تحریر۔طارق خان ترین
ٹی ٹی پی خوارج کی دفاعی شوریٰ کے سربراہ، دہشت گرد خارجی کمانڈر نصراللہ عرف مولوی منصور کو دھر لیا گیا۔ ٹی ٹی پی کے کمانڈر نصراللہ عرف مولوی منصور کو ایک انتہائ پیچیدہ اور مشکل آپریشن کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔ بلوچستان میں ٹی ٹی پی خوارج اور بی ایل اے مجید برگیڈ کے گٹھ جوڑ سے دہشت گرد کاروائیوں کیلئے اڈے بنانے کا منصوبہ بنایا جارہا تھا جنہیں بروقت گرفتار کر کے ہمارے دفاعی اداروں نے اپنی مہارت کا لوہا پھر سے منوا لیا۔ خارجی دہشتگرد نصراللہ کے ہوشربا انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ میں ٹی ٹی پی کے بننے سے پہلے بیت اللہ محسود کے پلیٹ فارم سے تخریبی کاروائیوں میں حصہ لیتا رہا ہوں، اور آپریشن ضرب عضب کے دوران افغانستان فرار ہو گیا تھا۔ انہوں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان اور پاک افغان بارڈر پر پاک فوج کی پوسٹوں پر تخریبی کروائیاں کیں۔ کمانڈر نصراللہ نے کہا کہ گرفتاری کے وقت ٹی ٹی پی شوریٰ کے دفاعی کمیشن کے سربراہ کے طور پر کام کر رہا تھا، جہاں میں تمام تر عسکری، مالی اور انتظامی امور کو مرکزی طور پر کنٹرول کر رہا تھا۔ کمانڈر نصراللہ عرف مولوی منصور نے بھارتی نیکسز کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے افغان طالبان کی مکمل پشت پناہی کیساتھ بی ایل اے مجید برگیڈ اور ٹی ٹی پی خوارج کا الحاق کروایا۔ انہوں نے بھارتی خواہش کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے کہا کہ را کی خواہش TTP اور BLA کا اتحاد ہے۔ انکشافات کا سلسلہ تھم نا سکا کمانڈر نصراللہ نے بتایا کہ را کا مقصد تھا کہ بلوچستان خضدار کے علاقے میں دہشتگردی کے ٹھکانے بنائے جائیں۔
قارئین کرام سی پیک نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ پورے خطے کے لئے ایک گیم چینجر ہے، اس کی حقیقت اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو اس کے کامیابی کا اندازہ آپ سی پیک کے مخالفت کرنے والوں کے چیخ و پکار سے کر سکتے ہے۔ ٹی ٹی پی کے کمانڈر، اور انکے دفاعی سوری کے سربراہ نصراللہ نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے ٹی ٹی پی اتحاد کا ہدف پاک چین دوستی اور CPEC کو سبوتاژ کرنا ہے۔ لاپتہ افراد پر پروپیگنڈہ کرنے والوں، ان پر سیاست چمکانے والوں، بلوچ یکجہتی کونسل بنانے اور اس پر عورت کارڈ کھیلنے والوں، بیرونی اداروں سے لاپتہ افراد پر پیسہ بٹورنے والوں، اختر جان مینگل جیسے سیاستدانوں کا لاپتہ افراد پر رولا رونے والوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کمانڈر نصراللہ عرف مولوی منصور نے کہا کہ بی ایل اے ٹی ٹی پی اتحاد کا ایک ہدف اغواء برائے تاوان کر کے گمشدہ لوگوں کا بیانیہ بنانا بھی ہے، اور ان تمام تر معاملات پر نور ولی کی ہندوستانی سفارت خانے سے ملاقاتیں، را کے اہلکاروں سے کابل میں بھارتی سفارت خانے میں ملتا رہا ہے، اور ان تمام تر معاملات کے لئے انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کا تمام پیسہ را سے آتا ہے۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے نیکسز کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے گرفتار ٹی ٹی پی کمانڈر نے انکشاف کیا کہ نور ولی محسود بی ایل اے کمانڈر بشیر زیب سے بھی کابل میں بھارتی سفارت خانے میں ملتا رہا ہے۔
افغانستان کی عبوری حکومت کا بیانیہ کہ افغانستان کی سرزمین ہرگز پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہورہی، کا بھانڈا پاش کرتے ہوئے کمانڈر نصراللہ نے انکشاف کیا کہ مولوی نور ولی محسود سمیت ٹی ٹی پی کی تمام قیادت اور بی ایل اے مجید برگیڈ کا کمانڈر بشیر زیب بھی افغانستان میں موجود ہے۔ گرفتار کمانڈر یہاں تک کہہ دیا کہ ان خوارجیوں کے کمانڈر “مفتی” نور ولی کے پیچھے عبوری افغان حکومت ہے۔ بشیر زیب اور نور والی افغانستان میں آزاد گھومتے ہیں۔ گرفتار کمانڈر نے کہا کہ نور ولی محسود سے بی ایل اے سے الحاق کے معاملے پر میری تلخ کلامی بھی ہوئی۔ بی ایل اے کے کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ بلوچستان کی لوٹ مار میں کوئی اور حصہ دار بنے۔یقین ہے کہ ہمیں بی ایل اے کے لوگوں نے پکڑوایا ہے۔ محسود قوم اور باقی قوموں کے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کمانڈر نصراللہ نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے تمام بڑے اور اہم عہدوں پر محسود قوم کے لوگ مسلط ہیں، تشکیلوں میں مرنے کیلئے باقی اقوام کے خوارج کو استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے نور ولی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی عملی کاررائیوں میں صرف دوسرے قبائل کے بچے ہی کیوں مارے جا رہے ہیں؟ نور ولی دوسروں کے بچوں کو خودکش حملے سے جنت پہنچانے کا فتویٰ دیتا ہے،
*نور ولی اپنے 9 بچوں میں سے کسی کو بھی جنت بھیجنے کیلئے استعمال کیوں نہیں کرتا؟
گرفتار کمانڈر نصراللہ عرف مولوی منصور نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی گزشتہ زندگی اور ٹی ٹی پی خوارج سے وابستگی پر نادم ہوں، نہ صرف اللہ بلکہ ان تمام لوگوں سے معافی کا طلبگار ہوں جن کو میرے نام نہاد جہاد سے نقصان پہنچا۔ گمشدہ افراد پر انہوں کہا کہ بہت سے “گمشدہ” لوگ افغانستان میں موجود ہیں۔ انہوں سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا کہ قبائل آنکھیں کھولیں! نور ولی سے سوال کریں۔ دہشت گرد ٹولوں کے لیڈر عیاشیاں کرتے ہیں اور بچوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ پاکستان مخالف دہشت گرد افغانستان میں آزاد گھومتے ہیں، پُشت پناہی حاصل ہیں انہیں۔ میں نے بے شمار حملے کیے اور کروائے، جنت کے نام پر نور ولی دوسروں کے بچے ہی کیوں مرواتا ہے؟ نُور ولی کے لیے TTP ذاتی جاگیر ہے؟ محسود قبیلہ شُوریٰ میں، باقی قبیلے تشکیلوں میں ایسا کیو؟ ٹی ٹی پی میں غیر محسودوں کا استحصال ہو رہا ہے۔
انٹیلجنس ایجنسی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی اس بڑی اور اہم کاروائی کو عوام میں بے حد پذیرائی مل رہی ہے۔ جسطرح سے انڈین حاضر سروس نیوی کمانڈر کلبھوشن یادو کی گرفتاری کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تک کی سب سے بڑی کامیابی مانی جارہی ہے، اور بی این اے کے کمانڈر گلزار امام شمبے کو جس مہارت کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا، بالکل ایسے ہی تحریک طالبان پاکستان کے اہم کمانڈر اور دفاعی شوری کے سربراہ نصراللہ عرف مولوی منصور کی گرفتاری ہمارے انٹیلیجنس ایجنسیوں،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے موثر صلاحیتوں کا ثمر ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
قارئین کرام کہا جاتا ہے کہ جہاں وسائل ہو، وہاں آپریشن کا بہانہ بنا کر ان وسائل پر قبضہ جمایا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل غلط ہے اور یہ محض پروپیگنڈے کے سوا اور کچھ نہیں۔ آپریشن ضرب عضب کیا گیا کہا پر قبضہ کیا گیا، اسی طرح سے آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں کونسی زمین کونسے معدنیات یا پھر وسائل پر قبضہ جمایا گیا؟ یہ پروپیگنڈے، ایک وقت تھا کہ جب ملک کے دشمن ایسے من گھڑت دروغگوئیوں کو پھیلاتے تھے، آج کل تو بد قسمتی سے ہمارے اپنے سیاسی پارٹیوں کے سربراہان نہ صرف ان پروپیگنڈوں سے اثرپذیر ہیں بلکہ انہیں پھیلانے میں بھی پیش پیش ہیں۔ آج آپ ٹائمز آف انڈیا کا اخبار دیکھئے تو اس آپریشن پر پر لکھا گیا ہے کہ “پاکستان آرمی دہشتگرد تنظیموں کا پتہ لگانے میں ناکام رہا ہے”۔ جبکہ یہی کچھ آج ہمارے سیاستدان کہہ رہیں ہیں۔ ائے روز ہمارے سیکیورٹی اداروں کے شیر دل نوجوان اس وطن کی تحفظ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہیں ہیں، ہمارے سویلین عام شہری دہشتگردی کے بھینٹ چڑھ رہیں ہیں، اس پر سیاستدانوں کی جانب سے جو حکومت میں ہوتے وہ تو مذمت کر لیتے ہیں مگر جو حکومت سے باہر کے سیاستدان ہے انکی جانب سے مذمت تک نہیں کی جاتی ہے جوکہ انتہائی طور پر ایک مہذب معاشرے کے لئے ناقابل قبول امر ہے۔ افغانستان بارڈر کے ساتھ متصل شہر چمن میں بارڈر بند ہونے پر پروپیگنڈے انہی سیاسی وڈیروں کی جانب سے کئے جارہے ہے، کوئی پوچھے تو صحیح کہ آخر یہ کمانڈر نصراللہ کیسے پاکستان ائے؟ بلوچ بیلٹ میں لاپتہ افراد پر ڈرامے بازیاں کی جارہی ہے کوئی پوچھے کہ افغانستان میں کون لوگ ہے جو بی ایل اے کے لئے کام کرتے ہیں؟ کیا بلوچستان میں بلوچ قوم پرست لاپتہ افراد کو بہانہ بنا کر اور اس پر پروپیگنڈے چھوڑنے پر معافی مانگیں گے؟ کیا چمن پرلت پر پشتون قوم پرست پروپیگنڈا چھوڑے پر معافی مانگنے کی جسارت کرینگے؟ اور کیا یہ دونوں قوم پرست سیاستدان کمانڈر نصراللہ عرف مولوی منصور کی گرفتاری کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے انٹیلیجنس اداروں کو داد دینگے؟ یا پھر جسطرح سے کلبھوشن یادو، گلزار امام شمبے کی گرفتاری چپ تھے اس مرتبہ بھی چپ ہی رہینگے؟ آج کل تو “آپریشن ضرب عزم” پر بھی پروپیگنڈے کئے جارہے، پوچھنا ضروری ہے کہ کیا یہ آپریشن عوام یا پھر ملک کے خلاف ہے؟ یا پھر یہ آپریشن کیا انہی دہشتگردوں کے خلاف ہے جنہوں مولانا فضل الرحمن پر اور انکے پارٹی کے کارکنوں پر حملے کیے؟ جنہوں نے اے این پی پر حملے کیے، پی ٹی ائی تو پہلے دن سے تحریک طالبان پاکستان کی حامی جماعت رہی ہے، اب اگر حملے ہوتے ہے تو بھی سکیورٹی ادارے تنقید کی زد میں، اور اگر ان حملے کرنے والوں کے خلاف آپریشن کی منظوری ہو تو بھی ادارے تنقید کی زد میں؟ یہ تضاداتی اور عدم استحکام پر مبنی سیاست کب تک جاری رہیگی؟ پاکستان میں آپریشن عزم استحکام ضرور ہونی چاہیے بصورت دیگر کوئی بھی سیاسی پارٹی اور انکے کارکنان سمیت عام عوام مزید دہشتگردی کا متحمل نہیں ہوسکتی جس سے بچانا سکیورٹی اداروں کا فرض بنتا ہے۔