انسانی اسمگلنگ کے جدید انداز

تحریر ۔ نظام الدین

ٹائی ٹینک عالمی قوانین
کے مطابق سفر کرنے والوں کا جہاز جس میں سامان تفریح ؤطبع، ارب پتیوں کے شاہانہ شوق ڈھائی لاکھ ڈالر کا ٹکٹ، لائف جیکٹ اؤر زندگی کا بیمہ، دوسری طرف ارمانوں سے۔ بھری نوجوانوں کی غیر قانونی کشتی کا دردناک سفر نہ لائف جیکٹ نہ زندگی کا کوئی۔ بیمہ ، دونوں کا اجتماعی مقام بے گورو کفن سمندر کی اندھیری گہرائی,
“گویا” دونوں نے موت خریدی؟ ٹائی ٹینک والے ملک نے آس حادثہ سے سبق حاصل کیا،
کشتی میں ڈوبنے والے ملک نے
صرف دکھاوا کیا ؟

اس کرہ ارض پر انسانوں نے مختلف براعظموں کو منقسم کرکے معاشرتی اورجغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر ملک یا ریاست کی بنیاد رکھی ان راستوں میں اپنی سہولتوں اور ضرورتوں کے پیش نظر ایک ریاست سےدوسری ریاست میں داخلی اور خارجی قوانین متعارف کرائے,
ان قوانین کے خلاف ورزی کرنے والوں کے لیئے سزا مقرر کی گئی
لیکن پھر بھی انسان غیر قانونی طور پر ایک ملک سے دوسرا ملک میں داخل ہوکر دونوں ممالک کے قانوں کے خلاف ورزی کرتا ھے،اس خلاف ورزی کرانے میں انسانی اسمگلروں کا سب سے بڑا کردار ہوتا ھے,
انسانی اسمگلنگ ایسی غیر قانونی انسانی حقوق کےخلاف ورزی کی ایک شکل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی سرگرمی کا اثر براہ راست عام افراد کی زندگیوں پر پڑتا ہے,
اس عمل سے انسانی حقوق کی براہ راست بے حرمتی ہوتی ہے!!
پاکستان میں بھی انسانی, اسمگلنگ ایک پیچیدہ معاشرتی مسئلہ ہے جس میں کئی عوامل کا عمل دخل ہوتا ہے.
اکثر میرے کچھ دوست
انسانی اسمگلنگ کو بین الاقوامی مسئلہ کہتے ہیں لیکن حقیقت میں اسمگلنگ ان کے خیال سے کہیں زیادہ ہمارے اپنے گھر کے قریب ہوتی ھے،
جس میں سب سے اہم وجہ
حکمرانوں کی غیر مؤثر حکمت عملی کے باعث .ملک کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی
شرح تقریباً 20/فیصد تک پہنچ گئی ھے ،
یہ نوجواں اپنی زندگی کا بڑا حصہ ناتجرباتی مصروفیات اور منفی سرگرمیوں میں گزار دیتا ہے ان میں بیشتر نوجوان معاشی دباؤ سے نکلنے کے لیئے آسان حل کے طورپر اپنی جان کی قیمت پر بیرون ملک جاکر کمانے کو ترجیح دیتے ہیں.
بیرونی ملک.
ملازمت, شادی,اور معاشی حالات بہتر بنانے جیسے سہانے خواب دیکھنے والوں کا سامنا سب سے پہلے اپنے خاندان کے کسی فرد دوست یاقریبی جانے والے سے ہوتا ہے.جو انہیں کسی منظم انسانی اسمگلرز سے ملواتا ھے ،
یہ اسمگلرز مختلف ممالک کے سمندری زمینی اور ہوائی راستوں کے مختلف پیکچ اسے بتاتے ہیں ,
سیاسی پناہ, شادی, تعلیم, کاروبار, نوکری, جیسے حسین خواب کا جھانسہ دیکر
جعلی دستاویزات.
ایف آئی آر کٹوانے سے لیکر سفری اخراجات کے عوض بھاری رقم حاصل کرتے ہیں.
غیر قانونی سرحدی راہداریوں غیر محفوظ سمندری راستوں پر نکلنے والے ان نوجوانوں کی بڑی تعداد منزل پر نہیں پہنچ پاتی,
کچھ سفری صعوبتیں نہیں جھیل پاتے اور کچھ
غیر ملکی سکیورٹی اداروں کی زد میں آجاتے ہیں, زندہ بچ جانے والے کسی ملک پہنچ بھی جاتے ہیں تو اس ملک کے
قوانین ؤ پابندیوں سے
جان نہیں چھوٹتی.
ان انسانی اسمگلرز کے گروہ کا منظم نیٹ ورک مکھڑی کے جال کی طرح دنیا کے بیشتر ممالک میں پھلا ہوتا ھے. یہ بے ضمیر پیسوں کی خاطر اپنا ایمان اور وطن تک بیچنے پر آمادہ رہتے ہیں , یہ اسمگلرز انسانی سوداگری کے علاؤہ ایک دوسرے ملک کے ایٹمی راز سے لیکر قیمتی اشیا تک اسمگلنگ کرتے ہیں
پاکستان میں اس مسئلے کے پیش نظر قوانین موجود ہیں!!
ایک انسداد مہاجرین دوسرا انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 .ہے
پاسپورٹ ایکٹ 1974
امیگریشن آرڈیننس 1979
فارنرز ایکٹ 1946.
انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002,اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کم نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اسمگلروں کے حوصلے بڑتے چلے جاتے ہیں. دنیا میں بھی انسانی اسمگلنگ سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن پھر بھی
دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق خبریں روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں.
ان میں کچھ خبریں ایسی بھی بنتی ہیں جو دنیا بھر کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ ایسے بھی جدید انداز میں انسانی اسمگلنگ ہوسکتی ھے ،
اگرچہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ روکنے کے جدید ٹیکنالوجی کے زریعے اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود اسمگلرز بھی انتہائی ہوشیاری سے اپنا دھندہ جاری رکھنے کے لیئے ایسے ایسے طریقے کار اختیار کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.
مختلف ممالک میں گرفتار افراد کی کہانیاں اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو اس میں اپنے ملک کی امن ؤ امان کی خراب صورت حال غربت بیروزگاری سے تنگ آکر اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کی خاطر جیسی روایتی کہانیاں سنائی جاتی ہیں
کچھ لوگ تو.سیاسی پناہ کے لیئے اپنا مزہب عقیدہ تک تبدیل کرلیتے ہیں
یا اپنے اوپر ہونے والے ریاستی ظلم جبر کی جعلی داستان اور جعلی دستاویزات کے ساتھ گرفتار ہوکر اپنے وطں کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں بہت سے افراد پورپ امریکہ یا دوسرے ملک جاکر شہریت حاصل کرنے کے لیئے اپنے وطں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرکے
سیاسی پناہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں!! یوں تو پورے پاکستان میں انسانی اسمگلنگ اپنے عروج پر ھے لیکن گجرات، کھاریاں، منڈی بہاوالدین، سرائے عالمگیر، میرپور، اور ان کے گاؤں کے نوجوانوں پورپ جانے کے لیئے جان ہتھیلی پر رکھ لیتے ہیں؟ پرخطر راستوں کا انتخاب کرتے ہیں پہلے اسمگلرز انہیں ایسٹر میڈیٹر ینٹن روٹ سے یورپ تک لیجاتے تھے یہ روٹ بلوچستان ایران ترکی اور یونان کو جوڑتا ھے، یہاں کچھ حادثوں کی وجہ سے یہ راستہ ختم کرکے اب ایک نیا سمندری راستہ اختیار کیا جو لبیا کے جزائر، اطالیہ، سالنتو، البانیا، خلیج پطرس آبنائے مسینا خلیج ٹارانٹو سے یونان کے جزائر تک پھیلے ہوئے ہیں ان جزائر سے بے شمار نوجوان کامیابی سے یورپ پہنچ گئے ہیں، جبک” کراچی، حیدرآباد کے نوجوان قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں زیادہ تر سیاسی پناہ کے لیئے سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے رہے ہیں، جس میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم،اور کچھ مزہبی جماعتیں شامل ہیں ان جماعتوں پر فوجی آپریشن کے دوران لاکھوں نوجوانوں نے یورپ ، امریکہ، افریکہ، وغیرہ میں سیاسی پناہ حاصل کی،
لیکن میں یہاں جوانسانی اسمگلنگ کی خبر دینے جارہ ہوں وہ انتہائی حیران کرنے
والی دنیا کی سب سے عجیب وغریب طویل عرصے سے منظم طریقے کے ساتھ ہو رہی ھے ،
امریکہ جانے کے لیئے انسانی اسمگلنگ کا ایک ایسا سلسلہ ھے جسے جدید کہا جاسکتا ھے، آس سسٹم تک پہنچنے کے لیئے مجھے طویل مدت تک انکا پیچھا کرنا پڑا “بالاآخر” میں ان انسانی اسمگلر گروپ تک پہنچ گیا جس پر میں نے تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ امریکی آئیں گے مطابق امریکی سر زمین پر پیدا ہوئے والے ہر بچے کو امریکہ کی مستقل شہری کا درجہ حاصل ہوجاتا ھے اس بنیاد پر انسانی اسمگلر
امریکا سے کچھ خاندان پاکستانی نژاد امریکی پاسپورٹ پر پاکستان لیکر آتے ہیں یہاں کچھ ایجنٹ پہلے سے کسی فرد سے معاہدہ کرکے رکھتے ہیں پھر امریکہ سے آنے والے خاندان کی کسی لڑکی سے کروڑوں روپوں کے بدلے شادی کراتے ہیں شادی کے تمام کاغذات تیار ہوتے ہیں جس کا تمام خرچہ لڑکا ادا کرتا ھے، لڑکی کچھ دن پاکستان میں اس شخص کے ساتھ گزارتی ھے اگر وہ اس دوران پیگنت یعنی” حاملہ ہوجاتی ھے تو ٹھیک ھے ورنہ بےبی ٹیوپ کے زریعے حاملہ کرائی جاتی ہے پھر وہ لڑکی واپس امریکہ چلی جاتی ھے وہاں جاکر بچہ پیداکرتی ھے اور پھر اس بچے کی بنیاد پر اس شخص کے لیئے امریکہ میں ویزا اپلائی کرتی ھے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آس شخص کو امریکہ کا ویزہ مل جاتا ھے، آس طرح کی جدید انسانی اسمگلنگ سالوں سے جاری ھے سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آس غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کو اپنی حکومت کی ترجیح قرار دیا تھا لیکن یہ کام اج بھی جاری ھے، کیونکہ امریکہ سے آنے والی لڑکی کی شادی پاکستان میں جس سے ہوئی تھی وہ آس لڑکی نے امریکہ میں بچہ پیدا کیا اور تقریباً دوسال بعد آس بجے کے باپ کو بچے کی بنیاد پر امریکی ویزہ مل گیا ،، وہ لڑکا آس وقت بھی امریکہ میں ایک غلام کی زندگی گزار رہا ھے لیکن خوش ھے،؟ آس انسانی اسمگلنگ کو سمجھنے کے لیئے امریکی ویزہ کی اقسام اور پالیسی کا مطالعہ امریکہ کی سرکاری ویب سائٹ پر کرسکتے ہیں خاص طور پر۔ (برتھ ٹورازم) کا مطالعہ ضروری ھے !!!
:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *