نینشل کانسنسز اینڈ لیگل ریزولوشن (این سی ایل آر) ناقابل فراموش ریاستی اقدام

نیشنل کانسنسز اینڈ لیگل ریزولوشن(این سی ایل آر) ایک غیر معمولی اور تاریخی فیصلہ جو اس وقت حکومت پاکستان کی جانب سے لاپتہ افراد کی داد رسی کے لئے کیا گیا ہے۔ پانچ سال سے زائد عرصہ گمشدہ افراد کے خاندانوں کے دکھ اور درد میں شامل ہونے کے لئے ریاست نے فیصلہ کیا ہے مسنگ پرسنز کے ہر خاندان کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے گرانٹ کے طور پر 50 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ پاکستان جو اس وقت معاشی طور پر کمزور ہونے کے باوجود یہ فیصلہ کر چکا ہے، وہ ممالک جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں میں سے کسی نے بھی آج تک لاپتہ افراد کے دکھ درد میں شامل ہونے کے لئے ایسا اقدام ہر گز ریاستی طور پر نہیں لیا۔ جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان لاپتہ افراد کے مسلے پر سنجیدہ اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اب اس پر بھی پروپیگنڈہ شروع کیا جائیگا کہ اگر ریاست لاپتہ افراد پر زمہ دار نہیں تو پھر یہ گرانٹ کس لئے؟ ریاست کے لئے تمام ادارے، ریاست میں موجود عوام اس دھرتی کی بقاء کے لئے معاشرتی اور معاشی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ جسطرح سے ریاست کا ایک مخلصانہ رویہ ہے اپنی عوام کے ساتھ، اسی طرح عوام کو بھی ریاست کے ساتھ مخلص ہوکر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ریاستی عمل متاثرہ فیملیز کی مشکلات کو دور کرنے کے اور ان کے غم میں شریک ہونے کی ایک کوشش ہے۔ جانتے ہوئے بھی کہ “گمشدہ افراد” کے پیچھے متعدد اور پیچیدہ وجوہات ہیں، حکومت پاکستان ویلفیئر کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی۔ ریاست پروپیگنڈے کا شکار بھی لیکن عوام سے پیار بھی، ریاست “گمشدہ افراد” کی ذمہ دار نہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہے۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، حکومت وقت نے آج پھر ثابت کر دیا کہ جس پر درناک الزامات لگانے کے باوجود ریاست اور اداروں نے ایک مُخلص قابل تحسین قدم اٹھایا ہے۔ پاکستان میں ہر شہری کی زندگی کا تقدس اور تحفظ اہم ہے، اور ریاست اس مقدس امر کو یقینی بنانے کی ذمہ دار نبھا رہی ہے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آیا، پاکستان نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان میں سے بہت سے کیسز کو انفورسڈ ڈسپیئرنس انکوائری کمیشن کے ذریعے حل کئے گیے ہیں اور باقی کیسز کو بھی حل کرنے کے کئے پر عزم ہیں۔ اس عزم کے اظہار میں حکومت پاکستان نے “National Consensus & Legal Resolution (NCLR) of Missing Persons” کا احسن اقدام شروع کیا ہے۔ حکومت پاکستان مسنگ پرسنز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانونی اور حفاظتی اقدامات کو مزید مضبوط کر رہی ہے جو کہ لاپتہ افراد کے مسلے کے حل میں یقینی طور معاون ثابت ہوگا۔
ریاست پاکستان کو اس وقت کہیں سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ریاست نے ہمیشہ سے اہم مشفقانہ کردار ادا کیا ہے، تاہم ان چیلنجز کو لانے والوں نے ریاست کو کمزور جانتے ہوئے اپنے ضائع شدہ مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ملک میں ایک ناگہانی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ جہاں اہل ریاست نے پاکستان اور انکے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ملک کو ان عزیمتوں سے نکالنے کی دن رات کوششیں کی ہیں، وہاں امن کے نام سے بے امنی اور مسنگ پرسنز کے نام سے احتجاج کی شکل میں ریاست کو کمزور کرنے کی مذموم کوششیں خود ساختہ تنظیموں کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ لسانی بنیادوں پر تعصب پھیلا کر پنجاب کے پنجابیوں سے کبھی بلوچ تو کبھی پشتونوں کا موازنہ کروا کر اپنی ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے سیاست چمکائی جاتی ہے۔

مسنگ پرسنز ایک مسلہ ہے، اس مسئلے کو بھی پاکستان کے خلاف ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ایک بھی شخص کے جبری گمشدگی کے خلاف ہوں، پھر چاہے وہ ریاستی اداروں نے اٹھایا ہو یا پھر رضاکارانہ طور پر وہ شخص بینڈ اوٹ فٹس کے ساتھ مل کر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔ 9/11 سے لیکر آج تک پاکستان میں 10 ہزار 2 سو 85 افراد لاپتہ ہوئے، جن میں سے 8015 کیسز حل ہوئے۔ باقی 2270 اس وقت لاپتہ ہیں جن کے لئے ریاست ضروری اور سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ کیا مسنگ پرسنز پر سیاست چمکانے والے ریاست کو بتا سکتے ہے کہ کون کہا سے اور کب اٹھایا گیا؟ کیا وہ اٹھایا بھی گیا ہے یا پھر وہ خود لاپتہ ہوکر دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ جوڑ گیا؟ ایسا کیونکر ہے کہ جہاں بھی کالعدم تنظیمیں دہشتگردانہ کاروائیاں کرتی ہے وہاں سے لاپتہ افراد نکل آتے ہیں؟
بین الاقوامی طور پر اگر لاپتہ افراد کا موازنہ پاکستان کے ساتھ کیا جائے تو پاکستان لاپتہ افراد کے زمرے میں نا ہونے کے برابر ہے۔ ورلڈ پاپولیش ریویو جو کہ ایک خود مختار عالمی ادارہ ہے، جنکے مطابق پہلے نمبر پر آمریکہ ہے جہاں 2021 میں لاپتہ افراد کی تعداد 521705 ہے جن میں سے 93718 مسلسل لاپتہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر بھارت ہے جہاں ایک گھنٹے کے حساب سے 88 افراد جس میں بچے، عورت، اور مرد شامل ہے غائب کر دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ ایک دن کے اندر 2130 افراد اور 64885 افراد ایک مہینے میں اور 778572 افراد ایک سال میں لاپتہ کردیئے جاتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر برطانیہ اتا ہے جہاں اس ہر سال 180000 لوگ لاپتہ ہونے کا بتایا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں 353000 افراد کے فائل ہر سال کھولے جاتے ہیں۔ اس سروے میں چوتھے نمبر پر سائریا اتا ہے مگر اس کو چھوڑ کر میں پانچویں نمبر پر بات کرتا ہوں جو جنہیں “کڈنیپنگ کیپٹل آف دی ورلڈ” کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جہاں ہر تیسرے دن کے بعد ایک شخص لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ پھر میکسکو ہے نائجیریا ہے تو ایسے بہت سارے ممالک ہے جہاں پر افراد کو لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پہلے نمبر پر آمریکہ ہے جہاں امن و امان تمام ممالک سے بہترین ہے مگر لاپتہ افراد کی فہرست میں سر فہرست ہے۔ پھر بھارت ہے جو سب سے بڑی جمہوریت کا دعوےدار ملک ہے وہاں تو منٹ کے حساب سے لوگ لاپتہ کرئیے جاتے ہیں۔ کیا ان ممالک کو دہشتگردی کا سامنا ہے جسطرح سے پاکستان کو ہے؟ کیا وہاں پر ففتھ جنریشن وار کھیلی جاتی ہے؟ نہیں نا! تو پھر انکے لاپتہ افراد کی تعداد اور پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد کو موازنہ کیجئے گا تاکہ فرق واضح ہوسکے۔ امریکہ میں 5 لاکھ سے زیادہ، انڈیا میں 7 لاکھ سے زیادہ لاپتہ افراد جبکہ پاکستان میں 2000ء سے لیکر آج تک 10 ہزار! تو پھر سب سے زیادہ واویلا، پروپیگنڈے، جھوٹ، شدت کے ساتھ تہمتیں، میڈیا پر دروغگوئیاں، عوام کو ریاست کے خلاف اکسانا وغیرہ اس ملک میں کیونکر کیا جاتا ہے؟ کیا امریکہ میں بھارت میں یا پھر دیگر ممالک میں بھی ایساں کچھ کیا جاتا ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *