تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارٸین!ایک مہذب اور سنجیدہ معاشرہ انسانیت کا امین تصور ہوتا ہے۔تعلیم یافتہ افراد معاشرتی روایات کی پاسداری کے تصور کو نہ صرف زندہ کرتے ہیں بلکہ معاشرتی روایات کے فروغ کے لیے بھی اپنی تواناٸیاں صرف کر دیتے ہیں۔منزل کی تلاش کے لیے بے تاب رہتے ہیں بقول شاعر:-
منزل سے آگے بڑھ کر منزل کی تلاش کر
مل جاۓ تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
معاشرے کی زینت حسن اخلاق اور خوشنما طرز زندگی ہوتی ہے۔وہ معاشرہ کتنا مظلوم اور قابل رحم ہوتا ہے جہاں انسانی رویوں میں سرد مہری اور عبادات و اخلاقیات میں اخلاص کا فقدان ہو۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خاہشات انسان کو غلام بنا دیتی ہیں۔انسان کی عظمت کا راز انسانیت کا احترام کے احساس کو تازہ کرنے سے وابستہ ہے۔بقول شاعر:-
”راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے“ کے مصداق متحرک رہے۔اور حقیقی منزل پانے کے لیے کوشاں بھی رہے۔یقین کامل سے زندگی کی عبارت دلکشی اور خوبصورتی کی علامت بن جاتی ہے۔انسان کی زندگی کامیابی کی تصویر اسی وقت بنتی ہے جب محنت اور جدوجہد کارفرما ہو۔یہ کاٸنات تو محبت کا گھر ہے۔بقول شاعر:-
محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ یوسف پیدا کر
جہان سے عشق چاہتا ہے تو نام پیدا کر
جس کام میں اخلاص پایا جاۓ اس سے دل میں تسکین اور طبیعت کو سرور ملتا ہے۔لیکن عصر حاضر میں معاشرے میں اخلاص کا فقدان نظر آتا ہے تو حیرت کی انتہا ہوتی ہے۔انسان تو رب کریم کی بہت پیاری مخلوق ہے۔اس کی خوبصورتی کا راز حسن اخلاق اور اخلاص کے پھولوں کی خوشبو سے ہے۔لیکن خود نماٸی اور ریاکاری سے زندگی متاثر ہوتی ہے۔اگر یہ کہا جاۓ کہ برے خیالات اور منفی طرز عمل سے زندگی متاثر ہوتی ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔اخلاص کے پھولوں سے عاری زندگی تو بوجھ محسوس ہوتی ہے۔اس بات کے ادراک کی ضرورت ہے بقول شاعر:-
یہی درس دیتا ہے تمہیں شام کا سورج
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
کامیابی کی امیدیں اسی وقت ثمر بار ہوتی ہیں جب اخلاص سے نیک عمل کیا جاۓ۔غرور و تکبر اور ریاکاری کا نام و نشان نہ ہو۔خود داری تو ایسا زیور ہے جس سے انسان کی زندگی میں ایک نکھار پیدا ہوتا ہے۔بات طویل ہو گئی ۔عنوان کے مطابق کٸی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔معاشرے میں اخلاص کا فقدان کیوں؟سماج میں بے چینی اور اضطراب کی وجوہات کیا ہیں؟ان سوالات کے جوابات تو انسان تلاش کرتا ہی رہتا ہے اور ماہرین علم و ادب محنت کا سفر جاری رکھتے ہیں۔زندگی کا نصب العین آپؐ نے قرآن مجید کی روشن تعلیمات کی روشنی میں پیش فرمایا۔جس پر آج بھی عمل ہو رہا ہے اور جو انسان اس پر عمل پیرا نہیں وہ ناکام و نامراد ہے۔انسان کی تخلیق رب کائنات کا سب سے بڑا اعجاز ہے۔خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے۔اس کی خوبصورتی فکروشعور اور علم سے ہے۔عصر حاضر کے تقاضے تو یہی ہیں کہ زندگی کے سفر کو کامیاب بنانے کے لیے عمل پر توجہ دی جاۓ۔بقول شاعر:-
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
عمل کا انحصار ہی اخلاص پر مبنی ہوتا ہے۔اخلاص کی برکات کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔علماۓ کرام اور ماہرین تعلیم کے نظریات کے مطابق اخلاص کا مطلب فقط اللہ تعالٰی کی رضا کی خاطر نیک عمل ہے۔یہ عمل دنیاوی مفاد اور فوائد کے حصول کے لیے نہ ہو۔دوسروں کی خیر خواہی اور بہتری نمایاں ہو۔اخلاص کی تعریف ماہرین کے مطابق کسی بھی نیک عمل میں محض رضاۓ الٰہی حاصل کرنے کا ارادہ کرنا اخلاص کہلاتا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق تو انسانیت کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ تعالٰی کی عبادت ہے۔عبادت میں جان اخلاص سے پڑتی ہے۔ریاکاری تو ایسا طرز عمل ہے جس سے انسان کی عبادت ضائع ہوتی ہے۔اس لیے معاشرتی چین اور اطمینان کے لیے اخلاص ضروری ہے۔معاشرے میں بے چینی اور اضطراب کے اسباب کیا ہیں؟اس کا جواب اسی تناظر میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔اس لیے عمل بہتر بنانے کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔جو اعمال اخلاص سے خالی ہوتے ہیں وہ نفع بخش نہیں ہوتے۔عمل اور زندگی کا گہرا ربط و تعلق ہے۔بقول شاعر:-
وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
سجدہ بھی وہی حسیں ہوتا ہے جس میں اخلاص ہو۔زندگی کے آداب سے واقفیت اچھی خوبیاں پیدا کرتی ہے۔ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔انسان کی قیمت تو اخلاص اور نیک عمل ہے۔تعلیم سے نہ صرف انسان میں اچھی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ عبادت میں اخلاص کا قرینہ بھی پیدا ہوتا ہے۔معلم انسانیت کی سیرت و کردار میں اخلاص کی جھلک آج بھی نمایاں ہے۔اس پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف محبت بھری فضا پیدا ہوتی ہے بلکہ اخلاص کے پھول بھی کھلتے ہیں۔یہ بات تو مسلمہ ہے اخلاص کی راہ پر چلنے والے کسی طوفان بلاخیز سے نہیں ڈرتے ان کے دل پیاس سے بتاب ہوتے ہیں اور اخلاص کے چشموں کا پانی پی کر سیراب ہوتے ہیں۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
گاٶں ڈِنگ ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085