سقوط ڈھاکہ ازسرنو تحقیق

تحریر ۔ نظام الدین

(قسط نمبر 1)

پاکستان میں اکثر جب کسی سیاسی رہنما پر جرم ثابت ہونے کے بعد قانون کارؤائی عمل میں لائی جاتی ہے تو وہ
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا تزکرہ بہت شدت سے شروع کرنے لگتا ہے، “تب” اس کا مقصد فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو زچ کرنے کی کوشش ہوتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی دکھتی رگ
ہے ؟
راقم نے اس سلسلے پر مشرقی پاکستان کے حوالے سے 1970 سے پہلے اور بعد کے اخبارات، ریڈیو ، ٹی وی ، پر مختلف سیاسی ؤ سماجی رہنماؤں کے انٹرویوز دیکھے ، خبریں تحقیقاتی مضامین ، کا مطالعہ کیا ، اور اس دور کے مختلف سیاسی سماجی جماعتوں کے کارکنوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے کرکے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا ازسرنو جائزہ لیا تو بہت سی نئی چیزیں ، انکشافات اور راز کھل کر سامنے آئے،
مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کے اسباب تو بے شمار ہیں لیکن جہاں اپنوں نے غداری کی، وہاں بھارت نے بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے بنگال میں مکتی باہنی کی زہنی ؤ عسکری تربیت کی انہیں ہتھیار فراہم کئے اور آن کے زریعے مشرقی پاکستان میں امن عامہ کی صورت حال تہہ ؤ بالا کی ، مکتی باہنی بنگالی قوم پرستوں کی ایک گوریلا فورس تھی ، جسے بھارت کے علاؤہ سوویت یونین سمیت کئی آمریکی تنظیموں اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل تھی ، مکتی باہنی کا سلوگن تھا؟
“آمار دیش ، تومار دیش” ،
“بانگللا دیش,بانگللا دیش”
اس نعرے کے ساتھ 7 دسمبر 1970 میں انتخابات شروع ہوئے تو 300 سو انتخابی حلقوں میں سے عوامی لیگ نے 160 پاکستان پیپلز پارٹی نے 82 نشستوں میں کامیابی حاصل کی باقی نشستوں پر نیشنل عوامی پارٹی نے انتخابات جیتے ، عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کا جب وقت آیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ تناؤ شروع ہوگیا ، دوسری طرف فوجی قوتیں بھی عوامی لیگ کو اقتدار سونپ نے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوئیں ، اس سیاسی ، سماجی اقتصادی اور ثقافتی عوامل کے دوران 12 نومبر 1970 کو بھولا نامی سائیکلوں مشرقی پاکستان سے ٹکرا گیا جس سے ایک اندازے کے مطابق تقریبا 10 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے یہ تاریخ کی سب سے مہلک قدرتی آفات میں سے ایک تھی اس طوفان کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں حکومت کے ردعمل کو مشرقی پاکستان کے لوگوں نے ناکافی سمجھا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان ہوا اور بالآخر مارچ 1971 میں جنگ چھڑ گئی ،
اس جنگ کے شروع دن سے پاکستانی میڈیا امریکا کے ساتویں جنگی بحری بیڑے کا زکر ہر خبر میں کرتا رہا جو خلیج بنگال میں تعینات تھا، لیکن اس نے براہ راست تنازعہ میں حصہ نہیں لیا۔ بلکہ ممکنہ طور پر بحری بیڑے کی موجودگی کا مقصد خطے میں امریکی شہریوں اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا امریکہ نے جنگ کے تنازعہ میں غیر جانبداری کا اعلان کیا ہوا تھا، اس لیے بحری بیڑے کو شامل کرنا اس کے موقف کی خلاف ورزی ہوتا۔ امریکہ پہلے ہی ویتنام کی جنگ میں ملوث تھا اس لیے وہ خطے میں کسی اور تنازعہ میں الجھنا نہیں چاہتا تھا سات ویں بحری بیڑے کی موجودگی کا مقصد تنازعہ میں براہ راست شریک ہونے کے بجائے سوویت یونین کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھنا تھا۔ خاص طور پر سوویت یونین کے بڑھتے اثرورسوخ کے بارے میں فکرمند تھا اور وہ وسیع تر تنازعے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا
یہ بات قابل غور ہے کہ سات وین بحری بیڑے نے جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا، جبک پاکستان کا سرکاری میڈیا جنگ میں شامل ہونے کے اشارے دے دیا تھا ؟
بعض ذرائع کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو کچھ جنگی شاماں فراہم ضرور کیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے
300 ٹینک، 100 بکتر بند گاڑی
100توپ خانے 1,000ٹن گولہ بارود ، اور
سپیر جیٹ ایف 12-86 طیارہ ،
امریکی فوجی اہلکاروں کی موجودگی کے حوالے سے اطلاعات تھیں کہ جنگ کے دوران امریکی فوجی مشیروں کی ایک قلیل تعداد پاکستان میں موجود تھی تاہم ان کا صحیح کردار اور مقام واضح نہیں ہوسکا،؟ دوسری طرف چین سوویت یونین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا اور وہ کسی ایسے تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا تھا جو اس کی بنیادی ترجیح سے ہٹ جائے اس لئے امریکہ اور چین نے زیادہ واضح طور پر پاکستان کی حمایت نہیں کی
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ جنگ سیاسی سازشوں کا نتیجہ تھی عالمی طاقتوں خاص کر امریکہ اور سوویت یونین نے اپنے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اس تنازعے کو بڑھاوا دینے میں کردار ادا کیا تھا ؟ بظاہر تو امریکہ اور چین نے پاکستان کی حمایت کی تاہم جیسے جیسے جنگ میں شدت آتی گئی پاکستانی فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس منظر عام پر آئیں تو چین اور امریکہ سمیت بین الاقوامی رائے عامہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے حق میں منتقل ہوگئی تھی ،
جس طرح ہندوستان نے مشرقی پاکستان کے آزاد ہونے کی حمایت کی۔تو سوویت یونین نے ہندوستان کی حمایت کی اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا ویٹو کردیا۔ عالمی برادری کی طرف سے جنگ کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، بہت سے ممالک اسے نسل کشی کے طور پر دیکھتے ہیں۔اسلامی تعاون کی تنظیم (OIC) جنگ کے دوران غیر فعال رہی اور بہت سے مسلم اکثریتی ممالک تشدد کو روکنے کے لیے مداخلت کرنے میں ناکام رہے۔ اس جنگ نے مسلم دنیا کے اندر تقسیم اور مسلم اکثریتی ممالک کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے کام کرنے والے ممالک کو مایوس کیا، پاکستانی سیاسی قیادت مشرقی پاکستان کو الگ ہونے سے روکنے کی حکمت عملی اپنا سکتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ،
تقسیم پاکستان کے بعد بنگال کو تین انتظامی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا ڈھاکہ چٹاگانگ ،اور راجشاہی۔
1960 میں، حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان کو 17 اضلاع میں تقسیم کیا تھا ،
جنہیں اپیزائل کہا جاتا تھا،
سنہ 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد، ملک کو ابتدائی طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا گیا: ڈھاکہ، چٹاگانگ، کھلنا اور راجشاہی۔ آج، بنگلہ دیش آٹھ ڈویژنوں میں تقسیم ہے، ہر ایک میں کئی اضلاع شامل ہیں۔ یہ ڈویژن : باریسال، چٹاگانگ، ڈھاکہ، کھلنا، راجشاہی، رنگ پور، سلہٹ، اور میمن سنگھ۔ ہیں
بنگالی: آبادی کا تقریباً 75-80%، جو کہ 1971 میں 65-70 ملین کی کل آبادی میں سے تقریباً 50-55 ملین افراد تھے۔ غیر بنگالی (بشمول اردو بولنے والے، بہاری، اور دیگر اقلیتی گروہ): آبادی کا تقریباً 15-20%، جو کہ تقریباً 10-14 ملین افراد تھے پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہتے ہوئے یہاں دو انتظامی نئے صوبے بنا کر بنگال کو بنگلہ دیش بنانے سے روکا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا
: ۔ریاست کسی ایک اختلاف پر نہیں ٹوٹتی اختلافات کے ساتھ اندورنی اور بیرونی شازشیں شروع ہوجاتیں تو بغاوت جنم لیتی ہے پھر غدار بھی پیدا ہو جاتے ہیں ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی کسی ایک واقعہ کاسبب نہیں تھی۔تاہم آخری گناہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے سرجاتاہے۔جوہوا برا ہوا۔بغیرچیک اینڈ بیلنس بھرپور طاقت کے استعمال کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ،۔چیک اینڈ بیلنس کا ہونا ہرنظام میں ضروری ہے۔اس دور کی اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہونے والی مسلسل غلطیاں چیک اینڈ بیلنس کانہ ہوناتھا۔ریاست میں چیک اینڈ بیلنس سے مراد متفقہ آئین ہوتاہے۔اور بدقسمتی سے پاکستان آزادی کے ابتدائی 23سال میں صرف ڈھائی سال تک آئین کے ماتحت رہا ۔اگر قومی قیادت آزادی کے ابتدا میں ہی سرجوڑ کر بیٹھ جاتی اورابتدا میں ہی 73جیسےآئین کا نفاذ ہو جاتا۔ مقننہ، عدلیہ، انتظامیی ریاست کےبنیادی ستون اپنے اپنے دائروں میں کام کرنا سیکھ لیتے تو یقینا پھر سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے سے محفوظ رہا جاسکتا تھا ، (جاری ہے،)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *