تحریر ۔ نظام الدین
(قسط نمبر 3)
تحریک انصاف کے بانی ؤ چیرمین کے ٹوئیٹر سے حمود الرحمن کمیشن سے متعلق ٹوئیٹ پر نئی بحث چھڑی ہوئی ہے تحریک انصاف کی بڑی طاقت سوشل میڈیا سمجھی جاتی ہے جو آج کے نوجوانوں کا مشغلہ بھی ہے آج کا نوجوان سلیبس کے سوا طویل مطالعے سے بہت دور ہے سقوط ڈھاکہ کی تاریخ کیا ہے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کیا ہے اس میں غلط کیا ہے ؟ اور درست کیا ہے ؟ ان تمام باتوں کا حصول سوشل میڈیا کے مختصر کلپ اور پیغام ہی ان کی معلومات کا زریعہ ہے ، سقوط ڈھاکہ سے متعلق راقم نے ازسرنو تحقیق کی تو بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ تا چلا گیا ،
1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران، کئی ممالک نے پاکستان اور انڈیا کی حمایت مختلف انداز میں کی، جبکہ کچھ ممالک غیر جانبدار رہے، سعودی عرب
لیبیا .اردن .ترکی .ایران ۔انڈونیشیا، ملائیشیا، ان ممالک نے پاکستان کی حمایت کی ،
سوویت یونین .مصر شام .عراق .الجزائر .یوگوسلاویہ
یہ ممالک انڈیا کی حمایت کررہے تھے،
برطانیہ: پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے تھا “لیکن پاکستان کی طرف جھکاؤ زیادہ تھا . فرانس نے غیر جانبداری برقرار رکھی لیکن پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ، مغربی جرمنی نے بھارت کی حمایت کی، جبکہ مشرقی جرمنی نے پاکستان کی حمایت کی۔ اٹلی نے غیر جانبداری برقرار رکھی لیکن پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔.چین نے پاکستان کی حمایت کی ، .جاپان نے غیر جانبداری برقرار رکھی لیکن پاکستان کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات تھے۔ .کینیڈا نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے بھارت کی حمایت کی۔، آسٹریلیا: پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے بھارت کی حمایت کی۔ کچھ ممالک، جیسے امریکہ، کے پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ پیچیدہ تعلقات تھے، وہ پاکستان کو امداد فراہم کرتا رہا جبکہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی برقرار تھے۔ دوسری طرف سوویت یونین جنگ کے دوران ہندوستان کا اہم اتحادی تھا۔
اس صورت حال میں اندرا گاندھی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے “را “کے ایجنٹوں نے دنیا کے ان ممالک میں جو پاکستان کی حمایت کر رہے تھے
وہاں پاکستانی فوج کے خلاف انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کی رپورٹیں روز بھارتی میڈیا کی طرف سے پھیلائی جانے لگیں عوامی پریشر کی وجہ سے بین الاقوامی رائے عامہ میں تبدیلی آتی گئی اور جو ممالک پاکستان کی حمایت کرہے تھے وہ غیر جانبدار ہوگئے، کچھ بنگلہ دیش کے حمایتی ہوگئے ،
ان حالات میں پاکستان کے وہ بنگالی جو پاکستان کی طرف سے مختلف ممالک میں کام کر رہے تھے وہ بھی بنگلہ دیش کی حمایت میں نکل آئے سب پہلے
فرانس کے پانیوں میں مشق کرنے والے آپ دوز “پی این ایس”
مانگرو کے آٹھ پاکستانی بنگالی اہلکاروں نے آبدوز چھوڑ کر
’31 مارچ سنہ 1971 کو
اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں واقع انڈین سفارتخانے سے رابط کیا انڈین سول سروس کے اہلکار گردیپ بیدی نے ان کے پاسپورٹس کا معائنہ کیا اور انھیں قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرا دیا۔ اور ان آٹھ اہلکاروں کے نقلی ہندو نام رکھ کر ہندوستانی شہری بتا کر
انڈیا پہنچا دیا اور دلی میں انڈین خفیہ ادارے ’را‘ کے ایک محفوظ ٹھکانے پر ٹھہرایا گیا۔ اس وقت انڈین بحریہ کے ڈائریکٹر نیول انٹیلیجنس کپتان ایم کے میکی رائے نے
بھاگ کر آنے والے بحریہ کے ان اہلکاروں کو آپریشن ’جیک پاٹ‘ کے ساتھ جوڑ دیا ، اور کمانڈر ایم این آر سامنت کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انڈیا اور مشرقی پاکستان کی سرحد کے قریب جہان پلاسی کی جنگ ہوئی تھی وہاں ’مکتی باہنی‘ کے جنگجوؤں کو تربیت دینے کے لیے کیمپ لگایا گیا اور اس کو ’کیمپ ٹو پلاسی‘ کا ایک کوڈ نام دیا گیااس کمیپ میں دن کا آغاز بنگلہ دیش کے قومی ترانے ’امار شونار بنگلہ دیش‘ سے ہوتا تھا اور وہاں موجود سبھی لوگ بنگلہ دیش کے سبز اور نارنجی رنگ کے پرچم کو سلامی دیتے تھے۔ اس کیمپ کی قیادت کرنے والا کمانڈر وجے کپل تھا
انھیں بھارتی بحریہ کے کمانڈو خفیہ طریقے سے بم نصب کرنا آور تیرنا سیکھائے ان کے پیٹ میں کپڑے کے سہارے دو اینٹیں باندھ کر انھیں وزن کے ساتھ تیرنے کی تربیت دی جاتی ،
کمیپ میں تربیت حاصل کرنے والے لوگوں کا انتخاب مشرقی پاکستان سے آنے والے مہاجرین میں سے کیا گیا تھا۔ ان میں کچھ انڈین ایجنٹ جو نفسیاتی ڈاکٹر تھے وہ پاکستانی فوج کے مظالم اور تشدد کی جھوٹی کہانیاں سناکر ان بنگالیوں کے ذہنوں کو پختہ کرتے اور کچھ نشہ آور ادویات دی جاتی کیونکہ آنڈین ایجنٹ ان سے خودکش بمبار کا کام لینا چاہتے تھے ان لوگوں کو جنگی جہازوں کو نقصا پہنچانے کے لیے لمپیٹ مائن کا استعمال سکھایا جاتا اور یہ بھی سکھایا جاتا کہ کس وقت حملہ کرنا ہے۔
جبک ’پانی کے اندر دھماکہ کرنے کے لیے لمپیٹ مائن انڈین بحریہ کے پاس بڑی تعداد میں نہیں تھا ۔ بیرونی کرنسی کی کمی کی وجہ سے انھیں بیرونی ممالک سے نہیں منگوا سکتے تھے۔اور
’اگر بیرونی ممالک سے ان کی سپلائی کا آرڈر دیا بھی جاتا تو پاکستان کو اس کی فوراً اطلاع مل جاتی۔ اس لیے اسے بھارت میں ہی آرڈیننس فیکٹریوں میں تیار کرایا گیا ، یہ ایک طرح کا ٹائم بم بوتا تھا جس ميں مقناطیس لگا ہوتا تھا۔ تیراک انھیں جہاز میں لگا کر بھاگ نکلتے تھے اور اس میں تھوڑی دیر بعد دھماکہ ہوجاتا تھا۔
’دراصل یہ جو لمپیٹ مائن تھی اس میں ایک طرح کا فیوز لگا ہوا ہوتا تھا جو کہ ایک گھلنے والے پلگ کی طرح کام کرتا تھا۔ جو تیس منٹ میں گھل جاتا تھا
150 سے زیادہ بنگالی کمانڈوز کو مشرقی پاکستان کی سرحد کے اندر پہنچایا گيا اور نیول انٹیلیجنس کے چیف اور کمانڈر سامنت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کی چار بندرگاہوں پر کھڑے جہازوں پر ایک ساتھ حملہ کیا جائے۔
سبھی کمانڈوز کو ایک ایک لمپیٹ مائن، نیشنل پیناسونک کا ایک ریڈیو اور50 پاکستانی روپے دیے گئے۔ اور ’ان سے رابطہ کرنے کے لیے واکی ٹاکی کی جگہ پیغام پہنچانے کے لیے انڈیا کے سرکاری ریڈیو اسٹیشن ’آکاش وانی‘ کا استعمال کیا گیا اس لیے سب لوگوں سے لگاتار ریڈیو سننے کے لیے کہا گیا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ جب آکاش وانی کے کلکتہ اسٹیشن ’بی کیندر‘ سے آرتی مکھرجی کا گایا ہوا یہ نغمہ ’امار پوتول آج کے پرتھم جابے سوسر باڑی‘ بجے گا جو ایک طرح کا کوڈ تھا جس کا مطلب تھا کہ جنگجووں کو اس رات چٹ گاؤں سمیت چار بندرگاہوں پر حملہ کرنا ہے ، پاکستان کے قومی دن
14 اگست سنہ 1971 کی آدھی رات کو 100 سے زیادہ بنگالی جنگجوؤں نے اپنے کپڑے اتار کر تیرنے والے ٹرنک اور پیروں میں ربڑ کے ’فِن‘ پہنے۔ انھوں نے لمپیٹ مائن کو (باریک تولیے) کی مدد سے اپنے سینے پر باندھا۔اس پورے مشن میں کپتان سامنت کا اہم کردار تھا۔ مکتی باہنی کے جنگجو شاہ عالم نے سب سے پہلے پانی میں چھلانگ لگائی اور وہ ایک کلومیٹر تیرتا ہوا وہاں کھڑے پاکستانی جہاز کی طرف گیا ۔ اس پورے آپریشن کو فرانس میں پی این ایس مانگرو سے بھاگ کر آنے والے عبدالواحد کنٹرول کر رہے تھے’آدھی رات کا وقت اس لیے مقرر کیا گیا کیونکہ یہ ندی کی لہروں میں تیزی کا وقت تھا اور دوسری وجہ یہ کہ اس وقت جہاز کی شفٹ بھی بدلتی تھی۔ تیز لہروں کی وجہ سے شاہ عالم صرف 10 منٹ میں جہاز کے نیچے پہنچ گیا اس نے اپنے سینے میں بندھی لمپیٹ مائن نکالی۔ گمچھے کو دور پھینکا۔‘
’جیسے ہی مائن کا مقناطیس جہازسے چپکا شاہ عالم نے واپس تیرنا شروع کیا۔ تیرنے والے ٹرنک اور چاقو پھینکا اور واپس اپنی جگہ پہنچ گیا ،
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد رات ایک بج کر 40 منٹ پر پورے چٹ گاؤں کی بندرگاہ میں پانی کے اندر دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی بحری جہاز ’العباس‘ دھماکے کا سب سے پہلے نشانہ بنا اور پانی میں ڈوبنے لگا۔ اچانک دھماکہ سے افراتفری پھیل گئی۔ وہاں موجود فوجیوں نے پانی میں اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ دھماکے جاری رہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لمپیٹ مائن سے کیے گئے سوراخوں سے ’العباس‘، ’اورینٹ بارج نمبر 6‘ اور ’اورمازد‘ جہازوں میں پانی بھرنے لگا اور تھوڑی دیر میں یہ تینوں جہاز پانی میں ڈوب گئے۔
اس رات نارائن گنج، چاندپور، چالنا اور مونگلا میں بھی کئی زوردار دھماکے سنے گئے۔ اس پورے آپریشن میں پاکستانی بحریہ کے 500،44 ٹن وزن کے جہاز ڈبوئے گئے اور 14000 ٹن وزن کے جہازوں کو نقصان پہنچایا گیا
جبک پاکستانی فوج کو اس طرح کے حملوں کی امید نہیں تھی وہ تو زمینی جنگ لڑتے ہوئے مکتی باہنی کو انڈین سرحدوں تک پہنچا چکےتھے لیکن “
اس حملہ کے بعد فوج مجبور ہوگئی مکتی باہنیوں کے خلاف ایک طاقتور آپریشن کرنے کے لیے ، جس کے نتیجے میں مکتی باہنیوں کی ہلاکتیں ہوئیں ان ہلاکتوں کو لیکر انڈین انٹیلیجنس “را” نے انسانی حقوق کی پامالیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا یہ ڈھنڈورا آج بھی پیٹا جارہا ہے ،
جبک آس جیسے دھشت گردی اور دھشت گردوں کو سہولت فراہم کرنے کے بےشمار واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں ،
(جاری ہے)
’