دفاعی نمائش اور ہماری زمہ داری


تحریر۔نظام الدین

پاکستانی اور بین الاقوامی مصنوعات کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لیے ایکسپو سینٹر اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے ، اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں دیگر نمائشوں کی طرح ہر دو سال بعد عالمی سطح کی فوجی دفاعی سازو سامان کی نمائش بھی یہاں منعقد ہوتی ہے،
اس سال “یعنی” ائیڈیاز 2024 میں بھی یہاں 557 نمائش کنندگان نے شرکت کی جن میں سے 333 بین الاقوامی نمائش کنندگان تھے جبکہ 224 ملکی نمائش نمائش کنندگان میں سے 39 مختلف ممالک کے نمائش کنندگان کے اسٹائل لگے تھے جن میں سے 17 ممالک نے پہلی مرتبہ شرکت کی ، آس طرح 55 ممالک کے 300 سے زائد غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی جن کی سیکورٹی کے انتظامات آرمی کے جوانوں کے ساتھ مقامی پولیس نے بھی سمبھالے ،
نمائش کے افتتاح پر وزیراعظم کی جگہ وزیر دفاع نے شرکت کی دوران نمائش آرمی چیف اور دیگر فوجی ؤ سویلین افراد نے بھی شرکت کی، جہاں گلوبل انڈسٹری ڈیفنس سلوشنز پاکستان کی تیار کردہ جدید ترین شائیپر تھری کا افتتاح کیا شائیپر تھری ایک ڈرون ہے جو 35٫000 فٹ کی آپریشنل اونچائی پر 24 گھنٹے پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو بموں میزائلوں اور کارپیڈ سمیت وسیع پیمانے پر گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ، جبک الضرار اور الخالد ٹینک کے بعد تھرڈ جنریشن کا جدید ترین ٹینک متعارف کیا ، نیشنل لاجسٹک تر سیل (این ایل سی)تجارتی ٹرالر بین الاقوامی مندوبین کی توجہ کا مرکز رہا جو پاکستانی سڑکوں کے راستے وسط ایشیا یورپ اور ماسکو کی مارکیٹوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،
مگر عالمی سطح کی اس نمائش تک عام شہریوں کے پہنچنے کے راستوں پر انتظامیہ کی غفلت سے ایسا لگھ رہا تھا کہ انتظامیہ کو اس نمائش سے کوئی غرض نہیں،
عام شہریوں کی امدورفت کے لیے جو راستے مختص کیے گئے تھے وہ زبوحالی کا شکار تھے نیو ٹاؤن سے اسٹیڈیم جانے والا روٹ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار، تھا واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی میٹھے پانی کی پائپ لائن سے روٹ جھیل کا منظر پیش کررہا تھا جس سڑک پر ٹریفک کو ڈائیوٹ کیا گیا تھا وہ اس قابل نہیں تھی کہ ٹریفک کا بوجھ برداشت کر سکے، نیوٹان پولیس اسٹیشن کی جانب سے ، جس سڑک پر ڈرائیورجن دی گئی تھی وہ سڑک شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی جبک ایکسپو سینٹر میں نمائش کی تاریخ واضح تھی لیکن اس کے باوجود بھی انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی نے عوام کو ہر بار کی طرح اس بار بھی رسوا کیا ، انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ ڈائورجن دینے سے پہلے روڈ پر پیوند کاری کا کام کر لیتی اور واٹر اینڈ سورج بورڈ کا عملہ اپنا کام انجام دیتا تب ہی ٹریفک کے فلو میں بہتری لائی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ سڑک پر میٹھے پانی کی پائپ لائنیں پھٹی ہونے کے باعث میٹھا پانی ضائع ہو کر نالوں کی نظر ہو رہا تھا ٹریفک کو مجبورا تالاب نما روڈ سے ہوتے ہوئے گزرنا پڑ رہا تھا۔ سبزی منڈی پر “بی ار ٹی” ریڈ لائن پروجیکٹ پر کام ہو رہا تھا ،
اس کے علاوہ جو ٹریفک پولیس اہلکار وہاں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے وہ بھی شدید اذیت میں مبتلا تھے اس انتظامی غفلت کا غصہ عوام دفاعی نمائش کی انتظامیہ پر تنقید کی صورت میں نکال رہے تھے جو یقینا پاک فوج کی طرف اشارہ تھا یاد رہے جو لوگ پاک فوج پر ”ہمہ اوست“ کا ٹھپہ لگاتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے ان کا مبلغِ بحث و مباحثہ صرف سیاسی تاریخ تک یا تنقید تک ہی محدود ہوتا ہے، ایکسپو سینٹر سنہ 2000 میں منعقد ہونے والی پہلی دفاعی نمائش کا جب آغاز ہوا تھا تو کچھ دن پہلے کراچی میں پہلی مرتبہ نوائے وقت اخبار کے دفاتر پر خودکش حملہ ہوا تھا اس کے بعد وہ ائیڈیاز 2018 کے شروع ہونے سے تین دن قبل چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کا حملہ ہو یا پھر چھ اکتوبر 2024 ایئرپورٹ پر چینی شہریوں کے کانوائے پر خودکش حملہ اس کے بعد سے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہتا چلا گیا ، ہردوسال بعد ہونے والی نمائش سے پہلے اس طرح کے حملوں کا ہونا دشمن کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے کہ دشمن اس نمائش کو ناکام بنانا چاہتا ہے ،
وہ حضرات جو اس فوجی دفاعی نمائش پر تنقید کر رہے ہیں اور معدنیات کے ذخائر پر فوج کے قبضے کی باتیں کرتے ہیں ؟ ان حضرات کو کون بتائے کہ اسلام کی سیاسی تاریخ تو ہجرتِ مدینہ پر آکر ختم ہو گئی تھی۔ یکم ہجری کو ایک نئی اسلامی تاریخ شروع ہوئی جس میں دفاعی امور اول میں تھے اور سیاسی و غیر دفاعی امور عقب میں؟ قیامِ مدینہ کے دس برس آنحضور ؐ نے غزوات و سریات کے نرغے میں بسر فرمائے ؟
میرے تایا جناب کریم الدین جو برطانوی ہند کی فوج میں شامل تھے تقسیم کے بعد پہلے بنگال پھر کراچی میں تعینات رہے اس وجہ سے میرا بچپن کنٹونمنٹ ایریاز میں گزا تھا وہ بتاتے تھے کہ تقسیم ہند کے بعد تمام آرڈینس فیکٹریاں انڈیا کے حصے آگئیں تھیں جس کی وجہ سے ان کی مادی تقسیم نہیں ہوسکی بلکہ آرڈینس فیکٹریوں کے لیے جو خام مال درکار ہوتا وہ بھی پاکستان کے پاس نہیں تھا اور جب تک پاکستان ایسے علاقے دریافت نہیں کرلیتا جہاں یہ خام مال موجود ہو اس وقت تک پاکستان گولہ بارود بھی نہیں بنا سکتا تب معدنیات کی تلاش کے ساتھ 2 مئی 1949 کو واہ کینٹ کے علاقے میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری کی تعمیر کا آغاز کیا اور اگر گولہ بارود کے خام مال کے لیے معدنیات تلاش نہ کی جاتی تو آرڈینس فیکٹری کا مقصد ختم ہوجاتا پاکستان خام مال کے لیے دنیا کے طاقتور ممالک کا محتاج رہتا اور آج جو دفاع میں پاکستان خودکفیل ہو رہا ہے وہ بھی ممکن نہیں ہوتا
آج میرے تایا اس دنیا میں تو نہیں ہیں مگر پاکستان میں دفاعی سامان بنانے کی صنعت کے پانچ ادارے نہ صرف اپنی ضرورت کا سامان پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں بلکہ وہ بعض مصنوعات برآمد بھی کررہے ہیں ان اداروں میں
پاکستان آرڈیننس فیکٹری، کامرہ میں قائم پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این آر ٹی سی) اور کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئیرنگ ورکس کے ادارے شامل ہیں۔
پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں چھوٹے اور درمیانے ہتھیاروں، ایمونیشن جس میں چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر ایئرکرافٹ اور اینٹی ایئرکرافٹ ایمونیشن، آرٹلری، ٹینک اور اینٹی ٹینک ایمونیشن، مارٹر گولے اور دیگر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں۔
اسی طرح ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا میں مختلف ٹینکس، آرمرڈپرسنل کیریئرز اور دیگر دفاعی مصنوعات تیار ہو رہیں ہیں ہیں۔ پاکستان کے تیار کردہ الخالد ٹینک، الضرار ٹینک، اے پی سی طلحہ، ٹی وی سیز اور الحدید ٹینک اہم اور معروف مصنوعات میں شامل ہیں۔
اگر پاکستان کے ایروناٹیکل کمپلیکس کی بات کی جائے تو وہاں جے ایف-17 تھنڈر طیاروں، ڈرون طیاروں سمیت ہلکے سپر مشاق طیارے تیار کیے جاتے ہیں۔ جب کہ اس کے علاوہ طیاروں کی اوور ہالنگ، مرمت اور اسمبلنگ کے ساتھ ساتھ ایوی ایشن ہارڈ ویئر کا بھی کام کیا جاتا ہے۔
این آر ٹی سی میں جدید ریڈیوز، ڈیجیٹل انٹرکام سسٹم، فیلڈ فونز، جیمرز، ڈیجیٹل فارنزک، مختلف روبوٹس، سرویلنس وہیکل سسٹم، ٹریکنگ سسٹم، ریڈارز اور دیگر آلات تیار کیے جارہے ہیں۔
جب کہ کراچی شپ یارڈ میں بحری جہازوں، بحری جنگی جہازوں اور سب میرینز کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے آئل ٹینکرز، بڑی کرینز، ایل پی جی اسٹوریج ٹینکس کی تیاری اور ان کی مرمت کا کام کیا جاتا ہے ،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *