تحریر ۔ نظام الدین
(قسط نمبر 4)
حمود الرحمن کمیشن کا مقصد پاکستانی تاریخ کے الم ناک سانحے سقوط ڈھاکہ کے وجوہات اور اس کے زمے داروں کی نشان دہی کرنا تھا تاکہ زمہ داروں کو سزا اور قائد اعظم کے بچے کچھے پاکستان کو کسی نئے حادثے سے محفوظ رکھا جاسکے ،صدارتی حکم نامے پر اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس پاکستان حمود الرحمن کی زیر قیادت تین رکنی ججز نے بحیثیت کمیشن انکوائری کی تھی کمیشن کی سفارشات کے باوجود مکمل رپورٹ آج تک باقاعدہ سامنے نہیں آئی اور اسے اس طرح خفیہ رکھا گیا کہ اس کی پہلی کاپی انڈیا میں منظر عام پر آگئی لیکن رپورٹ انڈیا پہنچا نے والے آج تک منظر عام پر نہیں آسکے ؟ رپورٹ کا لیک مواد آج بھی پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر میں ایک متنازعہ موضوع بنا ہؤا ہے ؟
2000 میں بھارتی صحافی آسیہ اندرابی کی رپورٹ کے اقتباس اخبار دی ہندو میں شائع ہوئے پھر، ٹائمز آف انڈیا اور دی انڈین ایکسپریس کے علاؤ پھر دنیا کے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہے؟ ، آسیہ اندرابی نے دعویٰ کیا کہ انہیں یہ رپورٹ پاکستان کے ایک زرائع سے موصول ہوئی تھی ،
1971 میں میڈیا بنیادی طور پر پرنٹ (اخبارات، رسائل)، ریڈیو اور ٹیلی ویژن تک محدود تھا اور پاکستان میں مارشل لاء کے بعد تو میڈیا سنسر کی زرد میں رہا ، جبکہ 2024 میں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ایک وسیع صف ، بشمول سوشل میڈیا، آن لائن نیوز ویب سائٹس، بلاگز، پوڈکاسٹس، اسٹریمنگ سروسز۔ انٹرنیٹ اور موبائل کی آمد کے ساتھ، میڈیا تک رسائی بہت آسان اور وسیع ہو گئی ہے۔
1974 میں خبروں اور معلومات کو زیادہ تر روایتی چینلز کے ذریعے پھیلایا جاتا تھا، جب کہ آج ہم میڈیا تک کسی بھی وقت، کہیں سے بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔مواد کی نئی قسم بھی تیار ہوئی ہے۔ 1974 میں، میڈیا زیادہ رسمی ، سنجیدہ موضوعات پر توجہ دی۔ جبکہ آج کے دور میں، مواد کی ایک وسیع رینج دیکھتے ہیں، بشمول تفریح، طرز زندگی، اور صارف کے ذریعے تیار کردہ مواد۔
خبروں کی ترسیل کی رفتار میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ 1974 میں، خبریں بنیادی طور پر پرنٹ یا براڈکاسٹ کے ذریعے سفر کرتی تھیں،
موجودہ دور میں ڈیجیٹل چینلز کے ذریعے خبریں بریک اور پھیل جاتی ہیں۔ جدید میڈیا دو طرفہ مواصلات کی اجازت دیتا ہے، سامعین کو مواد کے تخلیق کاروں اور دیگر صارفین کے ساتھ مشغول ہونے کے قابل بناتا ہے۔ 1974 میں، میڈیا کی کھپت بڑی حد تک ایک غیر فعال تھی آج جینیاتی انجینئرنگ جینومکس ،مصنوعی ذہانت مشین لرننگ، موسمیاتی تبدیلی کی تحقیق ، ماحولیاتی مطالعہ ڈیجیٹل انسانیت ، سوشل میڈیا تجزیہ ،طبی، تحقیق،
جدید ٹکنالوجی اور بہت ساری معلومات اور وسائل تک رسائی حاصل ہوئی ہے، جو 1974 میں دستیاب نہیں تھے۔ آج انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، اور بہت کچھ سمیت مختلف میڈیا چینلز کے ذریعے آسانی سے معلومات تک رسائی اور اشتراک کر سکتے ہیں۔ اس سے سیکھنے، بات چیت کرنے اور تجربات کا اشتراک کرنے کی صلاحیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ 1974 میں تحقیق اور معلومات تک رسائی صرف فزیکل لائبریریوں، کتابوں اور اخبارات تک محدود تھی، جب کہ اب ہماری انگلیوں پر ایک وسیع ڈیجیٹل لائبریری موجود ہے جدید عینک کے ذریعے رپورٹ کو دوبارہ جانچنے کے لیے، ماہرین تحقیق کے عصری طریقوں اور تکنیکی ترقیوں کا اطلاق کر سکتے ہیں، جیسے:
ڈیٹا اینالیٹکس اور مشین لرننگ شواہد کا دوبارہ جائزہ لینے اور نمونوں کی شناخت کرنے کے لیے
دستاویزات اور ریکارڈنگ کی تصدیق کے لیے ڈیجیٹل فرانزک
تعلقات اور تعاون کا مطالعہ کرنے کے لیے سوشل نیٹ ورک کا تجزیہ جغرافیائی پہلوؤں کی جانچ کرنے کے لیے جغرافیائی تجزیہ 2024میں ممکن ہوا ہے،
حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ اور سقوط ڈھاکہ کی ازسرنو تحقیق جدید میڈیا کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے مرتب کیا گیا ہے ،
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے چند دستیاب اقتباسات :
1 رپورٹ مشرقی پاکستان میں بنگالی شہریوں اور فوجیوں کے خلاف پاکستانی فوج کی طرف سے بڑے پیمانے پر قتل، عصمت دری اور گرفتاری سمیت بڑے پیمانے پر مظالم کی تصدیق کی گئی ہے ،
- رپورٹ میں پاکستانی فوج اور حکومت کی حکمت عملی پر تنقید کی گئی ہے، جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج نے ہتھیار ڈال دیے۔
- رپورٹ مشرقی پاکستان کے بحران سے نمٹنے میں جنرل یحییٰ خان اور جنرل ٹکا خان سمیت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی ناکامیوں کو
اجاگر کرتی ہے۔ - رپورٹ انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں کو دستاویز کرتی ہے، بشمول جبری نقل مکانی، تشدد، اور ماورائے عدالت قتل۔
5.: رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی فوج نے بنگالی شہریوں کے خلاف مظالم کو انجام دینے کے لیے البدر اور الشمس جیسے اسلامی گروپوں کے ساتھ ملی بھگت کی۔ - رپورٹ میں پاکستانی فوج اور حکومت کی جانب سے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کی کوششوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔
- رپورٹ میں مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کے لیے احتساب اور سزا کو اجاگر کیا گیا ہے،
مگر بھارت کی جارحیت اور پاکستان کے خلاف عالمی قوانین کے خلاف ورزیوں کو بہت مختصر سا اوجاگر کیا گیا ہے آخر کیوں ؟ ۔