طارق خان ترین
ریچرڈ گرینل کی عمران خان کے حق میں حمایت اور پاکستان کے معاملات پر ان کے بیانات نے نہ صرف سفارتی اصولوں کو چیلنج کیا ہے بلکہ پی ٹی آئی کی سیاست کی اندرونی کمزوریوں کو بھی نمایاں کیا ہے۔ عمران خان کا یہ دعویٰ کہ انہیں امریکہ نے اقتدار سے ہٹایا، سائفر کو ایک اہم ثبوت کے طور پر پیش کرنا، اور پھر اس پر “کھیلنے” کے منصوبے کا اعتراف، ایک ایسی سیاست کو ظاہر کرتا ہے جو قومی مفادات پر مبنی نہیں بلکہ ذاتی مفادات پر مرکوز ہے۔ لیک آڈیو اور مسلسل بیانیہ تبدیل کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے بیانات عوام کو گمراہ کرنے اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
عمران خان نے پہلے امریکہ کو اپنی برطرفی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور پھر یو ٹرن لیتے ہوئے جنرل باجوہ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ بعد میں جنرل فیض حمید کو اس کا محرک کہا۔ یہ مسلسل بیانیے کی تبدیلی نہ صرف عوام کو الجھن میں ڈالتی ہے بلکہ ان کی سیاست کی غیر یقینی اور کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک طرف وہ امریکہ پر الزامات لگاتے ہیں، اور دوسری طرف تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ یہ تضاد نہ صرف ان کی سیاست کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ ان کی جماعت کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔
کل تک عمران خان اور پی ٹی آئی “ایبسلوٹلی ناٹ” کا نعرہ لگاتے ہوئے عالمی سطح پر اپنی قیادت کو اسلام اور مشرق کے محافظ کے طور پر پیش کر رہے تھے، اور آج امریکی کانگریس مین اور شخصیات سے منتیں کر رہے ہیں۔ یہ رویہ ان کے اصولوں اور دعووں کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ سیاست جھوٹ اور تضادات پر مبنی نہیں ہونی چاہیے، لیکن پی ٹی آئی کے حالیہ اقدامات نے ثابت کیا ہے کہ ان کی سیاست قومی مفادات کے بجائے ذاتی اقتدار کے گرد گھومتی ہے۔
رچرڈ گرینل کی حمایت، جو ایک پرجوش ایل جی بی ٹی کیو حامی ہیں، پی ٹی آئی کی سیاست میں مزید تنازع پیدا کرتی ہے۔ یہ وہی ایل جی بی ٹی کیو گروہ ہے جو پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں ایک متنازع قانون سازی کرنے کی کوشش میں ملوث تھا، جسے بعد میں شرعی عدالت نے کالعدم قرار دیا۔ کیا عمران خان کو واقعی ان افراد کی حمایت کی ضرورت ہے جو نہ صرف پاکستان کے اقدار کے خلاف ہیں بلکہ اپنی ذاتی ایجنڈے کو بھی پروان چڑھاتے ہیں؟
عمران خان کی سیاست اب ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں وہ بیرونی مدد پر انحصار کر رہے ہیں، چاہے وہ مدد کسی بھی قیمت پر ہو۔ ایک لیڈر جو اپنے ملک میں اندرونی حمایت کھو چکا ہو، وہ غیر ملکیوں پر انحصار شروع کر دیتا ہے، لیکن جب وہ غیر ملکی شخصیات بھی ایسے ہوں جو پاکستان کے ثقافتی اور مذہبی اقدار کے منافی ہوں، تو یہ ایک سنگین سوال اٹھاتا ہے۔ کیا یہ وہی جماعت ہے جو خود کو اسلام کے محافظ اور قومی خودمختاری کی علمبردار سمجھتی تھی؟
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا رویہ نہ صرف اپنی جماعت کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی اور سماجی ساخت کو بھی کمزور کر رہا ہے۔ جھوٹ، تضاد، اور غیر ملکی حمایت پر انحصار ایسی سیاست کی نشانی ہے جو اپنی بنیاد کھو چکی ہو۔ عوام کو اکسانا اور ملک کو ایک دلدل میں دھکیلنے کی کوشش نہ تو سیاست ہے اور نہ ہی قیادت۔ یہ صرف ایک خود غرض ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔
رچرڈ گرینل جیسے متنازع شخصیات کی حمایت حاصل کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کی سیاست کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اب یہ سیاست قومی مفادات سے زیادہ ذاتی فائدے اور بین الاقوامی تعلقات پر مبنی ہے۔ ایک سیاسی جماعت جو اپنے رہنماؤں کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی سطح پر کمزور ہو، اس کے لیے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کے رہنما خود اس کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں غیر ملکی مداخلت کا رجحان خطرناک ہے اور اس سے قومی خودمختاری پر منفی اثر پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کی غیر ملکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش نے نہ صرف اس کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ عوام میں بے اعتمادی بھی پیدا کی ہے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستانی عوام ان تضادات کو پہچانیں اور اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔
عمران خان کی سیاست اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں ان کی قیادت پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ عوام اور اداروں کے خلاف مسلسل بیانات اور غیر ملکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش نے ان کی جماعت کو قومی سیاست میں مزید تنہا کر دیا ہے۔ ایک ایسی سیاست جو جھوٹ اور تضادات پر مبنی ہو، وہ نہ صرف عوام بلکہ ملک کے مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
پاکستان کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک ایسی جماعت جس کے رہنما خود اس کے اصولوں اور دعووں کے خلاف کام کر رہے ہوں، اس کے پاس ملک کے لیے کچھ دینے کو نہیں۔ رچرڈ گرینل جیسے افراد کی حمایت لینا اور اس پر انحصار کرنا صرف ایک چیز کی علامت ہے: سیاست کا زوال اور قیادت کا بحران۔