تحریر: محمد الطاف ڈاہر
کائنات کا خوبصورت جہاں خالق حقیقی رب العزت کے حکم سے چل رہا ہے۔مگر اس جہاں کی سب سےزیادہ علمی،روحانی، اخلاقی،تربیتی،سماجی اور سیاسی اقدار سکھانے والی اور مثبت صلاحیتوں سےفیض دینے والی ہستی ہمیشہ استاد رہی ہے۔حدیث مبارکہ ” بےشک مجھے معلم استاد بنا کر بھیجا گیا ہے”۔تمام برگزیدہ انبیاء کرام علیہم السلام اجمعین اور نیک لوگ سبھی استاد تھے۔استاد سوسائٹی، ملک و قوم کی حقیقی معنوں میں تعمیر نو کرتاہے۔پتھر سے مورتی بنانے کا کمال ہنر صرف اعلی ترین مہذب استاد کے پاس ہوتا ہے۔اعلی کلاسک اقدار اور مثبت سوچ سے ہمیشہ استاد کو دنیا پرامن کامیاب شخصیت مانتی ہے۔فرش سے عرش تک تمام روشن راز استاد ہی کی بدولت ممکن ہیں۔حضرت مولا علی علیہ السلام نے فرمایا ” جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا پڑھایا گویا وہ میرا استاد ، میرا آقا میں اس کا غلام ہوں”۔ دنیا کے تمام کامیاب ہستیوں کے پیچھے استاد مرشد کامل کریم کا ہاتھ ہوتا ہے۔ امن ومحبت،رودادی،ایمانداری،جرات، نیک نیتی،دلیری، سچائی،راست بازی،ہر وقت فکری و تربیتی پختگی معاشرے کی اصلاح، خوشحالی و ترقی ہر عام و خاص کو صرف صلاحیتوں کی بنیاد پر ،عدل و انصاف کا پرچار، نیکی و ادب کا پیغام ہی استاد کا اپنے طلباء وطالبات تک پہنچانا اصل مشن ہوتاہے۔اندھیروں میں حقیقی مشعل راہ ثابت ہونا استاد کا کمال اتم رتبہ ہے۔ایسی ہی نایاب ہستی مجھے 31مئی 2019ء کو گورنمنٹ صادق عباس گرائجوئٹ کالج ڈیرہ نواب صاحب احمد پور شرقیہ میں ملی۔نرم مزاج، خوش اخلاق، ایماندار، محقق، نقاد اورکالج کے ٹیچنگ ونان ٹیچنگ سٹاف کےدکھ درد میں شامل ہونی والی اور ہردل عزیز بردبار شخصیت صدرشعبہ پولیٹیکل سائنس ایسوسی ایٹ پروفیسر مخدوم سید خالد مرتضٰی شاہ بخاری تھی۔تصوف کی حد کمال ہستیوں کو اپنے استاد و مرشد کامل کی بدولت روحانیت میں اعلی مقام و مرتبہ نصیب ہوا ہے۔پروفیسر مخدوم سید خالد مرتضٰی شاہ بخاری سرائیکی وسیب کی عالمگیر روحانی ہستی حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سرائیکی سید بخاری گھرانے میں یکم جولائی 1964ء کو حضرت مخدوم سید غلام مرتضٰی شاہ بخاری کے گھر احمدپورشرقیہ میں پیدا ہوئے۔روحانی فیض والد بزرگوار سے حاصل کیا۔ابتدائی تعلیم سے بی اے تک اعلی تعلیم وتربیت اپنے شہر کے مادری علمی اداروں سے حاصل کی۔1980ء میں گورنمنٹ صادق عباس گرائجوئٹ کالج ڈیرہ نواب صاحب میں بہاولپور تعلیمی بورڈ میں آور آل سکینڈ پوزیشن آرٹس گروپ لے کر کالج کی آن شان میں اضافہ کا باعث بنے۔پی پی ایس سی مقابلے کے امتحانات میں بطور لیکچرر سیاسیات 20 دسمبر 1989ء میں گورنمنٹ انٹر کالج منچن آباد ضلع بہاول نگر پہلی پوسٹنگ جوائننگ دی۔پھر گورنمنٹ ٹی ٹی کالج خان پور میں1990سے 1996ء تک تدریسی خدمات سرانجام دیں۔پھر جہاں پڑھتے رہے وہیں بطور لیکچرار 1996 سے 2010ء تک پڑھایا۔بطور اسسٹنٹ پروفیسر پولیٹیکل سائنس گورنمنٹ شمس الدین گیلانی کالج اوچ شریف تدریسی، تعلیمی و تربیتی فرائض سرانجام دیئے۔31 مئی 2018 سے 30 جون 2024ء تک اپنے تدریسی عہد کا اختتام بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر کیا۔20گریڈ پروموشن کیس رواں سال شروع میں بھیجا گیا مگر ریٹائرمنٹ آڑے آگئی۔سادہ طبیعت خوش اخلاق خوبیوں کے مالک استاد کو گورنمنٹ آف پنجاب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف 2005ء میں بیسٹ ٹیچر کا ایوارڈ بھی نوازا گیا۔میں کالج میں ہر وقت ان سے تدریسی تربیت و تجربہ سیکھتا رہا۔صبح ہر روز کالج ان کے ساتھ جاتا اور واپسی بھی ان کے ساتھ ہوتی۔روحانیت سے سیاسیات تک ہر موضوع پر ماحاصل گفتگو ہوتی۔کالج ہر فنکشن چاہے وہ عیدالمیلاد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ والسلام میلاد کی محفل ہو،14 اگست یوم آزادی ہو یا یوم دفاع، یوم پاکستان 23 مارچ ہو، 21 فروری مادر لینگویج ڈے ہو یا کوئی فئیر ویل پارٹی ہو یا کوئی سیمنار ہو،سٹوڈنٹس کے ساتھ میٹنگ ہو یا والدین کے ساتھ اجلاس،
شجرکاری مہم ہو یا کالج اساتذہ کرام کے حقوق کے تحفظ کی بات ہو، سرائیکی کلچرل ڈے 6 مارچ ہو،گویا کالج تقریب و فنکشن میں میں ان کے ساتھ رہتا۔ہمیشہ اعلی اخلاقی اقدار کا درس دیتے۔کالج کی تعمیر نو اور ترقی کے لئے ہمیشہ ایمانداری اور فرض شناسی سے کام کرتے۔حب وطنی اور سرائیکی وسیبی تہذیب وتمدن اور ثقافت کا بہترین نمونہ۔نفرت ،ملاوٹ، بد دیانتی پرابلم کریکٹر سازشی عناصر سے شدید نفرت کی۔ہمیشہ یہی درس دیا کہ استاد ہمیشہ مثبت خوبیوں اور ثبات کا مالک ہوتاہے۔دوستوں، رشتہ داروں،کمیونٹی اور ملک و قوم کی معاشی خوشحالی و ترقی میں رخنہ ڈالنے والے اور منفی سرگرمیوں کا فروغ دینے والے ہمیشہ سماج ، ملک و قوم کے سخت دشمن ہوتےہیں۔اچھے مثالی کردار کے حامل ٹیچرز ہمیشہ نوجوان نسل کے لئے حقیقی رول ماڈل ہوتےہیں۔ہمیشہ ایسی پر امن شخصیت کو باعزت اور شایان شان انداز سے پروقار طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے۔ان کے ساتھ میرا بیتا ہر لمحہ یادگار کے طور پر میری میموری کا حصہ رہے گا۔میری دلی مبارکباد اور دلی دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی۔آپ تدریسی مدت ملازمت مکمل کرکے 30 جون 2024ء کو ریٹائر ہوگئےتھے۔ ان کی الوداعی تقریب پذیرائی7 ستمبر کو بار بی کیو ٹو نائٹ ہوٹل بہاولپور میں شاندار پروقار انداز میں منعقد کی گئی۔اس موقع پروائس پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سیف اللہ جامعی،پروفیسر شاہد حسین مغل،صدرشعبہ سرائیکی و صدر پپلا پروفیسر محمد الطاف ڈاھر،پروفیسر محمد فیصل،پروفیسر رب نواز شاہ، پروفیسر محمد رضوان،پروفیسر سجاد علی،پروفیسر ملک حبیب الرحمن،پروفیسر راشد رسول بلوچ،پروفیسر عمران صارم، پروفیسر ملک اعجاز الحق، پروفیسر عبدالرحمن عزمی، پروفیسر زاہد عزیز بلوچ ،پروفیسر ڈاکٹر ارشاد احمد اعوان، پروفیسر حسنین رمضان،پروفیسر عدنان رشید کے ساتھ نان ٹیچنگ سٹاف نے پروفیسر خالد مرتضٰی شاہ بخاری کو شاندار تاریخی ریٹائرمنٹ پر پھولوں کے ہار اور مالا پہناتے ہوئے دلی مبارکباد کےساتھ زبردست خراج تحسین پیش کیا۔مقررین نے کہا کہ آپ کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔آخر میں پرتکلف ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا۔تقریب کے اختتام پر آپ کو تدریسی و علمی خدمات پر پرنسپل کالج و معزز اساتذہ کرام کی طرف یادگاری شیلڈ سوئینر پیش کرنا دراصل استاد محترم کی علمی قابلیت کا اعتراف ہے۔ہمیشہ عظیم الشان استاد درسگاہ میں بھی اور معاشرے میں بھی اعلی کردار سے ہر ایک کے دل پر راج کرتاہے۔سکندر مقدونی نے اپنے استاد ارسطو کے بارے میں تاریخی الفاظ رقم کیے تھے کہ مجھ سمیت سینکڑوں شاگرد استاد ارسطو پر قربان کیوں کہ ایک ارسطو جیسا استاد سینکڑوں سکندر اعظم مقدونی پیدا کرسکتا ہے مگر سینکڑوں شاگرد ارسطو پیدا نہیں کرسکتے۔جن قوموں نے اپنے اساتذہ کرام کی خدمات کوخراج عقیدت و سلام پیش کیا اور ان کی تعلیمات پر عمل کیا ہمیشہ دنیا پر راج کیا ہے۔ہمیشہ اعلی اقدار کے اساتذہ کرام کا تذکرہ نئی نسل کے لئے امید اور کامیاب زندگی گزارنے کا سلیقہ ہوا کرتا ہے۔