
پھر میں نے (ایف آئی اے) سے رابط کیا مگر بات آگے بڑھ نہیں سکی ؟؟ پھر تمام عرب ریاستوں کے سفارت خانوں کو خط لکھ کر وہاں پاکستانیوں پر ہونے والی ناانصافیوں کا بتایا ؟
” تب” حقیقت شامنے ائی کہ پاکستان میں ریکروٹمنٹ ایجنسیاں مقامی افراد سے معاہدہ کچھ اور کرتیں ہیں اور بیرون ملک انے کے بعد کچھ اور معاہدہ ہوتا ہے؟ جو مکمل طور پر خلیجی ممالک کے لیبر قوانین کی شقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں کے قانون کے تحت مرتب کیا جاتا ہے ،
جبک پاکستان میں یہاں کے قوانین کے مطابق لیبر سے معاہدہ طے ہوتا ہے ،
جبک سعودی عرب کے خلیجی ممالک کی وزارت محنت کی جانب سے تقریباً ہر سال بنائی گئی لیبر گائیڈ تمام ممالک کو پہنچائی جاتی ہے ، لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا ؟
غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی فرد جب کمپنی سے پاسپورٹ طلب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کمپنی میں موجود ایجنٹ اسے پاکستان میں ریکروٹمنٹ ایجنسی سے رابطہ کرنے کا کہتا ہے اور جب اس فرد کے گھر والے اس ایجنسی سے اپنے پیارے کی واپسی کی بات کرتے ہیں تو وہ اس کی واپسی کے لیے لمبی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور رقم نہ دی جائے تو بیرون ملک پاسپورٹ واپس نہیں ملتا،
یاد رہے کہ اس وقت سعودی عرب کی ریاستوں میں ایک کروڑ غیر ملکی کارکنان کفالہ نظام کے تحت کام کر رہے ہیں۔ کفالہ کے نظام کا اطلاق خلیجی ممالک میں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں پر ہوتا ہے۔ اس کے تحت کسی بھی خلیجی ملک میں کام کرنے کے لیے کارکن کے لیے ایک کفیل یا سپانسر کا ہونا ضروری ہے جو اس کے رہائش اور ملازمت کے معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اپنی ملازمت کے آغاز میں کارکن اپنا پاسپورٹ اور تمام تر شناختی دستاویزات اپنے کفیل کے پاس جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے۔ اس نظام کا اطلاق مقامی عرب آبادی کے گھروں میں کام کرنے والے ذاتی ملازمین سے لے کر بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔
کفالہ کے نظام کے تحت کفیل یا اسپانسر کارکنوں کی بھرتی کے لیے ان کے اپنے ملکوں میں کام کرنے والی ریکروٹمنٹ کمپنیوں کو فیس اور خلیجی ملک سفر کے لیے کرایہ ادا کرتا ہے۔ خلیجی ملک میں آمد کے بعد کفیل اپنے ماتحت کام کرنے والے کارکنوں کی تمام معاشی اور قانونی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اگرچہ کارکن کے ویزے کا
اسٹیٹس اپنے کفیل کے ساتھ منسلک ہوتا ہے لیکن تمام معاملات میں وہ ریکروٹمنٹ ایجنسی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا پابند ہوتا ہے۔ اگر کارکن اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے اور یہ ثابت ہو جائے کہ کفیل اس کا ذمہ دار نہیں ہے تو کارکن کو ریکروٹمنٹ فیس ادا کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ کارکن اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر اپنی ملازمت تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر ملک چھوڑ سکتا ہے۔
بحرین، کویت، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اومان میں کام کرنے والے کارکن اس نظام سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کفالہ نظام کے تحت بعض کفیل اپنے کارکنوں سے غلاموں جیسے سلوک کرتے ہیں اور غیر ملکی کارکنوں میں کفیلوں کے خلاف شکایات عام سننے میں آتی ہیں۔
کفیلوں کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں میں تنخواہ کا وقت پر ادا نہ کیا جانا، گالی گلوچ، مارپیٹ اور کارکنوں پر لگائی جانے والی ناجائز پابندیاں قابلِ ذکر ہیں۔
کفالہ کے نظام کے تحت سب سے زیادہ پیچیدگیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کارکن اپنے کفیل کو بتائے بغیر کام سے غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں کارکن کی حیثیت ایک مجرم کی سی ہوتی ہے اور پولیس سمیت تمام سرکاری اداروں سے چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
انھیں اکثر خلیجی ممالک کے عدالتی نظام سے بروقت انصاف نہیں ملتا باوجود اس کے کہ وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور کفیل نے ان سے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
کارکن کو عدالتی کارروائی کے دوران کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اگر وہ غیر قانونی طور پر چوری چھپے کام کریں تو ان کی پوزیشن مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے، پاکستانی حکومت کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے ان ریکروٹمنٹ ایجنسیوں کے وسیع نیٹورک کو روکنے کے لیے نام نہاد غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک بھیجنے والی ایجنسیوں کے لائسنس ضبط کرکے انہیں سزا دی جائے انسانی جان ؤ مال سے کھیلنے والے وطن عزیز کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں,
عرب ریاستیں بھی اپنے ملک میں رائج غیر ملکی ملازمین کے کفالت کے نظام کو تبدیل کریں اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل پر کالم لکھے جاتے رہیں اور
” حیاہ الما عز” جیسی فلمیں تخلیق پاتی رہیں گی ؟ اور سعودی عرب کی ریاستیں اپنی صفائیاں دنیا میں پیش کرتے رہیں گے ،،،