الفاظوں کا رزق

(ترتیب)
(نظام الدین)

رب کائنات کی طرف سے رزق کا ملنا ایک انعام ہے اور اس رزق کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: میں جس کے لیے چاہتا ہوں رزق وسیع کر دیتا ہوں اور جس کیلئے چاہتا ہوں تنگ کر دیتا ہوں
(سورت عنکبوت : 62)
ایسے ہی الفاظ کا معاملہ ہے کہ بعض لوگوں کو الفاظوں کا رزق اتنا وافر مقدار میں ملتا ہے کہ قلم کی نوک جیسے ہی قرطاس کے سینے پر رکھتے ہیں تو علم کا ایک بحر بیکراں جاری ہو جاتا ہے، ان کے قلم سے علم و معرفت کے اتنے موتی بکھر جاتے ہیں کہ بعد میں آنے والے لکھاری اپنی پوری زندگی ان کو چُن سکتے ہیں ، یہ وہ امیر کبیر اور ایلیٹ کلاس کے لکھاری ہوتے ہیں جن کے امیر ہونے کے پیچھے کئی سالوں کے مجاہدے تجربات اور مشاہدات ہوتے ہیں، ان کا فہم و ادراک گہرا اور مطالعہ وسیع ہوتا ہے، چیزوں کو مختلف زاویوں سے پرکھنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ انہیں اپنے خیالات و جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے لیے سوچنا نہیں پڑتا اور نہ ہی کوئی خاص ماحول درکار ہوتا ہے، بس قلم اٹھاتے ہیں اور لکھنا شروع کر دیتے ہیں، جملوں سے جملے وجود میں آتے ہیں اور سیکنڈز میں ایک خیال سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی طرف سفر کرتے چلے جاتے ہیں۔
دوسری طرف کچھ لکھاری ایسے ہیں جن کے پاس الفاظوں کا رزق کم مقدار میں ہوتا ہے اگرچے ان کا مطالعہ اچھا اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ جواں ہوتا ہے لیکن وہ الفاظ کی کڑیاں ملانا نہیں جانتے ، جب لکھنے کےلیے بیٹھتے ہیں تو علم کے سارے چشمے اچانک سے خشک ہو جاتے ہیں، ان کے قلم کی نوک بار بار رُک جاتی ہے، کچھ لکھتے ہیں اور مٹاتے ہیں ، پھر لکھتے اور مٹاتے ہیں، آخر کار قلم رکھ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کےلیے صبر کرنا ایک امتحان ہوتا ہے ،
ہم جیسے لوگ جن کے پاس نہ بہت زیادہ علم و حکمت ہے اور نہ قلم کی روانی کبھی مضامین کی آمد ہوتی ہے اور چھپڑ پھاڑ کر ہوتی ہے اور کبھی بالکل خالی رہتے ہیں۔ کبھی ایسا لکھ دیتے ہیں کہ بعد میں پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے یا خدایا! یہ الفاظ میرے ہیں ؟ اور کبھی پشیمانی ہوتی ہے کہ میں اتنی فضول بات کیسے لکھ سکتا ہوں؟ کبھی دل کا جام لبالب ہوتا ہے اور کبھی ایک گھونٹ کے لیے بھی ترستے ہیں۔
سورت رعد میں اللہ تعالی نے فرمایا:
اللہ کے ہاں ہر چیز ایک اندازے کے ساتھ ہوتی ہے۔
کس کو کتنا دینا ہے، وہ بہتر جانتا ہے، اس لیے الفاظوں کا رزق بھی وہ کسی کو زیادہ تو کسی کو کم دیتا ہے تاکہ وہ صبر و شکر کے ذریعے ہر آزمائش کو پورا کریں ،
میرا لکھنے کے ساتھ معاملہ رزق کی طرح اللہ پر توکل کرنے جیسا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا: اور زمین پر کتنے ہی چلنے والے ہیں جو اپنی روزی ساتھ اٹھائے نہیں پھرتے (بلکہ) الله (ہی) انہیں اور تمہیں روزی دیتا ہے ۔
(سورت عنکبوت: 60)
حدیث میں اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا:
اگر تم اللہ پر ایسے توکل کرنے لگ جاؤ جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے گا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، پرندے صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ لوٹتے ہیں۔
ایسے ہی لکھنے کا معاملہ ہے، میں صبح جب اٹھتا ہوں تو اللہ تعالی سے کہتا ہوں کہ اے دوجہاں کے مالک میرا کام ہے تیرے بندوں کے ساتھ ناانصافی ہوتے دیکھ کر قلم اٹھانا ، سوچنا ؤ سمجھنا اور تجھ سے ، دعا کرنا اور الفاظوں کا رزق دینا تیرا کام ہے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ صبح سے دوپہر تک سوچتا اور آوارہ گردی کرتا رہا کہ آج کیا لکھا جائے ؟ لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا اور پھر اچانک سے حقیقتیں شامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں جس کا مطالعہ کرنے والے دنگ رہ جاتے ہیں کہ دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے ؟
پھر کچھ لکھاریوں کو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ جیسے کچھ لوگ اپنے لیے حرام رزق جمع کرتے ہیں اور اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتے ہیں، ایسے ہی کچھ لکھاری بھی اپنی تحریروں میں حرام اور مکروہ چیزوں کو شامل کر لیتے ہیں ، ہر وہ تحریر جس سے معاشرے میں فساد، نفرت، مایوسی پھیلے، اسلام کی معتمد شخصیات پر طعن و تشنیع ہو، اسلامی شعائر کا مزاق اڑایا گیا ہو، کسی کی عزت پر حملے یا بہتان بازی کی گئی ہو، علم و عمر میں بڑے ہونے کے باوجود محض نفسانی خواہشات کی بنیاد پر کسی کو لتاڑا گیا ہو، جھوٹ کو پروموٹ کیا گیا ہو، تو یہ تحریر مکروہ ہوتیں ہیں ،
قرآن کریم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب کچھ لکھو تو عدل و انصاف کے سارے تقاضے پورے کر کے لکھو، تمہاری تحریر میں عدل کا پہلو نمایاں ہونا چاہیے، سورت بقرہ میں فرمایا:
اور تم میں سے جو شخص لکھنا جانتا ہو تو انصاف کے ساتھ تحریر لکھے۔
(سورت بقرہ: 282)
مذہبی، علاقائی، نسلی یا زبانی تعصب پر مبنی تحریر نہ لکھیں، حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈنڈی نہ ماریں، فیکٹس اینڈ فگرز میں ہیرا پھیرا نہ کریں، کسی ایک جانب بغیر دلیل کے جھکاؤ نہ ہو، کسی کی بات کا الٹا مطلب نہ نکالیں، کسی کی بات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش نہ کریں۔ یہ سب عدل کے تقاضے ہیں۔
الفاظوں کے رزق میں سے زکوۃ بھی نکالی جاتی ہے، اس لیے جن لوگوں کے پاس الفاظوں کا رزق ہے، ان پر ضروری ہے کہ اللہ کے دین کےلیے زکوۃ نکالیں اور اس کی سب سے بہترین صورت اپنے ملک کے غریبوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور مظالم پر قلم کا بھرپور استعمال کریں، دنیا کے مظلوموں کے لیے لکھیں ، فلسطین کے معاملے میں اپنی دانشوری اور انشاء پردازی نکالنا بھی زکوۃ ہے
اس وقت کتنے ہی قلم کار ایسے ہیں جو دنیا کے مظلوموں کے لیے نہیں لکھتے وہ قلم سے الفاظوں کا زخیرہ آن کے لیے کیوں نہیں نکالتے ؟ کیا قیامت کے دن اللہ ان سے نہیں پوچھے گا کہ میں نے تمہیں کتابت سکھائی تھی تو تم نے اسے میرے دین ،انسانیت اور ناانصافی کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا؟ اللہ تعالی نے تحریر لکھنے کی صلاحیت کی نسبت اپنی طرف کی ہے کہ یہ میں نے تمہیں سکھائی ہے: فرمایا
اگر کوئی شخص تمہارے پاس اپنا قرض لکھوانے آئے تو
لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے سکھایا ہے ، بس اسے چاہیے کہ لکھ دے۔
(سورت بقرہ: 282)
قرض لکھنے میں کسی کا بھلا ہو جائے گا جو لکھنا نہیں جانتا، یہ اُس کے ساتھ ایک نیکی ہو جائے گی اور آپ کے قلم کی زکوۃ نکل آئے گی۔
ایسے ہی جب ہم کسی مظلوم اور بے بس کے لیے قلم کے ذریعے آواز اٹھاتے ہیں تو در اصل یہ ہماری طرف سے شرعی اور اخلاقی فریضے کی ادائیگی ہوتی ہے۔
پھر جیسے رزق میں چوری ہوتی ہے ، ایسے ہی تحریروں میں بھی چوری ہوتی ہے اور تحریر کی چوری کرنے والے پر بھی ایسے ہی غصہ آتا ہے جیسے رزق کی چوری کرنے والے پر۔ اور آخری بات کہ جیسے مالدار انسان سے قیامت کے دن اس کے مال کے بارے میں سوال کیا جائے گا، ایسے ہی صاحب تحریر سے اس کی تحریر کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور جیسے سخی انسان کے بارے میں آتا ہے کہ اگر اس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے پیسہ خرچ کیا تھا تو اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں فرماتا ، ایسے ہی اگر لوگوں کی واہ واہ لینے کے لیے کسی نے دینی تحریروں کو غلط انداز میں لکھا تو اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں پکڑ نہ لیا جائے۔
خدا ہمارے الفاظوں کے رزق میں برکت دے، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی فکر دے، مظلوموں محکوموں کےلیے زکوۃ نکالنے کی ہمت دے ،
اور اخبارات کے وہ مالکان جو ان الفاظوں کو اپنے اخبارات کی زینت بناتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آن کے رزق میں غیب سے برکت عطا فرمائے آمین،،،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *