تحریر۔نواز رضا
بالآخر وہی ہوا جس کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ بلند آواز میں کہہ رہے تھے کہ ہمارے نمبرز پورے نہیں لہذا ہمیں اس وقت تک آئینی ترمیم لانے کی بات زبان پر نہیں لانی چاہے جب تک ہوم ورک مکمل نہیں ہو جاتا حکومت کے پاس نہ صرف قومی اسمبلی میں پورے نمبر نہیں تھے بلکہ سینیٹ میں بھی اس کو کم از کم 10 ارکان کی کمی کا سامنا تھا اس صورت حال میں جمعیت علما اسلام کے ارکان کی اہمیت بڑھ گئی اور پھر مولانا فضل الرحمنٰ نے حکومت کو وہ تگنی کا ناچ نچا یا الاماں الحفیظ۔
مولانا فضل الرحمن تمام تر دباؤ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ثابت کر دکھایا کہ وہ مطالبات منوائے بغیر بازار سیاست میں اپنے ارکان کا سودا نہیں کریں گے وہ کل تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اتحادی تھے 8 فروری 2024 کے انتخابات نے ان کو اپوزیشن بنچوں پر لا بٹھایا تاحال مولانا فضل الرحمنٰ نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی مانی اور نہ ہی وزیر اعظم شہباز شریف کی ایک سنی۔ حکومت عجلت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کرانے پر تلی ہوئی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن کے عدم تعاون سے آئینی ترمیم موخر کر نا پڑی معلوم نہیں مولانا فضل الرحمن کو منانے میں ہفتہ عشرہ لگتا ہے یا پھر انگور کھٹے ہونے کی کہاوت صادق ثابت ہوتی ہے اور آئینی ترمیم کی فائل وفاقی وزارت قانون و انصاف کی الماریوں کی زینت بن جاتی ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم عام ترمیم نہیں جس پر تمام سیاسی جماعتیں آنکھیں بند کر دستخط کر دیں یہ آئینی ترمیم عدالتی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنے کی ترمیم ہے اگرچہ کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے واویلا کیا گیا کہ آئینی ترمیم کا مسودہ ہی سامنے آیا لیکن اس کے باوجود اس کو منظور کرانے کے لئے پورا زور لگایا جا رہا ہے جب کہ اصل صورت حال یہ کہ حکومت نے ایک ورکنگ پیپر بنایا گیا ہے جس میں ترامیم ہوتی رہی ہیں مولانا فضل الرحمنٰ نے شروع دن سے ایسا طرز عمل اختیار کر رکھا تھا جس سے کوئی ان کے بارے میں حتمی رائے کا اظہار مشکل نظر آتا تھا اگرچہ وہ کچھ باتوں کی حمایت کر رہے تھے کچھ کی مشاورت۔
وہ وسیع تر مشاورت کا درس دے رہے تھے قومی اسمبلی کے اجلاس کے غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہونے سے قبل انہوں نے ایوان میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ”جے یو آئی ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی کسی صورت حمایت نہیں کرے گی“ ۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ فی الحال آئینی ترمیم کو موخر کر دیا جائے اور اس ترمیم پر اسی طرح اتفاق رائے پیدا کیا جائے جس طرح ماضی میں منظور کی گئیں ترامیم کے وقت کیا گیا۔
مولانا فضل الرحمنٰ کو 26 ویں آئینی ترمیم کی کچھ شقوں پر تحفظات ہیں اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی یہ آئینی ترمیم کسی صورت قبول نہیں اڈیالہ جیل کے قیدی نمبر 804 نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ”اس ترمیم کا مقصد مجھے جیل میں رکھنا ہے حکومت آئینی عدالت اس لئے لا رہی ہے سپریم کورٹ سے ڈری ہوئی ہے“ شنید ہے کہ آئینی ترمیم میں 54 تجاویز ہیں اس آئینی ترمیم میں ”میثاق جمہوریت“ کو بنیاد بنا کر آئینی عدالت کے قیام کی تجویز رکھی گئی ہے یہ بات قابل ذکر ہے 2006 میں لندن میں مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے بعد ازاں پی ٹی آئی سمیت کئی جماعتوں نے اس دستاویز سے اتفاق رائے کیا تھا اگرچہ حکومتی حلقوں کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے مولانا فضل الرحمن کو راضی کر لیا جائے گا لیکن سر دست مولانا فضل الرحمن کی گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے انہوں نے حکومت کی طرف پیش کردہ آئینی ترامیم کے مسودہ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اس کو بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں جب کہ بلاول بھٹو زرداری اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی مسلسل مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کر رہے ہیں صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقاتوں کے بعد نواز شریف کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات متوقع تھی لیکن مولانا فضل الرحمنٰ کے سخت موقف کے باعث نواز شریف کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کیے بغیر لاہور واپس چلے گئے۔ کہا جاتا ہے آئینی ترمیم میں سویلین کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوانے کی تجویز ہے وفاقی آئینی عدالت چاروں صوبوں کے چیف جسٹسز اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل بنائی جائے گی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے لئے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیر اعظم کو بھجوائے گی۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی 3 ججوں میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی یہ کمیٹی قوی اسمبلی کے 8 ارکان پر مشتمل ہوگی جس کا انتخاب سپیکر قومی اسمبلی کرے گا۔ اس میں نمائندگی پارلیمانی پارٹی کے تناسب سے دی جائے گی۔ کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 7 روز قبل سفارشات وزیر اعظم کو بھجوائے گی مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے جج کی مدت ملازمت 65 سے 68 سال کر دی جائے گی۔ سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3 سال کے لئے تعینات ہو گا۔
اسی طرح 26 ویں آئینی ترمیم میں 19 ویں ترمیم کی تنسیخ بھی شامل کی گئی ہے جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے دباؤ ڈال کر ججوں کی تقرری کا مکمل اختیار وفاقی جوڈیشل کمیشن کے پاس رکھ لیا تھا اب آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں ترمیم کرنے کی تجویز ہے مجوزہ آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 163 میں ترمیم کرنے کی تجویز شامل ہے آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف دیے جانے والے ووٹ کو شمار کرنے کی بھی تجویز ہے۔
کل تک پی ٹی آئی کی قیادت کی توپوں کا رخ مولانا فضل الرحمن کی طرف تھا اپنی زبان سے ایسے چرکے لگائے جو تاحال مندمل نہیں ہو سکے آج وہ ان کے ساتھ باہم شیرو شکر ہے بلکہ ان کے سامنے بچھی جا رہی ہے اسد قیصر نے مولانا فضل الرحمنٰ کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کر دیا اور پھر وہاں پر مولانا فضل الرحمنٰ سے حکومتی مسودہ مسترد کرانے کا اعلان کرا دیا وکلا تنظیمیں بھی آئینی ترمیم کے خلاف سرگرم عمل ہو گئی ہیں تحریک چلانے دھمکیاں دی جا رہی ہیں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم تارڑ نے بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیا ہے حکومت کی طرف سے برملا کہا جا رہا ہے بلاشبہ 26 اکتوبر 2024 ء سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے۔
بظاہر 26 ویں آئینی ترمیم کو عدالتی اصلاحات کا نام دیا گیا ہے لیکن اس میں شامل کی گئی بعض شقوں کو پی ٹی آئی مارشل لاء سے تعبیر کر رہی ہے عمران خان نے تو کھلم کھلا کہہ دیا ہے کہ آئینی ترمیم کا مقصد 3 امپائرز کی مدت ملازمت میں توسیع ہے۔ سردست مولانا فضل الرحمن ”ناں“ کر کے آئینی ترمیم کو موخر کرا دیا ہے لیکن تا حال پی ٹی آئی کے بانی عمران خان مولانا فضل الرحمنٰ کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہوں نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”فضل الرحمن کے کردار بارے کچھ کہہ نہیں سکتا۔
حکومت نے آئینی ترمیم لانی ہی ہے۔ پی ٹی آئی کو مولانا فضل الرحمن کے“ نعرہ مستانہ ”سے تقویت ملی ہے جس کے باعث انہوں نے اپنی توپوں کا رخ تبدیل کر دیا ہے اور تلواریں نیام میں رکھ دی ہیں جوں ہی مولانا نے آئینی ترمیم کے کچھ حصوں کو قبول کر لیا تو پھر پی ٹی آئی کا رد عمل دیدنی ہو گا اس وقت پوری حکومت مولانا فضل الرحمن کی“ ہاں یا ناں ”پر کھڑی ہے۔