پاکستان میں سیلاب کی وجوہات

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو یا تو خشک سالی اور پانی کی کمی کا شکار ہوتا ہے یا آسمان سے اتنا پانی برستا ہے کہ بستیاں ڈوب جاتی ہیں ‘ کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور دریائوں اور نہروں کے آس پاس رہنے والے غریب لوگوں کی کل متاع‘ جس میں گھریلو سامان کے علاوہ مال مویشی بھی شامل ہوتے ہیں‘ پانی میں بہہ جاتی ہے۔ پانچ دریائوں کی سرزمین‘ جس کی خوشحالی کا ذکر دو ہزار قبل مسیح کے زمانے میں فرعون کے دربار میں بھی کیا جاتا تھا‘ کبھی یہ منظر پیش کرتی ہے کہ اس کے میلوں پاٹ والے دریائوں میں خشک ریت کے انباروں کے درمیان پانی کی ایک پتلی سی لکیر نظر آتی ہے جس کے اردگرد آبی پرندے مچھلیوں کی تلاش میں یا لاغر مویشی پیاس بجھانے کی کوشش میں منڈلا رہے ہوتے ہیں‘ اور کبھی سیلاب کا پانی کناروں سے ابل کر ایک وسیع سمندر کا نقشہ پیش کرتا ہے۔دونوں صورتیں فطرت کی عطا کردہ ہیں جنہیں قدرتی آفات کا نام دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں سیلاب کا آنا اب تقریبا ہر سال کا معمول بن چکا ہے۔ جب بھی بارشوں کا سلسلہ طویل ہو یا کوئی طوفانی بارش ہو اگلے دن کے اخبارات لوگوں کے مرنے کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں حالانکہ دنیا میں سنگاپور جیسے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں بلاناغہ بارش ہوتی ہے لیکن وہاں اس طرح اموات نہیں ہوتیں جس طرح پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بارش اور سیلاب کے نقصانات سے بچنے کے لیے پیشگی اقدام کرنے کی بجائے انہیں آفاقی آفات قرار دے کر جان چھڑائی جاتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں چار موسم پائے جاتے ہیں اور ہر سال مون سون کے موسم میں پاکستان میں شدید بارشیں بھی ہوتی ہیں جو سلاب کا سبب بنتی ہیں۔ یہاں پر منگلہ ڈیم اور تربیلا ڈیم بننے سے قبل جہلم اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سیلاب کا آنا معمول تھا لیکن ان دو ڈیموں کی تعمیر نے ایک تو سیلاب جیسی آفت کو کنٹرول میں کیا ہے بلکہ ملک کو بجلی فراہم کرنے والے دو بڑے ذرائع بھی مہیا کیے۔ ذرا سوچیے اگر یہ دو ڈیم بھی پاکستان میں نہ ہوتے پاکستان میں سیلاب کی صورتحال کیا ہوتی اور اس کے علاوہ ملک میں بجلی کی جو تھوڑی بہت پیداوار ہے وہ کہاں پر ہوتی۔ اس لیے ہر سال کے سیلاب سے بچنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے۔ دنیا کا کوئی حصہ قدرتی آفات سے محفوظ نہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جہاں کہیں قوموں نے ان کے خلاف منصوبہ بندی کی ‘ماضی کی غلطیوں اورتجربوں سے سبق سیکھا اور پورے خلوص ‘ تندہی اور توجہ کے ساتھ ان آفات کو روکنے یا ان کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی‘وہاں انسانی اور مالی نقصان کم ہوا۔اور جہاں منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ‘حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام کی سلامتی کی بجائے اپنی آسائشیں اور تن آسانی اولین حیثیت رکھتی ہو‘ وہاں قدرتی آفات کے ہاتھوں نقصان کی صورت حال وہ ہے ‘جو آج کل سیلاب کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
ماضی میں آنے والے سیلاب کے ہاتھوں ہونے والے نقصانات‘ہماری سیاسی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھے۔ ان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا اور پیشگی اقدامات کر کے موجودہ نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے قومی پالیسیوں میں تواتر کا پہلو غائب رہا ہے۔ کوئی حکومت خصوصاً کوئی بھی سویلین حکومت اس اہم مسئلے کے حل کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی نہ کر سکی۔ نہ ہی حکومتیں مناسب پالیسیاں وضع کر سکیں‘ کیونکہ ہر حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ ان میں افغانستان‘بلوچستان میں بدامنی اور فاٹا میں طالبان دہشت گردی جیسے مسائل خاص طور پر قابل ذکر ہیں
پاکستان میں ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے‘ کسی حکومت نے اس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔اس طرح سیلاب کو روکنے کے لیے جو قدرتی رکاوٹیں کام آ سکتی تھیں ‘ وہ ختم ہو گئیں۔ان میں درخت اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اگر چار پانچ سال سیلاب کے بغیر گزر جائیں تو اس اثناء میں دریائی علاقوں میں تجاوزات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔دریا کے عین وسط میں فصلیں اگائی جاتی ہیں۔مویشیوں کے باڑے قائم کئے جاتے ہیں اور انسانی بستیاں بسائی جاتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ان بستیوں ، باڑوں اور فصلوں کو ہٹانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی‘ بلکہ امیدوار انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان غیر قانونی اور انتہائی خطرناک مقامات پر کھڑی کی گئی کچی آبادیوں کو گیس اوربجلی کے کنکشن مہیا کرتے ہیں۔سیلاب کے دنوں میں ان بستیوں کی وجہ سے نہ صرف جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے‘بلکہ سیلاب کی روک تھام کے لیے کئے جانے والے اقدامات کے راستے میں رکاوٹیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔
سیلاب سے بچاؤ کے طریقے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری احتیاطی اقدامات تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے کمزور طبقے مثلاً عورتوں‘ بچوں اور معذور لوگوں کی مدد کے لیے جو حفاظتی اقدامات ضروری ہیں‘ ان کا اہتمام اور ان سے آگاہی ایک باقاعدہ مہم کا حصہ ہونا چاہیے۔ سیلاب کی طرح قوم کو جب بھی قدرتی آفات کی صورت میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے‘ تو ہر حکومت اس کی ذمہ داری اپنی پیش رو حکومت پر ڈال دیتی ہے‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے وسائل اور توانائیاں ایسے مسائل حل کرنے میں صرف ہو رہی ہیں جو خود ہمارے پیدا کردہ ہیں.
حکومت اگر عوام کو جمہوریت کے ثمر سے آگاہ کرنا چاہتی ہے تو سیلاب اور بارشوں سے ہونے والے نقصان کی حقیقی وجوہات کا پتہ چلانے کے لیے اعلیٰ سطح کا خود مختار کمیشن قائم کر کے سیلاب کے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے ریزرو واٹر اور چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ندی، نالے، نہروں کی صفائی اور نئی نہروں کی تعمیر ہے جس سے سیلاب کا رخ تبدیل کرکے ان علاقوں کی طرف منتقل کرنا ہے جہاں نقصانات ہونے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔ شہروں میں ترقی کے لیے بلدیاتی انتخابات کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، بلدیاتی اداروں کی منتخب قیادت شہروں کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *