تاریخ کےگمشدہ واقعات

تحریر ۔ نظام الدین

شہروں ، دیہاتوں، سے نکلنے والے راستے، چورہائے، محلے، وہاں ،بنائی جانے والی دوکانیں مکانات اور وہاں پنپنے والا معاشرہ سب بدلتے زمانے کے ساتھ تبدیل ہوتے جاتے ہیں ، لیکن” یہ بات طے ھے کہ وہاں رہائش پذیر کچھ بزرگ، ادھیڑ عمر نوجوان اور بچے زندگی کے معمولات اور مسائل سے نبرد آزما ہورہے ہوتے ہیں، یوں پرانے دور کی سوچ طور طریقے، رویے ادب انداز فکر اور اخلاقی پیمانے نئی نسل کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ نئے تہذیبی رویوں کی تشکیل میں خاص انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں، اور رکاوٹیں بھی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں” “لائنز ایریا” بھی ایک ایسی بستی ھے جسے برطانوی دور میں قائم کیا گیا، جس کے ایک علاقے جٹ لائن میں بیریکوں کی قطار میں پہلی بیرکس1/1 کے فلیک کی تختی پر تاریخ 1838 تحریر تھی جس پر برطانوی افواج کے ایچ ایم 28رجمنٹ کے لیفٹننٹ کرنل چارلس نیپینر کا نام درج تھا، جبکہ بجٹا لائنز کے برابر گورا قبرستان کی پہلی قبر کی سلیپ پر 1843 درج ھے، جو اسی چارلس نیپینر کی جواں سال بیٹی ماریا کاٹن کی ھے ، جب چارلس نیپینر نے اس جگہ کی بنیاد رکھی تھی تو تاریخ بتاتی ھے یہ بیاباں جنگل تھا اس جنگل میں برطانوی فوجی افسران اور جوانوں کے لیئے بیرکس اور لائنز بنائیں گئی، جیکب لائن، جٹ لائن، ٹیونیشیا لائن بزرٹالائن، اے بی سینیا لائن ان بیرکوں کے ارد گرد کے نام آن برطانوی فوجیوں کے نام سے منسوب کیے گئے جنہوں نے ان کی تعمیر میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا تھا، بعد میں اسے “لائنز ایریا” کے نام سے پکارا جائے لگا، جب 1980 میں آس ابادی کو ازسرنو تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس منصوبے کے روح رواں – جٹ لائن کے رہائشی اور سیاستدان جناب ظہور حسن بھوپالی کے نام سے منسوب کرکے اسکا نام گلشن ظہور رکھا گیا ، فوجی رہائشی علاقہ ہونے کی وجہ سے برطانوی حکومت نے یہاں شہر کو پانی سپلائی کرنے کے لیئے زخیرہ آب کی بنیاد ڈالی جس کے ذریعے آج بھی کراچی کے بیشتر علاقوں کو پانی یہاں سے سپلائی کیا جاتا ھے، آس زخیرہ آپ کے مین گیٹ پر آس کے تیار ہونے کی تاریخ موجود ھے، “لائنز ایریا” کے ماحول کو سرسبز بنانے کے لیئے درخت بیل بوٹے اؤر رنگ برنگی پھول برطانوی دور میں لگائے گئے تھے جو اب ناپید ہیں، تقسیم ہند کے بعد مہاجرین کراچی ائے تو اس کنٹونمنٹ ایریاز میں قیام پذیر ہوگئے، نئی ابادی میں، سماج اور ابادی کی تبدیلی کے حیرت انگیز تغیرات رونما ہوئے، نئے چوراہے،چائےخانے، علمی درسگاہیں، دوکانیں، مکانات، اؤر محلے وجود میں آگے، اسٹوڈنٹس، لیڈر ،شاعر، علمائے دین، ادیب ، کاروباری، سیاسی، جواری، سٹہ باز، بیوروکریٹس، ڈپلومیٹس، اور بدمعاش، سب اس سماج کا حصہ ہوگئے، لیکن ان میں الگ الگ خانے بنے ہوئے تھے،کوئی سیاست کا رسیا تھا کوئی شکار کا شوقین ، کسی کا مشن کسی بھی طرح دولت حاصل کرنا تھا، اور کچھ لینڈ مافیا بن گئے تو کچھ بدمعاش، زمانہ بدلتا گیا، انگریز کے دور کے لوگ ختم ہوئے، 1947 میں آنے والے مہاجرین کا دور شروع ہؤا، ان میں سے کچھ مشہور شخصیات کے واقعات یہاں اسے بھی رونما ہوئے جو اخبارات میں شائع ہوکر بہت مشہور ہوئے، آن واقعات میں کچھ ایسے بھی واقعات ہیں جس کا علم آج کے بچوں کو شاہد نہیں ہوگا؟ “قیام پاکستان سے اٹھ دن پہلے حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب جیکب لائن پہنچے تھے اور یہاں چھوٹی سی برطانوی دور کی قائم مسجد میں امامت اور دیگر زمہ داریاں اعزازی طور پر سنبھال لیں، آس وقت مسجد کی بنیاد رکھنے والوں کے نام کسی کے علم میں نہیں تھے ، لیکن جب 1960 میں مسجد کی تعمیر نو کا کام شروع ہؤا تو کھدائی کے دوران سنگ مرمر کا ایک قدیم کتبہ نکلا جس پر 1911 کی تاریخ درج تھی جس پر بلوچ رجمنٹ کے سپاہیوں کے نام ملھوالے، حق نواز لرڑ، نصیر کھوکھر، درج تھے ، یہ خبر اخبار میں شائع ہوئی “لیکن” مولانا احتشام الحق تھانوی کی دوسری خبر اخبارات کی زینت آس وقت بنی جب 1970کے انتخابات کے دوران مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ نے مرکزی جمعیت علماء اسلام کے نام سے الگ جماعت قائم کی تب: اخبارات میں جمعیت علماء اسلام (تھانوی) اور جمعیت علماء اسلام (ہزاروی) کے نام شائع ہونے لگے اور جب کراچی میں ہی مولانا ارشاد الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تیسرا دھڑا بنایا تو اسے جمعیت علماء اسلام ( حقیقی) لکھا گیا “تب” جناب شورش کاشمیری صاحب نے چٹان اخبار میں کالم “قلم قتلے” میں آس پر تبصرہ لکھا جو بہت مشہور ہوا، آج بھی وہ اخبار لائبریریوں میں محفوظ ھے،۔ آس طرح عوامی شاعر حبیب جالب کے سب سے چھوٹے بھائی سعید پرویز روزنامہ ایکسپریس میں لکھتے ہیں بٹوارے کے بعد ہمارا خاندان دہلی سے کراچی پہنچا تو جٹ لائن کا علاقہ ہمارا مسکن بنا جہاں سرکاری کوارٹر ہمارے بڑے بھائی مشتاق مبارک کے نام الاٹ کیا گیا وہ محکمہ اطلاعات و نشریات میں افسر تھے مشتاق سے چھوٹے بھائی حبیب جالب میں اور ہمارے پڑوسی رسا چغتائی، فرید جاوید، جو آپنے وقت کے مشہور شاعر اور ادیب بننے، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیئے جیکب لائن سرکاری اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں بڑے بڑے سرکاری افسران کے بچے اور تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنماؤں کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے نصراللہ خان یہاں تاریخ اور اردو کے استاد تھے آن کے کالم “حرف ؤ حکایت” بہت پڑھا جاتا تھا،۔ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر اے ٹی چوہدری یہاں انگریزی کے استاد تھے، اس اسکول میں ایک طالب علم ایسا تھا جو سائیکل پر اسکول آتا تھا یہاں کے اساتذہ دوپہر میں آس سے صدر سے سالن روثی منگوا لیا کرتے تھے اسکول کے کسی ٹیچر نے کبھی آس شاگرد سے نہیں معلوم کیا وہ کون ھے اؤر نہ کبھی آس نے بتایا جب وہ سائیکل والا شاگرد پاکستان بینکنگ کونسل کا چیرمین بنا تب اسکا نام اخبار میں شائع ہوا جمیل نشتر ولدیت سردار عبدالرب نشتر ،بعد میں نصراللہ خان نے جمیل نشتر پر ایک مضمون لکھا ، جو بہت مشہور ہوا، “اسی” طرح دو خاندان تاج محل کے شہر آگرہ سے ہجرت کرکے کراچی پہنچے ایک خاندان، اے بی سینیا لائن میں آباد ہوا جبکہ دوسرا خاندان بی ہینڈ جیکب لائن میں آباد ہوا آس خاندان کا ایک لڑکا منور خان بدمعاش اور پولیس کا مخبر بنا جبکہ دوسرے خاندان کا ایک لڑکا کراچی یونیورسٹی کا طالب علم اور ایک مہاجر طلباء تنظیم کا بانی” کہلایا مارشل لاء کے دور میں اس مہاجر طلباء تنظیم کے بانی پر ایک مقدمہ قائم ہوا ، آس مقدمہ کے خلاف عدالت میں گواہ وہ مخبر منور خان بنا جس کی گواہی پر مہاجر طلباء تنظیم کے بانی سزایافتہ ہوگے،۔ اور مزے کی بات یہ ھے کہ دونوں بھارت کے شہر آگرہ سے ہجرت کرکے ایک وقت میں۔ “لائنز ایریا” میں آباد ہوئے تھے؟ ھے نہ عجیب بات؟ اس واقعہ کو آج بھی اخبارات میں شائع کیا جاتا ھے،
آگے جاری ھے،،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *