سقوط ڈھاکہ ازسرنو تحقیق

تحریر ۔ نظام الدین

(قسط نمبر 5)

سقوط ڈھاکہ ازسرنو تحقیق کی جہاں کچھ دوست تعریف کررہے ہیں وہاں کچھ دوستوں نے تنقید بھی کی ہے ان میں زیادہ تر کا خیال یہ ہے کہ میں اپنے مضمون میں فوج کی حمایت میں بنگالیوں کو مجرم قرار دے رہا ہوں اور کچھ کا خیال ہے کہ اگر فوج شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار دے دیتی تو ملک دولخت ہونے سے بچھ سکتا تھا؟
یہاں ایک بات اپنے دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہر انسان کا اپنا سوچنے کا نظریہ ہوتا ہے، اور ہر انسان ایک جیسی سوچ کا مالک نہیں ہوتا نہ ہی وہ کسی اور کے نظریات یا سوچ کا پابند ہوتا ہے ، “مگر جب بہت سارے لوگوں کے مختلف نظریات سوچ اور فکر کسی ایک انسان کو شیئرنگ ہوں رہیں ہوں تب” اس شخص میں ایک نئی جہت کا آغاز ہوتا ہے؟ اور مجھے فخر ہے کہ کچھ دوست اپنی سوچ نظریہ اور فکر سے مجھے آگاہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے مجھے مضمون کو آگے بڑھانے میں مدد مل رہی ہے،
آس لیے پہلے ہم پاکستان کے آئین کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کیا کہتا ہے؟
آرٹیکل 17: “کوئی سیاسی جماعت اس آرٹیکل کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کی حقدار نہیں ہوگی ایسی جماعت جو پاکستان کے کسی بھی حصے کی علیحدگی یا آزادی کے خیال کا پروپیگنڈا کرتی ہے یا اس کی حمایت کرتی ہے۔ وفاقی حکومت نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس 2002 (آرڈیننس XIX آف 2002) یا اس وقت کے لیے کسی دوسرے قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا ہے۔”
آرٹیکل 63A: “کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے یا منتخب ہونے کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا اگر:
وہ نظریہ پاکستان، یا پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف کسی بھی طرح کی رائے کا پرچار کر رہا ہے یا عمل کر رہا ہے۔
اسے مجاز دائرہ اختیار کی عدالت کی طرف سے کسی بھی رائے کا پرچار کرنے یا نظریہ پاکستان، یا پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف کسی بھی طرح سے کام کرنے پر سزا سنائی گئی ہے۔”
ان دفعات کا بنیادی طور پر مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جو علیحدگی پسندی، آزادی یا پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرنے والے کسی نظریے کو فروغ دیتی ہے اسے انتخابات میں حصہ لینے یا عوامی عہدہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
“اب” مختصر سا مطالعہ کرتے ہیں
1970 کے پاکستانی عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے
“6” نکاتی پروگرام کا
1.ایک وفاقی آئین جس میں ایک کمزور مرکزی حکومت اور مضبوط صوبائی حکومتیں ہوں۔

  1. براہ راست منتخب پارلیمنٹ۔
  2. وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم، جس میں مؤخر الذکر کو زیادہ خود مختاری حاصل ہو،
  3. مشرقی پاکستان
    (اب بنگلہ دیش) کے لیے ایک علیحدہ صوبائی آئین۔
  4. مشرقی پاکستان کے لیے فیڈرل ریزرو سسٹم اور علیحدہ اسٹیٹ بینک کا قیام۔
  5. مشرقی پاکستان کے لیے ایک علیحدہ ملیشیا۔ “یعنی ” ایک صوبے کی الگ فوج اور انتظامیہ ؟
    ان 6 نکات کے علاؤ کچھ اور “مطالبات “عوامی لیگ کی مہم کا ایک اہم حصہ تھے اور انہیں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی اور سیاسی تفاوت کو دور کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھا گیا 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت سے جیتنے کا یہ ایک بڑا عنصر تھا ؟ اس جیت میں وہ تمام قوتیں
    “بشمول انڈیا” شامل ہوگئیں جو پاکستان مخالف تھیں ,
    اب مطالعہ کریں 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو پاکستان کی کن سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی، بشمول:
  6. مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی (NAP)
  7. جمعیت علمائے اسلام
    (جے یو آئی) مولانا مفتی محمود کی قیادت میں
  8. ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی (اگرچہ بعد میں انہوں نے عوامی لیگ کی مخالفت کی)
  9. پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) جس کی قیادت نوابزادہ نصراللہ خان کر رہے ہیں۔
  10. جمعیت علمائے پاکستان
    (جے یو پی) مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں
  11. عبدالقیوم خان کی قیادت میں مسلم لیگ (قیوم گروپ)
    ان جماعتوں نے عوامی لیگ کے چھ نکاتی فارمولے کی حمایت کی، جس کا مقصد مشرقی پاکستان کو زیادہ خود مختاری دینا تھا۔
    اس صورت حال میں عوامی لیگ نے بنگال میں الیکشن جیت لیا ، تاہم،اس جیت کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں کی حمایت یکساں نہیں رہی، اور کچھ جماعتوں نے بعد میں اپنی حمایت واپس لے لی یا عوامی لیگ کے آزادی کے مطالبات کی مخالفت کی۔ ؟
    اور آگر اس موجودہ دور میں الیکشن ہوتے ہیں اور سندھ میں جئے سندھ کے تمام گروپ بشمول
    پیپلز پارٹی متحدہ قومی موومنٹ ، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی سماجی اور مذہبی جماعتیں الیکشن میں جیئے سندھ کی حمایت کا اعلان کر دیں تو کیا مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کی طرح جیت جیئے سندھ کی نہیں ہوگی ؟؟؟
    جیئے سندھ کے منشور کا بھی مطالعہ کرلیں
    ایک علیحدہ اور خودمختار سندھ قومی ریاست کا قیام
    سندھی زبان، ثقافت اور شناخت کا فروغ
    سندھ کے قدرتی وسائل
    اور دولت کا تحفظ
    سندھ میں سوشلسٹ اور جمہوری نظام کا قیام
    جس کو وہ پنجابی تسلط اور سندھ پر استحصال سمجھتے ہیں اس کے خلاف جدوجہد
    تمام سندھی قوم پرست قوتوں اور گروہوں کا ایک جھنڈے تلے اتحاد
    سندھی قوم کی بین الاقوامی پہچان اور اس کا حق خود ارادیت
    -دنیا کی دیگر مظلوم اقوام اور عوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا قیام
    سامراج، سرمایہ داری، اور جاگیرداری کے خلاف جدوجہد
  • سندھ میں ایک سوشلسٹ اور مساوی معاشرے کا قیام ,
    اگر جیئے سندھ اپنے اس منشور کے مطابق الیکشن جیتی ہے؟ جس کی امید بھی ہے ؟ تو پاکستان کہاں ہوگا ؟؟؟ کیا
    پھر ایک حمود الرحمن کمیشن تیار ہوگا ؟جس کے قیام کا مقصد آج تک متنازع بنا ہوا ہے جس نے 1971 جنگ کی تحقیقات کی اور جنگی جرائم ؤ مظالم کے ذمہ داروں کے لیے سزا کی سفارش کی تھی۔ اور رپورٹ کی سفارشات پر پوری طرح عمل کیا ہی نہیں گیا، جس میں بہت سے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا گیا تھا
    کمیشن نے کئی پاکستانی فوجی افسران اور سیاستدانوں کو جنگی جرائم کے ذمہ دار قرار دیا، جن میں شامل ہیں:
    جنرل یحییٰ خان
    سابق صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر
    جنرل ٹکا خان سابق چیف آف آرمی سٹاف
    جنرل A.A.K. نیازی سابق کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ
    ایڈمرل ایس ایم احسن سابق نیول چیف
    . ایئر مارشل اے آر خان سابق ایئر چیف
    جناب ذوالفقار علی بھٹو سابق صدر اور وزیر اعظم
    رپورٹ میں قید اور ملازمت سے برطرفی سمیت مختلف سزاؤں کی سفارش کی گئی تھی تاہم، ان میں سے بہت سے افراد کو سزا نہیں دی گئی، اور کچھ کو اپنا کیریئر جاری رکھنے کی اجازت بھی دی گئی۔
    مثال کے طور پر:
  • جنرل یحییٰ خان کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا اور عیش و آرام میں رہنے کی اجازت دی گئی۔
  • جنرل ٹکا خان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا لیکن بعد میں بحال اور ترقی دی گئی۔
  • جنرل A.A.K. نیازی کو بھی نرم سزا ملی اور بعد میں رہا کر دیا گیا۔
    ایڈمرل ایس ایم احسن اور ایئر مارشل اے آر خان کو سزا نہیں ہوئی۔
  • جناب ذوالفقار علی بھٹو کو 1979 میں ایک الگ قتل کے جرم میں پھانسی دی گئی، لیکن 1971 کے جنگی جرائم میں ان کے کردار پر توجہ نہیں دی گئی۔
    جنگی جرائم اور مظالم کے ذمہ داروں میں سے بہت سے لوگ سیاسی اثرورسوخ، بدعنوانی اور ان پر مقدمہ چلانے کے لیے سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے سزا سے بچنے میں کامیاب ہو گئے۔ مجرموں کا احتساب کرنے میں ناکامی پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جاتی رہی ہے اور یہ آج تک پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایک متنازعہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔
    1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران، کئی اعلیٰ سطحی پاکستانی فوجی افسران نے مختلف وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ بھی دے یا بھارت کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا، بشمول:
    جنرل محمد شریف کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اخلاقی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے بنگالی بغاوت کو دبانے کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔
    . ایڈمرل اے آر خان چیف آف نیول اسٹاف: حکومت کی جانب سے بحران سے نمٹنے پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
    . ایئر مارشل ایم اختر چیف آف ایئر اسٹاف حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے جنگی کوششوں میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔
    لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کمانڈر، آئی کور حکومت کے بحران سے نمٹنے کے خلاف احتجاج میں استعفیٰ دے دیا۔
    میجر جنرل احتشام ضمیر جی او سی، 14 ڈویژن: بنگالی بغاوت کو دبانے کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کیا۔
    بریگیڈیئر اقبال سنگھا کمانڈر، 27 بریگیڈ حکومت کی جانب سے بحران سے نمٹنے کے خلاف احتجاج میں استعفیٰ دے دیا۔
    ان افسران نے کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ حکومت کی پالیسیوں اور بنگلہ دیش اس کے خلاف فوجی کارروائی سے عدم اتفاق کا اظہار کیا۔ان کے استعفے ان کے اخلاقی مخمصوں کی عکاسی کرتے ہیں ان میں
    اور ہزاروں ایسے فوجی جوان
    اور افسر بھی تھے جنھیں محلاتی سازشوں اور پیچ و خم کی کوئی خبر نہیں تھی۔ جن کا نام دوستوں اور دشمنوں نے عزت سے یاد رکھا۔ جیسے فلائٹ لیفٹیننٹ راشد منہاس، میجر محمد اکرم، میجر شبیر شریف، سوار محمد حسین، لانس نائیک محفوظ وغیرہ۔
    بیوروکریٹس اور سیاستدان
    کچھ بیورو کریٹس نے یحییٰ حکومت کے ہر اقدام کی رطب السانی میں زمین آسمان ایک کر رکھے تھے۔ اس وقت زیادہ اصحاب کے تذکرے کی گنجائش نہیں۔ بطور نمونہ ایک نام کافی ہے جیسے، روئیداد خان۔
    روئیداد خان مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کے آغاز سے جون 1972 تک سیکریٹری اطلاعات رہے۔ ان کا شمار پاکستان کے سدا بہار بیورو کریٹس میں تھا۔ انھوں نے پانچ
    صدور کے ساتھ کام کیا
    یحییٰ حکومت کے دوران انھوں نے بطور سیکریٹری اطلاعات اس بات کو یقینی بنایا کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بھنک مغربی پاکستان والوں کو نہ پڑ جائے۔
    انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مینجنگ ڈائریکٹر اسلم اظہر کو ایک دستاویزی فلم ’دی گریٹ بٹریل‘ بنانے کا کام سونپا جس کی شوٹنگ مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں کی گئی۔
    اس فلم کا مقصد مکتی باہنی کے مظالم اجاگر کرنا تھا۔ چونکہ یہ فلم آپریشن شروع ہونے کے چار ماہ بعد جولائی میں شوٹ ہوئی لہٰذا اس میں جو لاشیں اور کھوپڑیاں دکھائی گئیں ان کے بارے میں یہ طے نہ ہو سکا کہ انھیں کس نے مارا ہے۔ لہٰذا اس فلم کی سکریننگ کا منصوبہ کر کے اسے محمکہ اطلاعات کے ڈبوں میں بند کر دیا گیا۔۔ اس طرح کے افسوس ناک واقعات کی عکسبندی دنیا بھر کی لائبریریوں موجود ہیں ،

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *