بلوچستان۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

تحریر۔عبدالواحد سجاد

بلوچستان میں عسکریت کی ایک لمبی تاریخ ہے یہ پہلی جنگ عظیم سے شروع ہوتی ہے جب 1916 ء میں بریگیڈیئر ڈائر نے بلوچستان میں آپریشن کیا تھا دوسری عسکریت 1948 ء، تیسری 1958 ء، چوتھی 1962 ء، پانچویں 1973 ء، اور چھٹی 2006 ء میں شروع ہوئی۔ بلوچستان کی آگ! کی بنیاد ہمارے مقتدرین کی اپنی غلطیاں ہیں۔

ہمارے بہت سے دانشور لاعلم ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت بلوچستان اس میں شامل نہیں تھا۔ مکران، خاران، لسبیلہ اور قلات 1948 ء میں پاکستان میں شامل ہوئے البتہ اکبر بگٹی اور شاہی جرگے میں شامل کچھ بلوچ سرداروں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے کر ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ باقی ریاستوں کو بھی پاکستان میں شامل ہونا پڑا۔

خان آف قلات میر احمد یار خان بلوچ ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہوئے۔ ریاست نے انہیں بلوچ شناخت کے ساتھ ایک صوبہ دینے کا وعدہ کیا۔ 1955 ءمیں ون یونٹ بنا کر ان سے وعدہ خلافی کی گئی تو ، نوروز خان لگ بھگ ایک ہزار ساتھیوں سمیت پہاڑوں پر چڑھ کر برسرِ پیکار ہو گئے۔ 1960 ء میں حکومت نے ون یونٹ کے خاتمے اور نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو عام معافی دینے کا وعدہ کیا۔ نوروز خان نے ماضی کے تجربات کی بنا پر ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تو حکومت نے ایک جرگہ ان کے پاس بھیجا، جرگے نے قرآن مجید کو ضامن بنایا اور حکومت کا عام معافی کا وعدہ دہرایا، نوروز خان اپنے ساتھیوں سمیت قرآن کے سائے میں پہاڑوں سے اتر آئے مگر ان کے ساتھ پھر بد عہدی کی گئی، قرآن کو گواہ بنا کر جھوٹ بولا گیا۔ جنرل ایوب خان نے نوروز خان اور ان کے 160 ساتھیوں پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا۔ ان کے بیٹے سمیت سات افراد کو پھانسی دی گئی۔ 95 سال کی عمر میں، نوروز خان کا بھی جیل میں ہی انتقال ہو گیا۔ نوروز خان بلوچستان میں ایک دیو مالائی کردار ہیں وہ قلات کے حقوق کے لیے انگریز سے لڑتے رہے۔

جنرل پرویز مشرف جنہوں نے لال مسجد پر قیامت برپا کی۔ اس کی کوکھ سے مذہبی دہشت گردی نے جنم لیا۔ ایک افسر نے پنجاب کی لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کو ریپ کیا اور اس پر تشدد کیا۔ یہ واقعہ اکبر بگٹی کے علاقے میں پیش آیا تھا۔ اکبر بگٹی نے مطالبہ کیا کہ مجرم کو پکڑ کر سخت سزا دی جائے۔ مطالبے پر مشتعل ہو کر مشرف نے اکبر بگٹی، ان کے خاندان اور سینکڑوں ساتھیوں کو راکٹوں اور میزائلوں سے حملہ کر کے مار ڈالا۔ وہاں سے بلوچستان میں دہشت گردی کے نئے سوتے پھوٹے جنرل پرویز مشرف نے 2006 ء میں چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کے ذریعہ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات کے نام پر اسی طرح کا دھوکہ کیا جیسے نوروز خان کے ساتھ کیا گیا تھا 80 سالہ نواب اکبر بگٹی کو 26 اگست 2006 ءکو شہید کر کے لواحقین کو ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھنے دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے سینہ تان کر کہا تھا کہ ہم نے ریاست کے ایک دشمن کا خاتمہ کر دیا۔ آج اکبر بگٹی کا نام بھی بلوچی لوک گیتوں میں شامل ہے۔

نواب اکبر بگٹی نے تمام عمر پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کی مدد کی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ وہ 1958 ء میں ملک فیروز خان نون کی حکومت کے وزیر داخلہ تھے۔ گوادر کو پاکستان میں شامل کرانے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ جس حکومت نے گوادر کو پاکستان میں شامل کیا اس کو جنرل ایوب خان نے برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا اور بگٹی کو جیل میں ڈال دیا۔ 2009 ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر اکبر بگٹی کے قتل کی ایف آئی آر جنرل پرویز مشرف کے خلاف درج کی گئی۔ سات سال تک یہ مقدمہ چلا۔ مشرف ایک دفعہ بھی عدالت نہیں آئے اگر اس مقدمے میں جمیل اکبر بگٹی کو انصاف مل جاتا تو شاید وہ حالات پیدا نہ ہوتے جن سے آج بلوچستان دوچار ہے۔

26 اگست 2024 کو اکبر بگٹی کی 18 ویں برسی پر بلوچستان میں جو قیامت برپا ہوئی، اس نے سب کو سہما کے رکھ دیا اور سیکورٹی نظام کی کمزوری کو بھی آشکار کر دیا۔ دہشت گردوں نے ایک جگہ 23 شہری شناختی کارڈ دیکھ کر شہید اور دس زخمی کر دیے، درجنوں گاڑیاں، بسیں نذر آتش کر دیں۔ ایک جگہ گھات لگا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 14 ارکان شہید اور ایک جگہ 6 لاشیں لٹکا دیں، ایک اور مقام پر 5 شہری شہید، دو جگہ سے ریلوے کے پل اْڑائے، دو مقامات پر تھانے قبضے میں لے لئے، کوہ سلیمان میں پنجاب بلوچستان کو ملانے والی شاہراہ پر قبضہ کر لیا۔

بلا شبہ بلوچستان کی دہشت گرد تنظیموں کے سر پر بھارت کا ہاتھ ہے۔ وہ پیسہ بھی دے رہا ہے اور اسلحہ بھی لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں تربیت اور پناہ کون دیتا ہے۔ شنید یہ ہے کہ یہ دونوں کام بھارت نہیں، ہمارے دو برادر اسلامی ملک کر رہے ہیں، اس لیے ’برادران ”کا نام نہیں لیا جاتا۔

کچھ عرصہ قبل ٹی ٹی پی کا بی ایل اے سے جھگڑا تھا، پھر صلح کرانے والوں نے باہم شیر و شکر کر دیا، اب ہدف بھی مشترکہ ہے تو حکمت عملی میں رابطہ کاری بھی ہے۔ طے شدہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے تین ٹکڑے کرنے کے منصوبے پر عمل شروع ہے اور منصوبے کے اندرونی سہولت کار بھی سرگرم ہیں۔ اگرچہ فیض کی گرفتاری کے بعد سہولت کاروں کی کمر پر ضرب تو پڑی ہے لیکن کمر ابھی ٹوٹی نہیں۔ ایک طرف بھارت اور دو برادر اسلامی ملک کی ایک تکون ہے تو دوسری تکون میں امریکہ کی پاکستان مخالف لابی، برطانیہ کی گولڈ سمتھ لابی اور اوورسیز پاکستانیوں میں گھسے ہوئے اکھنڈ بھارتی اور خود ساختہ جلاوطن شامل ہیں۔

دہشت گردی کے عفریت بھارت اور دو برادر اسلامی ملکوں کے سائے میں آگ کو بھڑکا رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے سیاسی مخالفین کے عزائم کا تو ہفتوں پہلے علم ہو جاتا ہے ان کے فون سنتے ہیں۔ خفیہ کیمرے نصب ہیں کہ ملک کی سلامتی کو سب سے زیادہ خطرہ ان سے ہی لاحق ہے۔ کچے کے ڈاکو۔ دہشت گرد۔ انتہا پسند جو منصوبہ بندی کرتے ہیں ٹیلی فونوں، سوشل میڈیا پر یا میٹنگیں کر کے اپنی اپنی کمین گاہوں سے نکلتے ہیں۔ وہ ہمارے مستعد اداروں کو پتہ نہیں چلتا۔ بلوچستان کے حقوق کی جنگ کرنے والے بھی جان لیں کہ حقوق غصب کرنے والے بسوں میں سفر نہیں کرتے۔ ان کے ذاتی جہاز، پراڈو، لینڈ کروزر یا فضائی کمپنیوں کی فرسٹ کلاس ہے۔ شہید کیے جانے والے تو بے چارے تلاش معاش میں نکلے تھے۔ بلوچستان کی سرزمین تو پناہ دینے کے لیے نیک نام ہے۔ بلوچی کہانیاں اور شاعری تو انہی اقدار سے معمور ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اس سانحے کے بعد حملہ آوروں کی فوری گرفتاری پر توجہ دینے کی بجائے وزراء نے حملہ آوروں کو لاپتہ افراد قرار دینا شروع کر دیا۔ یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کے ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانے کے لئے یکجہتی کی ضرورت تھی لیکن اس معاملے میں وفاقی وزراء کا موقف تضادات کا شکار تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے کسی بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں ان کے لیے تو ایک ایس ایچ او کافی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ دہشت گردوں کے پیچھے بھارت ہے اور ان کے خلاف فوج سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ایک بڑا آپریشن کرے گی۔ اس دوران بلوچستان کے علاقے بیلہ میں ایک خود کش حملہ تربت یونیورسٹی کی قانون کی طالبہ مہل بلوچ نے کیا۔ حملے کے بعد مجید بریگیڈ نے اس کی تصویر بھی جاری کی۔ مہل بلوچ کا تعلق گوادر کے ایک معروف سیاسی گھرانے سے تھا۔ ہمارے مقتدرین نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ خودکش حملہ کرنے کیسے پہنچ گئی؟ اس سے جڑا ایک مسئلہ لاپتا افراد کاہے۔ باپ، بیٹے، خاوند، بھائی، ان کا ذکر کبھی عدالتوں میں سنائی دیتا ہے، کبھی پارلیمان میں، خصوصی کمیشن بھی بنتے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ لاپتا افراد ’بیانیے‘ کا نہیں، انسانی مسئلہ ہے۔ ایسے افراد کے لواحقین کی ذہنی ساخت اور ان کی زندگی کا واحد نصب العین کیا ہو سکتا ہے؟ اس پر کبھی کسی نے غور کیا۔ جب گھر کے صحن میں پیاروں کی لاشیں پڑی ہوں تو جذبات میں تلاطم کیسے نہ ہو؟ موقع سے فائدہ اٹھانے والے بھی متحرک ہو جاتے ہیں، بلوچستان کی آگ کہہ مکرنیوں وعدہ خلافیوں اور لاپتا افراد کے کرب کا نتیجہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *