تحریر۔طارق خان ترین
عاصمہ جہانگیر جب زندہ تھی تب بھی وہ اقوام متحدہ و دیگر بیرونی طاقتوں کے لئے سر تسلیم خم تھی مگر جب بات ریاست پاکستان کی آجاتی تو انہی بیرونی طاقتوں کے پروں کو استعمال کرتے ہوئے محترمہ پاکستان میں پاکستانیوں کو اپنے ہی ملک سے متنفر کرنے کے لئے برسر پیکار رہتی۔ انکی تمام تر تقاریر سے اندزہ آپ بہت آسانی سے لگا سکتے ہے کہ کبھی انہوں ملکی اور عوامی مفاد پر بات تک نہیں کی، ملک کو انتشار سے بچانے کے لئے کوئی لائحہ عمل پیش نہیں کیا۔ البتہ جتنا ہوسکتا تھا عاصمہ جہانگیر نے ملک اور ملکی باوقار اداروں پر عورت کارڈ کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی، مگر اللہ جسے چاہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہے ذلالت سے نوازتا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو عالمی اداروں کے پے رول پر ہو انہیں ٹاسک دیا جاتا ہے کہ جتنا ہوسکے ملک میں جھوٹ اور پروپیگنڈے اتنے پھیلائے جائے کہ وہ سچ لگنے لگے۔ میں نے اپنے کالم “سائیکلوجیکل وارفئیر” کے عنوان سے پچھلے فروری میں لکھ چکا ہوں کہ کسطرح سے ملک دشمن اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے انسانی دماغوں پر نفسیاتی حملے کرتے ہے۔ پاکستان میں کبھی این جی اوز کی شکل میں تو کبھی ٹی وی ڈراموں کی شکل میں ملک میں انتشار پھیلایا جاتا ہے۔ 2016, 2017 اور 2018 میں پاکستان کے وزارت داخلہ نے سینکڑوں بیرونی این جی اوز کو بند کردیا جو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ اسی طرح سے ٹی وی ڈراموں کے توسط سے ہمارے معاشرتی اقدار کی پامالی کی جاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی چل رہا ہے مگر نا تو اس حوالے پیمرا نے کوئی ایکشن لیا ہے اور نا ہی کسی اور متعلقہ ادارے نے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں ڈاکٹر دانش کا سابقہ آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے ساتھ انٹرویو دیکھ رہا تھا تو جنرل صاحب نے کہا کہ کیری لوگر بل درحقیقت پرسیپشن مینجمنٹ (ادراکی انتظام/جنگ) کے لئے یعنی لوگوں کے دماغوں پر کام کر کے انہیں اپنی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے کے لئے استعمال کرنا تھا۔ وہ پیسے منظور بھی ہوئے اور ان سے متعلقہ مفادات کی تکمیل بھی ہوئی، آج آپ دیکھ سکتے ہے کہ کسطرح سے ملک میں پروپیگنڈوں کی بہتات ہے جنہیں روکنے سے متعلقہ ادارے شاید اب ڈرتے ہے۔
بالکل اسی طرح سے آپ دیکھتے ہے کہ کبھی عورت مارچ کے لبادے میں عورتوں کو نکالا جاتا ہے، جن کے جانب سے لفظی عریالی کے ساتھ ساتھ انکے رہن پہن سے بھی عریالی کی تصور کو اجاگر کردیا جاتا ہے۔ عورت مارچ پر اگر کوئی شریف النفس بندہ تنقید کرے اور انہیں روکنے کے لئے حکومت وقت سے اپیل یا پھر احتجاج کرے تو عورت مارچ کے سرکردہ فنڈڈ لوگ اور تنظیمیں انکے خلاف مغلظات بکتے ہے نہ صرف بلکہ اپنے اثروسوخ کو استعمال کرتے ہوئے انہیں طرح طرح کی ازیتوں سے دوچار کرتے ہے۔ پاکستان میں تہذیب و ثقافت کے خدوخال کو مغربی تمدن میں بدلنے کے لئے فحاشی اور عریالی کو پھیلایا جاتا ہے اور پھیلانے کے لئے عورت مارچ کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ریاست اور ریاست کے باوقار اداروں پر لعن طعن کے لئے عاصمہ جہانگیر جیسی عورت جنہیں میڈیا میں بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا تھا کو استعمال کیا جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کے مذہبی رجحانات سے دنیا واقف ہے بلکہ کچھ حلقوں کی جانب سے انہیں قادیانی بھی قرار دیا گیا۔ پاکستان میں تاریخ کی ب سے زیادہ متنازعہ نماز جنازہ اگر ہوئی ہے تو محترمہ ہی کی ہوئی ہیں جس میں عورتیں بھی مرد کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ عاصمہ جہانگیر کے تمام تقاریر اٹھا کر دیکھئے ان کی تمام تر ہمدردیاں امریکہ، برطانیہ اور بھارت کے ساتھ تو تھی مگر کبھی اپنے ملک کے ساتھ نہیں تھی۔ اس ملک میں جو بھی ریاست کے خلاف بغاوتی الفاظ اپنے تقاریر میں استعمال کرتے ہو انہیں میڈیا پر نجات دہندہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے مگر متعلقہ احکام کی خاموشی غفلت کے مرتکب ہوکر ملک میں انتشار کی سبب بنتی ہے۔ اور اس گناہ میں تمام ریاستی شرکت دار برابر کے شریک ہے جنہوں نے اس انتشار کی اجازت دے رکھی ہے۔
جب عاصمہ جہانگیر نا رہی تو حسب روایت انکے نام پر عاصمہ جہانگیر فاونڈیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ اس فاونڈیشن کی جانب سے ہر سال عاصمہ جہانگیر کے نام سے کانفرنس منعقد کی جاتی ہے۔ جس میں ان لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن ریاستی مخالف ترجیحات رکھتے ہو۔ کبھی آپ نے سنا ہو کہ کانفرنس کی انتظامیہ کی جانب سے مثبت سوچ کے لوگوں کو بلایا گیا ہو۔ اسی لئے اس کانفرنس میں ہر سال کی طرح اس بھی بد نظمی دیکھی گئی۔ اس کانفرنس کو اتنے بڑے پیمانے پر منعقد کرنے لئے بڑی بھاری مقدار کی فنڈنگ کی ضروت ہوتی ہے۔ اور اسے کون سپانسر کرتے ہے یہ بہت ہی اہم سوال ہے جس پر بہت سے ذرائع کا دعوٰی ہے اسے اسپین، برطانیہ، یورپی یونین، ڈنمارک وغیرہ معاشی معاونت فراہم کرتے ہے۔ اسی لئے اس کانفرنس میں مختلف غیر ملکی سفیر شریک ہوکر اپنے فلسفے جھاڑتے ہے۔ کانفرنس میں بد نظمی تب پیش ائی جب جرمنی کے سفیر نے فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت پر احتجاج کرنے والے افراد پر غیر سفارتی اور بداخلاقی پر مبنی جملے کسے۔ جرمنی کے سفیر کی غیر شائستہ گفتگو پر اس وقت پورا پاکستان سراپا احتجاج ہے اور جرمن حکومت سے عوام مطالبہ کر رہی ہے کہ پاکستان اور جرمنی کی عوام ایک دوسرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہے، اسے ایک شخص کی نفسیاتی مرض کے بھینٹ نا چڑھنے دے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس پر کسی قسم کی وضاحت تاحال نا آسکی جس سے معلوم ہوا کہ یہ سب ہونے کے باوجود پاکستان ضبط کر مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس کانفرنس کے اندر اور باہر سول سوسائٹی کا احتجاج کیا گیا، احتجاج کرنے والے افراد نے عدلیہ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرتے ہوئے شرکاء نے کہا کہ عدلیہ انصاف کی فراہمی پر توجہ مرکوز رکھے۔ مظاہرین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں موجود شرکاء نا تو خود فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت پر پر بات کر رہے ہیں اور ناہی احتجاج کرنے والوں کو اظہار آزادی رائے کے تحت بات کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ مظاہرین نے کہا کہ کانفرنس میں شر پسندوں کی جانب سے بلوچستان میں شہریوں کے قتل پر بات نہیں کی جا رہی جہاں دن دہاڑے دہشتگردوں کی جانب سے ائے روز معثوم اور بے گنا شہریوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا ہے، لاپتہ افراد پر پروپیگنڈے کرنے والوں کو بلایا جاتا ہے جبکہ لاپتہ افراد کا دہشتگرد جماعتوں میں شامل ہونے پر کوئی بات نہیں کرتا اور نا ہی بلوچستان کی ترقی، امن و امان اور خوشحالی پر بات کی جاتی ہے۔ اسی لئے اس کے سپانسر، فاونڈیشن اور اس کانفرنس پر پابند لگائی جائے تاکہ ملک مزید شرانگیزی سے بچ سکے۔