کے الیکٹرک غصب کا لٹیرا


تحریر۔نظام الدین

کراچی کی پریڈی اسٹریٹ پر دور سے دھوئیں کے پیچھے کا منظر نظر نہیں آرہا تھا آگ” کیسے لگی ؟ اس پر غور کرنے کے لیے جب قریب پہنچا تو دھوئیں اور شعلوں کے پیچھے کا پش منظر صاف نظر آنے لگا سیکنڑوں لوگ بجلی کا بل “آگ” کے نظر کررہےتھے ، مگر میری نظر بلند ہوتے شعلوں سے زیادہ ان لوگوں کے غصے بھرے چہروں اور نعروں پر تھی جنہیں کے الیکٹرک نے بجلی کا جھٹکا لگایا ہوا تھا ، وہ جو نعرے لگا رہے تھے ، شاید حکمرانوں تک اس کی گونج پہنچ ہی نہیں رہی ؟ یا پہنچائی نہیں جارہی ورنہ ؟ کے الیکٹرک انتظامیہ کی کیا مجال کہ وہ حکومت اور نیپرا کی ہدایت اور نوٹس ملنے کے باوجود عوام کا استحصال کرسکیں ؟ وہ جب چاہے کراچی کے کسی بھی علاقے کی اچانک غیر اعلانیہ بجلی بند کردیں اور عوام کے بار بار احتجاج پر مزید ہفتوں بجلی سے محروم رکھیں؟
اس کا مقصد تو یہ ہے کوئی ریاست سے زیادہ طاقتور سرپرست ہے؟ اس بدمعاش کے الیکٹرک کا ؟
اسکی اس دیدا دلیری کا جائزہ لینے کے لیے اپنے علاقے لائینز ایریا کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ ویب سائٹ کا جائزہ لیا جہاں شیڈول کے مطابق تو لوڈ شیڈنگ کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ دس گھنٹے لکھا ہے؟ پھر کے الیکٹرک کے نمائندے سے ہفتوں کے لیے اچانک غیر اعلانیہ بجلی کی بندش پر بات کی تو۔ بتایا لائینز ایریا میں عدم ادائیگیوں اور بجلی چوری کے باعث منقطع کی جاتی ہے، یہاں نہ دہندگان پر واجب الادا رقم دو ارب سے تجاوز کر چکی ہے ؟ لائینز ایریا ، پیر الٰہی بخش کالونی اور پرانی سبزی منڈی پر مشتمل علاقوں پر چار ارب نوے کروڑ سے زائد ہے ، اور پورے کراچی کے باسیوں پر 70 ارب واجب الادا ہیں ؟ یہ وہ اعدادوشمار ہیں جو کے الیکٹرک کے کمپیوٹر میں فکس ہیں ، لیکن میں نے کے الیکٹرک کے نمائندے سے صرف ایک سوال کیا کہ جو ہرماہ وقت پر اپنا بل آدا کرتا ہے ان کی بجلی کیوں بند کی جاتی ہے ؟ تب ایک مثالی جواب ملا
“گہیوں کے ساتھ گھن تو پسے گا”
“میرے” ایک دوست جناب عارف محمد خان جو “ہیومن رائٹ کمیشن آف” پاکستان کراچی کے “ممبر” ہیں یہ صورت حال ان کو بیان کی تب” انہونے مجھے کے الیکٹرک سے متعلق اپنی ایک سروے رپورٹ بتائی ” کراچی” میں موجودہ سال بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی بندش سے گھروں میں گرمی سے گھر سے باہر ہیٹ اسٹروک سے ایک ہزار سے زائد افراد جان بحق ہو چکے ہیں ، جبکہ برسات کے دنوں میں کرنٹ لگ کر ہلاک ہونے والے الگ ہیں ان ہلاکتوں کا معاملہ جب سندھ ہائیکورٹ پہنچا تھا تو کے الیکٹرک کے نمائندے نے ان ہلاکتوں کی زمہ داری انٹرنیٹ کیبل کی تاروں پر ڈالی تھی کہ یہ ہلاکتیں انٹرنیٹ نیٹ کی ڈھیلی تاروں کی وجہ سے ہوئیں؟ جبک بجلی کے کسی بھی کھمبوں پر کسی قسم کی بھی تار نہیں ڈالی جاسکتی لیکن کے الیکٹرک کی انتظامیہ بڑی رقم لیکر انٹرنیٹ پرووائیڑرز تارین اپنے کھمبوں پر ڈالنے کی اجازت دے دیتی ہے ، جس سے برسات کے دنوں میں کرنٹ لگنے کے واقعات پیش آتے ہیں،
“اسی طرح کراچی کی فٹ ہاتھوں گرین لینڈ اور دیگر راستوں پر غیر قانونی طور پر نوے فیصد فنگر چپس ،گنے کے جوس ، ٹائر پنکچر اور دیگر پتھارے والےکے الیکٹرک کی انتظامیہ کی سرپرستی میں بجلی استعمال کرتے ہیں اور کنڈے کی مد میں ماہانہ چند سو روپے بھتہ دیتے ہیں۔ جبکہ فنگر چپس کی صرف ایک مشین اور پنکچر والی استری سارا دن مسلسل چل کر ماہانہ سینکڑوں یونٹ کھا جاتی ہے ،
اس کے علاوہ کے الیکٹرک کی ماہانہ سرپرستی سے کراچی کے کچھ علاقوں میں گھروں میں قائم چھوٹے کارخانوں میں مفت بجلی استعمال کی جاتی ہے ؟ سب سے اہم کراچی کے مضافاتی علاقوں میں کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے
“بی الیکٹرک” نامی کمپنی کا نظام قائم کر رکھا ہے جہاں صارفین کو باقاعدہ “بی الیکٹرک” کے بل ارسال کیے جاتے ہیں اور ٹیکنیکل خرابی کی صورت میں کے الیکٹرک کا عملہ کام کرتا ہے اور بل آدا نہ کرنے والوں کی بجلی بھی کاٹتا ہے ، اسی طرح بجلی کے بل میں 200یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 300 روپے سے 3500 روپے تک آتا ہے اگر 201 یونٹ استعمال ہو جائیں تو اس بل میں پانچ سو روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور پھر یہ بل 8500 روپے سے 9000 روپے کا ہو جاتا ہے ، اور اگر مالی مشکلات کے باعث بل کی قسطیں کروائیں تو اس پر 14 فیصد سود آدا کرنا پڑتا ہے اور بعد ازاں جزوی ادائیگی کی سہولت سے بھی ایک سال کے لیے محروم کردیا جاتا ہے ، اور اگر ایک ماہ بل ادا نہ کرسکیں تو آگلے ماہ 10 فیصد جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے ، حد تو یہ ہے کہ ہر ماہ کے الیکٹرک بلا تعطل بجلی فراہم نہیں کر پاتا اور طویل تعطیلات کردیتا ہے لیکن بل بلاتاخیر اپنے نو عجیب و غریب یونیفارم ، کوارٹرلی ایڈجسٹ منٹ ، فیول چارجز ، پرالیکٹر سٹی ڈیوٹی ، سیلز ٹیکس ٹی وی فیکس اور میونسپلٹی ٹیکس لگا کر بھیج دیتا ہے، جبکہ بجلی صرف پندرہ سے بیس دن استعمال ہوئی تھی ؟ اس طرح کے الیکٹرک کی انتظامیہ عوام پر بجلی چوری کا الزام لگا کر اپنی کرپشن ، بدعنوانیوں ، اور مجرمانہ سرگرمیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے ، جبکہ عوام کو ریلیف دینے کے نام پر وفاق سے 169 ارب روپے سبسڈی حاصل کررہی ہے جبکہ پاکستان میں دیگر سات بجلی تقسیم کار کمپنیاں 158 ارب روپے سبسڈی لیتی ہیں ، اس طرح سبسڈی بھی سب سے زیادہ وصول کررہی ہے ؟ ان تمام ایشوز پر حکومتی گرفت اور رٹ عملی طور پر نظر نہیں آتی ،،،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *