کمپنی کسی بھی کاروبار کو وسعت دینے کے لیے معرض وجود میں آتی ہے. موجودہ دور میں سیاست سب سے بڑا کاروبار بن گیا ہے. اس لیے اب سیاست میں بھی کمپنی کا عمل دخل حد سے بڑھ گیا ہے. ہندوستان کے لوگ تو اس بات سے بخوبی واقف ہیں. ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک برطانوی کمپنی ہندوستان میں کاروبار کی نیت سے آئی تھی. مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہندوستان کی سیاہ و سفید کی مالک بن گئی. اس نے ہندوستان پر کم و بیش سو سال تک حکومت کی. اس کمپنی کے مالکان بڑے اثر و رسوخ والے تھے. ان کی منشا کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مارتی تھی. ہندوستان کے لوگ اس کے چنگل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہے. بالآخر 1947 میں وہ اپنی اس کاوش میں کامیاب ہو گئے. اور ایسٹ انڈیا کمپنی سے نجات حاصل کر لی. اور ہندوستان میں دو نام نہاد آزاد ملکوں کا اضافہ ہوا. جن میں ایک پاکستان اور دوسرا بھارت کے نام سے جانا جاتا ہے. آزادی کے فوری بعد پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر ایک کمپنی نے اپنے پنجے گاڑ لیے. یہ کمپنی پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک بن گئی. اس کی منشا کے برخلاف ملک پاکستان میں کوئی کام سرانجام نہیں پا سکتا. اس نے شروع دن سے ہی ہر شعبہ زندگی میں اپنی مصنوعات متعارف کروا دیں. بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی حقیقی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلہ میں اس کمپنی کے سربراہ کو کامیابی دلوائی گئی. جس سے اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا. تب سے لیکر آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے. اس دوران بہت سے گھٹن مرحلے آئے. جس پر اس کمپنی نے اپنی گرفت کو مزید مضبوط کیا. اس طویل اور گھٹن سفر کے دوران کہی نہ کہی نام نہاد جمہوری منتخب وزیراعظم بھی بنے. مگر یہ بھی اسی کمپنی کی مصنوعات کی ایک قسم تھے. کمپنی نے ہر دور میں نئ مصنوعات متعارف کروائی ہیں. جب ان مصنوعات کے نتائج اس کی منشاء کے مطابق نہیں آتے. تو وہ خود سے اپنی تیار کردہ مصنوعات کو تلف کر دیتی ہے . وہ سمجھتی ہے. کہ یہ پروڈکٹ اس کی ساخت کے لیے نقصان دہ ہے. یا اس کی وجہ سے اس کی نیک نامی اور شہرت کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا. کمپنی نے لاتعداد نئ مصنوعات سیاست میں متعارف کروائی. مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر خود سے ان کو تلف بھی کیا ہے. عوام کو اس کمپنی کی مصنوعات سے بے انتہا محبت ہے. وہ ان کے خاتمہ پر اپنے دکھ و تکلیف کا اظہار کرتی ہے. مگر نئ مصنوعات پہلے سے اچھی پیکنگ میں بازار میں لائیں جاتیں ہیں. جن کو عوام کی پسند و حمایت حاصل ہو جاتی ہے. اس طرح سے اس کمپنی کا کاروبار بڑھتا جاتا ہے. قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہر کاروبار میں نقصان ہو سکتا ہے. مگر اس کمپنی کو کبھی نقصان نہیں پہنچا. یہ الگ بات ہے. کہ بسا اوقات کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات اس کے لیے درد سر بنی ہیں. مگر کمپنی نے اپنی مضبوط گرفت کی بدولت جلد ہی ان مشکلات پر قابو پایا ہے. جب کمپنی اپنی تیار کردہ مصنوعات کو بدلنے کا پختہ ارادہ کر لیتی ہے. تو اسے ایسا کرنے سے کون روک سکتا ہے. ہماری عوام بڑی معصوم ہے. وہ سمجھتی ہے. کہ ہم نے اپنے ووٹوں کی طاقت سے جمہوری حکومت منتخب کی ہے. یہ حکومت سازی کا کام اس کمپنی کا ذیلی ونگ کرتا ہے. یہ تمام حکومتیں عہدیداران بشمول صدر، وزیراعظم سمیت سب اس کمپنی کے ملازمین ہوتے ہیں. جس کی کارگردگی سے وہ خوش ہوتی ہے. اس کو ترقی دے کر وزرات عظمیٰ کے منصب پر بیٹھا دیتی ہے. اس کمپنی کے متعدد ذیلی ادارے ہیں. جو ہر شعبہ زندگی میں فعال کردار ادا کرے ہیں. گزشتہ کچھ دہائیوں سے کمپنی کے ستارے گردش میں ہیں. اس کے اپنے اندر گروپس بن چکے ہیں. جو ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں. ان ہی کے غلط انتخاب کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے. سانحہ 9 مئ بھی ایسی ہی ایک سازش ہے. جو کمپنی کے گروپس کے درمیان رسہ کشی کا شاخسانہ ہے. اس میں استعمال ہونے والے بھی کسی مخصوص گروپ کے حمایت یافتہ لوگ تھے. انہوں نے کمپنی پر قابض ہونے کے لیے یہ سانحہ رونما کروایا. مگر دوسرے گروپ کو یہ اقدام مناسب نہیں لگا. اس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے. اس سانحہ کے مرکزی کرداروں کے خلاف سخت کارروائی کی. کمپنی کے اندرونی اختلافات کے سبب اس کی گرفت کئ اداروں پر ڈھیلی پڑ رہی ہے. ایک گروپ سانحہ 9 مئی میں ملوث لوگوں کو سخت سے سخت سزا دلوانا چاہتا ہے. تو دوسرا انہیں باعزت بری کروانے پر آمادہ ہے. عدلیہ بھی ان گروپس کی وجہ دو حصوں میں منقسم ہو چکی ہے. عدلیہ کا ایک گروپ 9 مئ والوں کو ریلیف دیتا جا رہا ہے. تو دوسرا گروپ انہیں کفر کردار تک پہہنچانے پر بضد ہے. سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر صدارتی ریفرنس میں اعلیٰ عدلیہ کا 34 سال بعد یہ فیصلہ دینا. کہ انہیں صاف ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا تھا. مطلب وہ پھانسی کی سزا غلط تھی. اسی طرح سے طیارہ سازش کیس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو سزا بھی غلط تھی. اب بھی سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایسی ہی سازش ہو رہی ہے. یہ نئ بات نہیں. یہ لوگ کمپنی کو اپنی وفا داری کا ثبوت دینے کے چکر میں ہر کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں. جس کا فائدہ ان کی ذات کو ہوتا ہو. مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ سب ہی اسی صف میں شامل ہے. عوام تو اس کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات کو خریدنے کے لیے ہے. کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا. اس نے اسی کمپنی کی کسی پروڈکٹ کو ہی خریدنا ہوتا ہے. وہ اچھی ہو یا بری. اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں. کمپنی میں اندرونی اختلافات شروع دن سے ہی ہیں. مگر موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے. اس لیے اختلافات کی خبریں کھل کر سامنے آتیں ہیں. جس کی وجہ سے کمپنی کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے. یہ بات کمپنی کے لیے لمحہ فکریہ ہے. کیونکہ اس کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے کئی اداروں پر اس کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے. وہ ادارے کھل کر کمپنی کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں. عوام اتنی معصوم ہے. کہ وہ آپس میں صبح سے شام تک اسی بحث میں الجھی رہتی ہے. کہ فلاں سیاست دان اچھا ہے. فلاں برا ہے. اس کی حکومت اچھی ہے. اس کی بری تھی. یہ جانے بنا کہ یہ سب کے سب کمپنی کے ملازمین ہوتے ہیں. جو آپ کے اوپر مسلط کیے جاتے ہیں. ملک پاکستان میں طاقت کا اصل محور کمپنی ہی ہے. یہ جو چاہے کرے. اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں. کمپنی کو اگر کوئی پریشانی ہے. تو وہ اس کے اندرونی اختلافات ہیں. یہاں بھی طاقت گروپ اپنی بات منوا لیتا ہے. موجودہ حکومت میں اہم ترین عہدوں پر کمپنی نے اپنے وفا داروں کو تعنیات کیا ہے. جن کو عوام جانتی بھی نہیں تھی. یہ کمپنی کی مہربانی ہے. وہ جس کو چاہے. انعامات سے نواز دے. جس کو چاہے نشان عبرت بنا دے. کمپنی کی طاقت اور قوت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا. کمپنی کے اندرونی خلفشار اس کے لیے لمحہ فکریہ ہیں.