اسلحہ بردار کا بائیکاٹ


تحریر۔نظام الدین

کراچی شہر گزشتہ 40 سالوں سے مشکل دور سے گزرہا ہے، جسے بدترین دہشتگردی اور اسٹریٹ کرمنلز کا سامنا رہا ہے ، اس تمام صورتحال کا مرکزی کردار اسلحہ رہا ہے ؟
سندھ پولیس کی لائسنسنگ برانچ کے مطابق، 2023 تک، کراچی میں تقریباً 114,000 لائسنس یافتہ اسلحہ موجود تھا ،
جبکہ غیر قانونی لانسنس یافتہ اسلحے کی تعداد کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے کیوں ؟
“اخباری اطلاع کے مطابق”
کچھ عرصے پہلے خفیہ اطلاع پر ایف آئی اے نے حیدرآباد میں کسٹم انسپیکٹر مومن شاہ کے گھر پر چھاپہ مارکر 67 لانسنس یافتہ مختلف قسم کا اسلحہ برآمد کیا “تب” انکشاف ہوا ان میں 23 اسلحے اسمگلنگ شدہ ہیں جسے قانونی بنایا گیا تھا ؟
ایف آئی اے نےاس اسمگل شدہ اسلحے کو قانونی بنانے کی محکمہ داخلہ سے وضاحت طلب کی تو محکمے کے حکام وضاحت دینے کے لئے لیت ولعل سے کام لیتے رہے ،
محکمہ داخلہ کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ کچھ ڈیلر اپنی دکان کا اسٹیمپ لگاکر اسلحہ دے دیتے ہیں جسے محکمہ داخلہ سندھ اسلحہ ڈیلر کے اسٹیمپ پر لائسنس جاری کردیتا ہے ؟
ایف آئی اے نے محکمہ داخلہ سے کئی بار جواب طلبی کی تب بھی محکمہ داخلہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ایف آئی اے حکام نے اس معاملے پر عدالت سے استدعا کی کہ محکمہ داخلہ سندھ سے جواب طلب کرے۔ اس طرح یہ معاملہ عدالت میں پیش ہے جس پر تبصرہ ممکن نہیں ، لیکن آس صورت حال میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سندھ کے 500 اسلحہ ڈیلروں میں سے کتنے اس طرح کا کام کرہے ہیں؟ یہ کیس ایک مثال ہے ،
جبکہ کچھ عرصے پہلے اخبار کے ایک رپورٹر سے خصوصی گفتگو میں سی ٹی ڈی کے انچارج راجہ عمر خطاب نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں لانسنس یافتہ اسلحہ کے علاؤہ لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے جسے اسٹریٹ کرمنلز استعمال کرتے ہیں ، ائی جی سندھ نے اسلحہ کی سپلائی لائن پر خصوصی ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیا تھا لیکن کوشش کے باوجود سی ٹی ڈی ڈیٹا حاصل کرنے میں ناکام رہی کیونکہ محکمہ داخلہ سندھ نے سی ٹی ڈی کو معلومات فراہم نہیں کی ؟
کراچی شہر میں جہاں اس طرح کی صورت حال ہو وہاں لانسنس یافتہ اور غیر قانونی اسلحہ کی پہچان کیسے ممکن ہوسکتی ہے ؟
پاکستان میں، آتشیں اسلحہ رکھنے اور لے جانے کو پاکستان آرمز آرڈیننس، 1965، اور پاکستان آرمز رولز، 1965 کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے۔ ان قوانین کے مطابق، ایک شخص کو آتشیں اسلحہ رکھنے کے لیے متعلقہ حکام سے لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ،
پاکستان میں لائسنس یافتہ ہتھیار لیکر چلنے سے متعلق کچھ اہم دفعات شامل ہیں:

  • عوامی مقامات پر آتشیں
  • لائسنس متعلقہ حکام، جیسے صوبائی محکمہ داخلہ یا ضلع کلکٹر کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے ،
  • لائسنس عام طور پر ایک مخصوص مدت عام طور پر 3-5 سال۔ کے لیے ہوتا ہے ،
  • لائسنس ہولڈر کی عمر کم از کم 25 سال ہونی چاہیے اور اس کا مجرمانہ ریکارڈ صاف ہونا چاہیے۔
  • ہتھیاروں کی کچھ قسمیں، جیسے شارٹ بیرل رائفلز اور ہینڈگن، لے جانے کے لیے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔
  • حساس علاقوں، جیسے عدالتوں، ہسپتالوں، یا تعلیمی اداروں میں آتشیں اسلحہ لے جانا سختی سے ممنوع ہے۔
    آرمز ایکٹ، 1958، اور پاکستان آرمز رولز، 1962 کے مطابق، پاکستان میں عوامی مقامات پر لائسنس یافتہ ہتھیاروں کی نمائش عام طور پر ممنوع ہے۔
    اگر کوئی شخص بغیر اجازت عوامی جگہ پر لائسنس یافتہ ہتھیار کی نمائش کرتا پایا جاتا ہے، تو اسے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، بشمول:
  • جرمانہ( 10,000), 3 سال قید
  • ہتھیاروں کے لائسنس کی منسوخی شامل ہیں ،
    اسلحہ رکھنے کے قوانین مختلف ممالک میں الگ الگ ہوسکتے ہیں، بلکہ کسی بھی ملک کے علاقوں میں قوانین مختلف ہوسکتے ہیں نوعیت ؤ بیان مختلف ہوسکتے ہیں لیکن قانون برائے اسلحہ عام شہری کے لیے ہی نہیں حکومتی اہلکاروں پر بھی لاگو ہوتے ہیں
    عام طور پر، پاکستان میں اسلحہ لائسنس کے اجراء کو آرمز ایکٹ 1958 اور آرمز رولز 1961 کے قوانین کے مطابق، ایک فرد کو اسلحہ لائسنس حاصل کرنے کے لیے اہلیت کے کچھ معیارات پر پورا اترنا ضروری ہے، بشمول دماغ اور جسم کا صحت مند ہونا ” اگر کوئی فرد نفسیاتی مریض ہے تو لائسنسنگ اتھارٹی نفسیاتی سرٹیفکیٹ کی تشخیص کرانے کی ہدایت کرتا ہے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ آیا یہ فرد ہتھیار رکھنے کے قابل ہے یا نہیں۔
    پاکستان میں نفسیاتی حالات کے حامل افراد کے لیے اسلحہ لائسنس کے حوالے سے مخصوص تقاضوں ،ضوابط قوانین موجود تو ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ،
    آب شہر کراچی کی صورتِ حال یہ ہے کہ کسی کی شادی بیاہ ہو نئے سال کی پارٹی ہو ، کرکٹ میچ جیتنے پر ہارنے پر فائرنگ شروع کردی جاتی ہے ؟ انتہا تو یہ ہے کہ معمولی تلخ کلامی پر بھی اسلحہ نکل آتا ہے جس سے ہر سال درجنوں زندگیاں گن کلچر کے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں
    جہاں اس طرح کی صورت حال ہو جائے اور ریاست بے بس نظر آئے تو وہاں عام شہری اپنا کردار ادا کرتے ہیں ،
    جب کوئی شخص کسی علاقے ، گلی محلے میں کسی تلخ کلامی پر اسلحہ نکالے یا شادی بیاہ پر فائرنگ کرے غرض یہ کہ کسی بھی موقع پر اسلحہ کی نمائش کرے تو ہر شہری کا فرض ہے کہ فائرنگ کرنے والے شخص کا مکمل سوشل بائیکاٹ کردیں وہ شخص کسی کا بھی کتنا ہی عزیز یا رشتے دار اثر رسوخ والا ہی کیوں نہ ہو جب تک وہ شخص اسلحہ نکالنے پر معافی نہ مانگے اور دوبارہ ایسی غلطی کرنے کا وعدہ نہ کرئے اس کا مکمل سوشل بائیکاٹ رکھا جائے تب شہر سے گن کلچر کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے ،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *