فیلڈ جنرل کورٹ مارشل؟


(ترتیب)
(نظام الدین)

میرے ایک جذباتی دوست پریشان تھے کہ فوج کے اندر چلایا جائے والا مقدمہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا ہے ؟
ان کے پریشان ہونے کی وجہ پرنٹ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر تبصرے تجزیے اور تنقیدیں ہیں جس سے عام عوام میں اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور مختلف قسم کی افواہیں گردش کر رہی ہیں ؟ کیونکہ” پاکستان آرمی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سابق ڈی جی “آئی ایس آئی” کو کورٹ مارشل کا سامنا ہے ؟
اس صورت حال پر وہ دوست فرمائے لگے کہ تم اس پر کچھ روشنی ڈالو؟
راقم” نے اپنے دوست اختر بھائی کو حالیہ دنوں آرمی انٹر سروس پیک ریلیشنز کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انٹیلیجنس ادارے کے سابق سربراہ رٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات کے بعد مناسب تادیبی کارروائی فوجی قوانین کے مطابق چلایا جائے والا مقدمہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہلاتا ہے ،
یہ ایک ایسی فوجی عدالت ہے جس میں مسلح افواج کے نوجوانوں اور افسروں کے خلاف فوجی نظم و ضبط اور جنگی قوانین کو توڑنے کا مقدمہ چلایا جاتا ہے جو کورٹ مارشل کہلاتا ہے۔
“”حالانکہ ماضی میں کچھ افسران پر فیض حمید سے زیادہ سنگین الزامات کا سامنا رہا ہے””
کورٹ مارشل کا تصور دنیا بھر میں فوجی دستوں میں ایک عام رواج ہے ، مگر، ثبوت کے قواعد ، مقدمے کے طریقے کار اور اپیل کے عمل مختلف ہوتے ہیں اس پر عمل درآمد بھی مختلف ہوتا ہے ،
اس طرح فوجی دستوں میں کورٹ مارشل کا تصور عالمگیر ہے جو ان کے منفرد قانونی طرزِ اور فوجی روایات کی عکاسی کرتا ہے ،
برطانیہ میں 1951ء آرمڈ فورسز ایکٹ فوجی انصاف کو کنٹرول کرتا تھا 2006 میں عدالت مرافعہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جبک” کورٹ مارشل کا امریکی نظام بھی برطانوی نظام کے مشابہ ہے،
شمالی کوریا اور چین میں سخت فوجی انصاف کا نظام ہے جہاں معمولی جرائم پر پھانسی تک کی سزائیں ہیں ،
سعودی عرب سخت سزاؤں کی شہرت رکھتا ہے بشمول سر قلم کرنا
کینیڈا نیشنل ڈیفنس ایکٹ اور آسٹریلیا ڈیفنس ڈسپلن ایکٹ 1982 فوجی انصاف کو کنٹرول کرتے ہیں ،
بھارت آرمی ایکٹ 1950 نیوی ایکٹ 1957 اور ایر فورس ایکٹ 1950 ملٹری جسٹس کو کنٹرول کرتا ہے ،
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 نیوی آرڈینس 1961 اور ایر فورس ایکٹ 1953 ملٹری جسٹس کورٹ مارشل موت قید یا اس سے کم سزائیں دے سکتا ہے ،
پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک کئی فوجی اہلکاروں، افسران اور عام شہریوں کو مارشل لاء کے تحت سزائیں دی جا چکی ہیں۔
1951، راولپنڈی سازش کیس
میں میجر جنرل اکبر خان سمیت 11 فوجی افسران کو حکومت کے خلاف سازش کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ،
1958: میں خان عبدالغفار خان سمیت کئی سیاست دانوں کو حکومت کی مخالفت کرنے پر قید کی سزا سنائی گئی۔
1967: اگرتلہ سازش کیس
35 بنگالی فوجی افسران اور شہریوں کو مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ سازش کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئیں
1971: بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں کئی پاکستانی فوجی افسران بشمول جنرل A.A.K. نیازی، کو جنگی جرائم کے جرم میں قید کی سزا سنائی گئی
1980 کی دہائی: ضیاء الحق کے دور میں فوجی عدالتیں
سینکڑوں سیاسی کارکنوں بشمول طلباء اور مزدور رہنماؤں کو حکومت کی مخالفت کرنے پر قید یا کوڑوں کی سزا دی گئی۔
1990 کی دہائی: پرویز مشرف کے دور میں فوجی عدالتیں
سیاست دانوں اور صحافیوں سمیت کئی عام شہریوں کو حکومت کی مخالفت کرنے پر قید کی سزا سنائی گئی۔
2015: راحیل شریف کے ماتحت فوجی عدالتیں
دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سمیت 100 سے زیادہ شہریوں کو موت یا قید کی سزا سنائی گئی۔
دنیا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں سب سے زیادہ فوجی اہلکاروں نے کورٹ مارشل کا سامنا کیا ہے:
امریکہ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران، 1.7 ملین سے زیادہ امریکی فوجی اہلکاروں کا کورٹ مارشل کیا گیا، جن میں سے 130,000 کو بے سزا سنا کر فوج سے فارغ کیا گیا۔
سوویت یونین/روس: 1941 اور 1945 کے درمیان، تقریباً 994,000 سوویت فوجیوں کا کورٹ مارشل کیا گیا، جن میں سے 158,000 کو موت کی سزا سنائی گئی۔
برطانیہ: دوسری جنگ عظیم کے دوران، تقریباً 100,000 برطانوی فوجی اہلکاروں کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے 40,000 کو قید یا سخت مشقت کی سزائیں دی گئیں۔
جرمنی: دوسری جنگ عظیم میں، جرمن فوجی عدالت نے 50,000 سے زیادہ فوجیوں کا مارشل کیا، جن میں سے 30,000 کو انحطاط یا بزدلی کی وجہ سے سزائے موت دی گئی۔
فرانس: پہلی جنگ عظیم کے دوران، فرانس نے تقریباً 600,000 فوجیوں کا کورٹ مارشل کیا، جن میں سے 50,000 کو قید کی سزا سنائی گئی اور 1000 کو پھانسی دی گئی۔
پاکستان” میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے طریقے کار میں ایک سینئیر فوجی افسر پر مشتمل عدالت تشکیل دی جاتی ہے جس کے طریقے کار تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس افسر کے رینک کی مناسبت سے ایک مجاز اتھارٹی سزا کا فیصلہ کرتی ہے۔
اس عمل کے پہلے مرحلہ میں سب سے پہلے زیر تفتیش حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے۔ دوسرے مرحلہ میں ’سمری آف ایویڈنس‘ ریکارڈ کی جاتی ہے اور اگر ثبوت اور شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو آخری مرحلہ میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔
یہ امر جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں کسی افسر کو کیا سزا دی جائے گی۔ ان سزاؤں میں رینک واپس لینا، سہولیات کی واپسی سے لے کر قید بامشقت اور موت کی سزا تک شامل ہیں۔
اس طرح آرمی ایکٹ کے دفعہ 80 کے مطابق جنرل اور ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل عدالت آرمی چیف یا کوئی محاز افسر بلا سکتا ہے ،
فیلڈ جنرل اور سمری کورٹ مارشل آرمی کے برگیڈیئر عہدے سے کم کا آفسر نہیں بلا سکتا ،
ان عدالتوں سے سزا سنانے کے 40 دن تک مجرم آرمی چیف کو سزا کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے اور سزا یافتہ مجرم کو لگے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو وہ اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق رکھتا ہے ،
کورٹ مارشل کی عدالتی کارروائی کے دوران ، کوئی صحافی یا دیگر افراد اس پر
مثبت تبصرہ تجزیہ تو کرسکتا ہیں؟ لیکن” پاکستان پینل کوڈ 1860 سیکشن 505 عدالتی نظام پر منفی تنقید عوامی فسادات کو ہوا دینے والے بیانات جو عوام یا فوج میں خوف خطرہ یا پریشانی کا باعث بن سکتے ہوں” آرمی ایکٹ 1956، سیکشن 41 فوجی عدالتوں کی توہین سمجھا جاتا ہے ،
تاہم ناقدین اسے پابندی آزادی اظہار سمجھتے ہیں ،
جبکہ پاکستان سمیت کئی ممالک میں اس کے خلاف آواز اٹھانے پر سزائیں سنا گئیں ہیں
مثلاً . ہندوستان: سپریم کورٹ نے جاری مقدمات پر تبصرہ کرنے والے افراد اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے خلاف توہین عدالت پر کارروائی کی جاچکی ہے،
برطانیہ: اٹارنی جنرل نے توہین عدالت کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے جاری مقدمات پر تبصرہ کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے؟
اس لیےجاری عدالتی مقدمات پر بحث کرتے وقت احتیاط برتنا اور قانونی عمل کا احترام کرنا ضروری ہے۔،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *